تحریر : شہزاد سلیم عباسی منڈی بہاو الدین سے تعلق رکھنے والے ماسٹر محمد ایوب کی زندگی عزم و ہمت اور استقلال کی روشن مثال ہے۔ اسلام آباد جیسے خاموش، پوش اور حکمرانوں کے شہر میں 34 سال سے تعلیم وتعلم کی مشعل لیے معصو م پھولوں کے چہروں پرعلم کی لالی بکھیرنے کی بھرپور تگ ودو کر رہا ہے۔ برس ہا برس سے سردی کی ٹھٹھرتی راتوں،گرمی کے تپتے دنوں،ساون کی گھٹائوں ،باد و باراں اور طوفانوں و زلزلوں کی پروا کیے بغیراپنے مقصد اورغیر متزلزل ارادے میں ہر رکاوٹ کا مقابلہ کرنا یقینا ”علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب ”کی عملی تصویر ہے۔ لاہور سے پیارے دوست شعیب ہاشمی کے بتانے پرکوہسار مارکیٹ سے ملحقہ پارک کے سکول”سکینڈ ٹائم سول ڈیفنس تعلیمی سکول” گلی نمبر 9، F/6-3 اسلام آبادپہنچا تو سائیکل پر ٹہلتے ٹہلتے آنے والے اس شخص کو بچوں نے پیار سے ماسٹر جی ماسٹر جی کہہ کر ویلکم کیا۔
ماسٹر محمد ایوب سے تعارف میں پتہ چلا کہ انہوں نے اپنے آبائی گائوں کو 76ء میں خیرآباد کہا اور سول ڈیفنس جوائن کیا جس سے پیٹ کی پیاس تو بجھنے لگی تھی لیکن دل کی پیاس اور تعلیم کے میدان میں غرباو یتماء کے لیے کچھ کر گزرنے کی لگن اور پیاس مزید بڑھنے لگی۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں اپنے زور بازوسے معاشرے کی بہتری کے لیے جو پودا لگایا تھا وہ آج سرسبز و شاداب دیکھائی دیا ۔ماسٹر جی کی سکول بیٹھک میں35 فیصد غریب و نادار بچے آتے ہیںجو سکول نہیں جاتے بلکہ ماسٹر جی کے مرہون منت ہیں۔
جبکہ انکے پاس پڑھنے ولے 55 فیصد بچے سکول بھی جاتے ہیںجو شام میں ان سے ٹیوش لیتے ہیں۔نرسری سے میٹرک تک 180 سے زائد بچوں کوتن تنہا علم کے نور سے سیراب کر تے ہیں اورمعاشرے کے طبقاتی نظام اور ظلم کے گرداب میں پسنے والے بے آسرا بچوں کی پیاس بجھا کر اس حدیث کا مصدا ق بنتے ہیں جس میں نبی ۖ فرماتے ہیں کہ”تم میں سب سے بہتر وہ (شخص) ہے جو علم سیکھے اور سکھائے”۔1982میںایک بچے سے (جو کہ اسلام آباد میں ایک گاڑی صاف کر رہا تھا)۔
Master Muhammad Ayub
علم کی روشنی پھیلانے کے لیے کٹھن سفر کا آغاز کیااس خواب کی عملی تعبیر 1984 میںایک بیٹھک سکول کی شروعات سے ہوئی۔ بعد میں ہزاروں بچوں بشمول بھٹہ پر کام کرنے والے بچوں، نوکری کے یے دربدر کی ٹھوکریں کھانے والوں، ریڑھی پر چنے ، گول گپے ،چھلی اور سبزی لگانے والے بچوں کی کفالت کی اور زیور تعلیم سے بھی آراستہ کیا۔انکے شاگر د آج ملک کے بہترین اداروں ، وزارتوں، پولیس کے محکموںاور سول ڈیفنس میں ملک و قوم کی خدمت کر کے ماسٹر ایوب کا نام روشن کر رہے ہیں۔ انکے درخشاں تلمیذان رشید رحمانہ گلزار، طارق ، سہیل، بشارت، زعفران علی، فرحت عباس وغیرہ ماسٹر جی کے خلوص کی روشن مثالیں ہیں۔
