تحریر: رانا ظفر اقبال ظفر گذشتہ رات گیارہ بجے کے قریب بزدل دہشت گردوں نے ہماری ناکام حکومتوں، اقتدار کی دھینگا مشتی میں دست و گریبان ،عیار،مکار ،مفاد پرست، سیاسی پنڈتوں کی ناقص پالیسیوں ،عدم توجہ، کی بدولت کوئٹہ شہر سے تیرہ کلو میٹر دور ،کوئٹہ سبی رودڈ پر واقع کوئٹہ پولیس ٹرینگ کالج میں داخل ہو کر ایک بار پھر بے گناہوں ،آنکھوں میں روشن مستقبل کے سپنے سجائے ،ٹرینگ حاصل کرنے والے کیڈٹ پر حملہ کر کے خون میں نہلا دیا جسمیں تقریبا ساٹھ سے زائد کیڈٹ شہید جبکہ ایک سو سے زائد زخمی کر دیے دہشت گردوں کے حملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے صوبائی وزیر داخلہ بلوچستان،سرفراز بگٹی نے کہا کہ تین دہشت گردوں نے پولیس ٹرینگ سنٹر کی دیوار پھلانگ کر کالج کی سیکورٹی پر مامور جوان کو شہید کیا جس نے ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا اسکے بعد خود کش بمبار دہشت گرد کوئٹہ پولیس ٹرینگ سنٹر کے ہال نما کمروں کا رخ کیا کالج ہذا میں عموما سات سو کے قریب ٹرینگ حاصل کرنے والے کیڈٹ موجود ہوتے ہیں مگر پاسنگ آئوٹ پریڈ ہونے کے بعد اڑھائی سے تین سو کے قریب کیڈ ٹ موجود تھے جن کے کمروں کی طرف بے تحاشہ،اندھا دھند،فائرنگ شروع کر دی اور تمام نہتے کیڈٹ کو یرغمال بنالیا۔
اندھا دھند فائرنگ کی آواز اور اطلاح ملنے پر جونہی اے ایف سی اور پولیس فورس پولیس ٹرینگ سنٹر کے اندر داخل ہوئی تو ایک،بدبخت، خود کش بمبار دہشت گرد نے خود کو اڑا لیا جسکی وجہ سے شہادتوں اور زخمیوں کی تعداد زیادہ ہوئی دھماکوں کی گونج کے ساتھ ہی پاک فوج کے جوان،پولیس کمانڈوں سمیت فورسزز نے ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر پورے کالج کو گھیرے میں لیکر آپریشن شروع کر دیا جسمیں فورسز نے یرغمالی کیڈٹ کو بھی بحفاظت نکالنا تھا اور دشمن دہشت گردوں کو بھی جہنم واصل کرنا تھا۔دوران آپریشن اس سے قبل کہ کوئی بڑا نقصان ہوتا فورسز نے ایک خود کش بمبار دہشت گرد کو جہنم واصل کر دیا جبکہ تیسرے نے خود کو اڑا لیا جس سے پاک فوج کے ،کپٹن سمیت پانچ جوان شدید زخمی ہو گئے مگر سیکورٹی فورسز زتمام کیڈٹ کو بازیاب کروانے میں کامیاب ہو گئیں ۔دہشت گردوں کی تعداد چونکہ پانچ سے چھ بتائی جا رہی تھی اس لیے مذکورہ ااپریشن چار گھنٹے جاری رہا اور کوئٹہ پولیس ٹرینگ کالج کو کلئیر کر دیا گیا۔
Pakistani Forces
بلاشبہ پاکستانی فورسزز کی بہت بڑی کامیابی تھی مگر خود کش بمباروں کے خود کو اڑا لینے کی وجہ سے شہادتوں اور زخمیوں کی تعداد بڑھی۔چار گھنٹوں میں مذکورہ آپریشن مکمل ہونے کے بعد دنیا نے جان لیا کہ پاکستانی فورس ہر لمحے تازہ دم اور تیار ہوتی ہے ۔اس افسوسناک ،دہشت گردی میں کیدٹ کی شہادتوں نے ہر آنکھ کو اشکبار اور پورے ملک کو سوگوار کر دیا۔مزکورہ کوئٹہ پولیس ٹرینگ کالج دس ایکٹر رقبے پر محیط ہے جسکے ارد گرد کوئی آبادی نہیں صرف میدان ہیں ۔جو اس سے قبل بھی دوبار دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکا ہے ۔پہلی بار پولیس کیدٹ کو بارودی سرنگ کے ذریعے نشانہ بنایا گیا اور دوسری بار راکٹ لانچروں سے حملہ کرنے کے علاوہ دہشت گردوں نے کالج میں داخل ہونے کی بھی کوشش کی جسے پاکستانی فورسزز نے ناکام بنا دیا مگر کیڈٹ نے ان حملوں میں اپنی جانوں کے نذرانے دیکر شہادت کا رتبہ پایا۔