صبح میں اپنی معاشی ضرورت کے پیش نظرسول ڈیفنس میں بطور فائٹر انچارج اپنے فرائض منصبی سے عہدہ برا ہوتے ہیں ۔روزانہ شام ساڑھے تین بجے سے رات گیار ہ بجے تک نادار اور بے آسرا بچوں کی تعلیمی پیاس کربھجا کر اپنی قلبی و رحانی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ ایف سیکٹر، بری امام اور سید پور ویلج سے یہاں علم کے پیاسے چلے آتے ہیں۔ طویل جد وجہدکے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروںاور سی ڈے انتظامیہ کی طرف سے بھی تنگ کیا جاتا رہا ہے کہ یہاں سے کسی دوسری جگہ ہجرت کر جائو۔
ماسٹر جی کا کہنا ہے کہ 34 سالہ تعلیمی سروس میں بے شمار لوگوں نے دورے کیے لیکن کسی نے بھی نادار بچوں کی تعلیمی ضروریات، تعلیمی پسماندگی، غریب اور مستحق بچوں کے لیے میری محبت اور تڑپ کو محسوس نہیں کیا اسی یے آج تین عشرے گزر جانے کے باوجود بھی میں ”اوپن ایئر بیٹھک سکول ” میں ہی بچو ں کو پڑھانے پر مجبور ہوں۔تعلیم کا روشن استعارہ ماسٹر ایوب اپنی تنخواہ کا ایک حصہ اپنے گھر پر، ایک حصہ خود پر جبکہ تیسرا حصہ ”بیٹھک سکول” پر خرچ کرتا ہے۔
Master Muhammad Ayub Meeting
صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ ماسٹر جی اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر لوگو ں کی زندگیاں بچانے کا کام بھی خوب کرتے ہیں۔ لاہور پارک حملہ ، گھکھڑ پلازہ آتشزدگی ،میرٹ ہوٹل اسلام آباد اور پشاور اے پی ایس سانحے سمیت پاکستان بھر میں مختلف دھماکوں اورآفتوں میں پہنچ کر خدمت انسانیت کے جذبے کو تابندہ کرچکے ہیں۔ انہیں وزارت تعلیم نے 2012 میں اور سول ڈیفنس نے 2013 میں ایوارڈز سے نوازا۔ میرٹ دھماکہ میں اپنی جان پر کھیل کرچار لوگوں کو زندہ باہر نکالنے کے نتیجے میں ماسٹر جی کے جسم کا خاصہ حصہ بھی جھلس گیا۔ انکی انسانیت کے لیے تعلیمی و سماجی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے صدراتی ایوارڈ سے نوازا۔ ہر فکرو نظر ، ہر زاویہ و منصب، ہر دانا و کوتاہ، ہر عالم و جاہل، ہر صغیر وکبیر، مسلک و رہبر، ہر مذہب و دھرم ، ہر کتاب و صحیفہ اور کائنات کی ہرذی روح و بے جان کے نزدیک تعلیم و تعلم کی جداگانہ اور حیات انسانی کیساتھ لازم وملزوم کی حیثیت ہے۔
قومیں لباس وپوشاک، خوراک و ادویات اور پرشکوہ عمارات و تخیلات کے بغیر تو زندہ رہ سکتی ہیں۔اپنی جاندار اور باوقار پالیسی کے تحت ایٹمی ہتھاروں، جہازوں ، بندرگاہوں ، بل کھاتے پلوںاورسیراب نما سڑکوں کے بغیر بھی قدرت کے حسین مناظر کو دیکھا جا سکتا ہے۔ حکمرانوں اور اپوزیشن کی دھونس دھاندلی اور شور شرابے کے بغیر بھی جمہوری قدروں کو مضبوط کیا جاسکتا ہے لیکن زیور تعلیم کے بنا حیات انسانی کا تصور اور مقصد انسانیت کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
ہم بھی ماسٹر جی کی طرح تعلیم و تعلم کو اپنا مشن بنا کر علم کی قندیلیں جلا سکتے ہیں۔ حکومت وقت ، سماج اور سیاسی و سماجی تنظیمیں ماسٹر جی کے عظیم الشان مشن کو ضرور دیکھیں۔ ملک میں رائج نظام تعلیم ، مدارس اصلاحات ، پلڈاٹ رپورٹ ،سروے رپورٹس ،وفاق و صوبائی سطح پرتعلیم کی دگردوں صورتحال، تعلیم ایمرجنسی وقت کی اہم ضرورت اور تعلیمی ایمرجنسی ایکٹ پر انشاء اللہ ایک مکمل کالم بھی قارئین کی خدمت میں پیش ہو گا۔