مگر ان دو واقعات کے باوجود وفاقی ،صوبائی ،حکومت نے دہشت گردی کی واردات کو روکنے اور پولیس ٹریننگ حاصل کرنے والے کیڈٹ کی ھفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کوئی اقدامات نہ کیے بلکہ اسی طرح کچی ،پکی،دیواریں ،سیکورٹی نہ ہونے کے برابر،عقب کی دیوار کچی اور انتہائی چھوٹی ہونے کی وجہ سے دہشت گردوں کو دعوت عام دیتی ہے۔جسے تاریں لگا کر سیکورٹی ریثرن سے پاک کر دیا گیا ۔ذرائع کے مطابق کوئٹہ پولیس ٹرینگ سنٹرکے لیے صوبائی حکومت کی طرف سے بڑی بڑی گرانٹ کے دعوے اور وعدے کیے گئے اور کیڈٹ کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اعلانات تو کیے گئے مگر پہلے حملے کے بعد سے لیکر تیسرے حملے تک نہ کوئی وعدہ وفا ہوا نہ کسی لیڈر کی زبان سچ ہوئی جسکی وجہ سے دہشت گردوں نے تیسرا حملہ کر کے کوئٹہ کو ایک بار پھر لہو لہو کر دیا۔ماضی میں لاہور کے قریب مناواں میں بھی پولیس کے تربیتی کیمپ کو شدت پسندوں نے نشانہ بنایا جس میں آٹھ پولیس اہلکار شہید جبکہ سو کے قریب زخمی ہوئے تھے مگر ہم نے پھر بھی سبق نہ سیکھا،رواں سال صرف کوئٹہ میں اے ایف سی اور پولیس کے پچاس جوان ،دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے جنہوں نے ملک و قوم کی حفاظت کرتے ہوئے شہادت پائی ۔مگر ہم نے پھر بھی کوئی سبق نہ سیکھاوفاقی اور صوبائی حکومتیں سیکورٹی فورسزز کے جوانوں کی شہادت کو بھلاتی چلی آئی اور اقتدار کو طول دینے کے لیے شطرنج کی چالیں چلتے ہوئے ہماری حفاظت پر مامور فورسزز اور انکے اداروں کا تحفظ نہ کیا گیا۔ہم نے کیا سیکھا ؟
ہر واقعے کے بعد مذمتی بیان،ورثاء سے اظہار یکجہتی،جے آئی ٹی،اور پھر لمبی تان کر سو جانا ؟ بلند و بانگ دعوئوں کے بعد تیسرے روز شہادتوں کو بھول کر اپنی ،کمیوں،کوتاہیوں،غفلت،لاپرواہی پر دھٹائی سے پردہ ڈالنا اورتمام تر الزامات جانے والی حکومت کے سر تھوپ کر پردہ ڈالنا؟ گو اس حملے کی خبر ملتے ہی وزیر اعلی بلوچستان ثنا اللہ زہری ،صوبائی وزیر داخلہ،سرفراز بگٹی اور صوبائی وزیر صحت بلوچستان رات بھر رابطے میں رہے اور آپریشن کی نگرانی کے علاوہ لمحہ بہ لمحہ عوام کو بھی حالات سے آگاہی دیتے رہے ۔وزیر اعظم میاں نواز شریف کے مذمتی بیانات بھی آتے رہے مگرکیا ان مذمتوں سے اپنے پیاروں سے بچھڑ جانے والے ساٹھ سے زائد کیڈٹ لوٹ آئیں گے؟۔
Quetta Police Training College Attack
کیا اس پر کاروائی ہو سکے کہ دوروز قبل پاسنگ آئوٹ پریڈ کے کس سنئیر پولیس آفیسر نے کیڈٹ کو جانے سے روک لیا اور اسلحہ لیکر کس نے نہتا کر دیا تاکہ دہشت گردی کی کاروائی کرنے والوں کو ہر راستہ صاف اور کھلا ملتا جائے اور وہ با آسانی کیڈٹ کا خون بہا کر مشن کو مکمل کر سکیں؟ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وزیر اعلی بلوچستان ثنا اللہ زہری نے ٹی وی بیان میں کہا کہ حکومت کو اطلاع تھی کہ دہشت گرد کوئٹہ میں داخل ہو چکے ہیں اور کسی بھی وقت خون کی ہولی کھیل سکتے ہیں جسکی روک تھام کے لیے اقدامات کیے تھے۔
آئی جی ایف سی شیر افگن نے پریس بریفنگ میں بتایا کہ جنگ میں صرف گولیاں چلتی ہیں محرم الحرام میں سیکورٹی تھریڈ تھے محرم الحرام کے جلوسوں کو ٹارگٹ کیا جا سکتا تھا مگر ہماری فورسزز نے محنت کی اور دشمن کو کاروائی کرنے کا موقع نہ مل سکا ۔انہوں نے بڑے کلیر الفاظوں میں بتایا کہ یہ کاروائی کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی العالمی نے کی ہے آخری وقت میں بمبار دہشت گردوں کے افغانستان میں رابطے تھے ۔ جس کے بعد شک کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ انڈیا اور افغانستان مل کر پاکستان کے امن کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے ۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جس طرح کھلے عام بلوچستان کا ذکر کیا اور وہاں سے بعد میں ،،را،،سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کی بہت بڑی تعداد ،اسلحہ،بارود پکڑا گیا،گلبھوشن یادیو،کی گرفتاری اور ہر دہشت گردی کے بعد دہشت گردوں کے تانے بانے انڈیا اور افغانستان میں جاکر ملتے ہیں تو شک کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے۔باوجود اس کے پاکستان اپنا مقدمہ واضع طور پر اقوام عالم میں پیش نہیں کر سکا اور نہ ہی وزیر اعظم کی طرف سے گلبھوشن یادیو کا نام لیا گیا جو ہماری ناکامی کا باعث بن رہا ہے اور الٹا دہشت گردی کے حوالے بدنام پاکستان کو کیا جا رہا ہے۔کراچی اور پنجاب میں جاری دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے رد عمل کے طور پر کالعدم لشکر جھنگوی العالمی دہشت گردی کی مذکورہ کاروائی کر سکتی ہے کیونکہ اسی سال اگست میں کراچی میں رینجر نے لشکر جھنگوی العالمی کے ایک راہنماء سید صفدر کے سر کی قیمت ،پچاس لاکھ روپے،مقرر کی تھی جس پر الزام عائد تھا کہ وہ ملک میں دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہے لشکر جھنگوی العالمی جنوری 2013میں ایک حملے میں ،،بانوے،جبکہ فروری میں ایک بار پھر بازار پر حملہ میں ،،اکیاسی،افراد کو شہید کرنے کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے اور اب ایک سیکورٹی ادارے کو نشانہ بنا کر اپنا وجود ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہو حالانکہ ضرب غضب آپریشن میں اس کالعدم تنظیم سمیت تمام دہشت گرد تنظیموں کے پاکستان میں سے قدم نہ صرف اکھڑ گئے ہیں بلکہ دہشت گردوں کا خاتمہ کر کے پاک افواج نے پاکستان کو امن پسند ملک کے طور پر منوایا ہے۔
ان حالات میں لہو لہو کوئٹہ اور ہمارے اہم اداروں کی سیکورٹی پر ہزاروں سولات اٹھ رہے ہیں اگر ہم نے ملک و قوم کو طبچانا ہے تو اداروں کی دیواریں اونچی،پختہ،باڑیں لگانے سے کوئی بہتری نہیں آئے جب تک انکی چوروں اطراف سے فول پروف سیکورٹی کا حسار نہیں بنایا جائے گا۔اور دہشت گردوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ انکے تمام سہولت کاروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ختم نہیں کیا جائے گاتو ہر دور میں مناوان پولیس ٹرینگ سنٹر ہو یا اے ایف سی سکول،ہو یا کوئٹہ پولیس ٹرینگ کالج ہو یا گلشن اقبال پارک سانحہ ہوتے رہیں گے اور حکمران ڈھٹائی سے مذمتیں کرتے رہیں گے اس لیے جہاں حکومت پاکستان اور صوبوں کو بولڈ سٹیپ لینے ہونگے وہاں پاکستانی قوم کے ہر فرد کو بھی اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اپنے ارد گرد نظر رکھنا ہو گی تا کہ جرم کو پروان چڑھنے سے قبل ہی جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اگر بحثیت پاکستانی ہم نے افواج پاکستان سے مل کر دہشت گردوں کے خلاف جنگ نہ لڑی تو یونہی اپنوں کے جنازے اٹھاتے رہیں گے،اپنوں سے بچھڑتے رہیں گے اور ملک دشمنوں کو مواقع فراہم کرتے رہیں گے۔