ریاض (جیوڈیسک) سعودی عرب کے سیکیورٹی اداروں کو مطلوب ایک خطرناک دہشت گرد اور القاعدہ کمانڈر نے ایران سے واپسی پر خود کو حکام کے حوالے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ القاعدہ کمانڈر اسامہ علی دمجان اگر خود کو سعودی پولیس کے حوالے کرتے ہیں تو یہ سعودی فورسز کی بہت اہم کامیابی قرار دی جاسکتی ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کو اپنے ذریعے سے اطلاع ملی ہے کہ 32 سالہ اسامہ علی دمجان بیرون ملک مقیم دہشت گردوں کی فہرست میں شامل اور سعودی عرب کے سیکیورٹی اداروں کو مطلوب تھا۔ اسے اشتہاری قرار دے کر اس کی واپسی کے لیے بھی کوششیں کی جا رہی تھیں مگر حال ہی میں وہ خود ہی ایران سے واپس سعودی عرب پہنچا جہاں اس نے خود کو پولیس کے حوالے کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق ایران میں قیام کے بعد سعودی عرب لوٹنے والے القاعدہ کمانڈر کی گرفتاری انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ علی دمجان کی گرفتاری سے ایران میں موجودہ القاعدہ نیٹ ورک کا پتا چلانے اور بیرون اور اندرون ملک سرگرم القاعدہ کے بارے میں اہم معلومات سامنے آئیں گی۔
سعودی عرب میں گرفتار کیے گئے القاعدہ کمانڈر اسامہ علی دمجان کو ابو جواھر کی کنیت سے جانا جاتا ہے۔ سنہ 2001ء میں سترہ سال کی عمر میں سامہ دمجان نے افغانستان کا سفر کیا جہاں اس نے االفاروق ٹریننگ کیمپ میں عسکری تربیت حاصل کی۔ دمجان کی عسکری تربیت اسامہ بن لادن کی موجودگی میں نائن الیون کے حملوں سے قبل ہوئی تھی۔
الفاروق تربیتی کیمپ افغانستان کے صوبہ قندھار میں قائم تھا جسے القاعدہ اور طالبان کی سرپرستی حاصل تھی۔ یہ کیمپ جنگجو بھرتی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی عسکری تربیت کا مرکز تھا جسے خود اسامہ بن لادن نے قائم کر رکھا تھا۔ اس کیمپ کی شہرت القاعدہ کے معروف کمانڈر ابو مصعب الزرقاوی اور تنظیم کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری بھی ہیں کیونکہ ان دونوں نے بھی اسی کیمپ سے تربیت حاصل کی تھی۔
اسامہ علی دمجان کو الفاروق کیمپ میں بم سازی کی تربیت دی گئی۔ سنہ 2003ء میں ابو جواہر پہلی بار منظر عام پر القاعدہ رہ نما ابو مصعب الزرقاوی کے ساتھ سامنے آیا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد الزرقاوی کو عراق میں تنظیم کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج کی یلغار کے بعد ابو جواہر فرار ہو کر ایران چلا گیا جہاں اس نے ایران میں کئی سال گذارے۔
سنہ 2010ء میں ابو جواہر کی وزیرستان میں ایک حملے میں ہلاکت کی خبریں بھی سامنے آئی تھیں۔ جب کہ سنہ 2015ء میں شام کے الرقہ شہر میں داعش کی ایک جیل میں بھی اسی نام کے ایک جنگجو کی موت کی خبر سامنے آئی تھی۔ ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ القاعدہ اور داعش کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات ہی ابو جواھر کو سعودی پولیس کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا موجب بنے ہیں۔
سعودی عرب کی وزارت داخلہ نے مئی سنہ 2009ء میں بیرون ملک موجود اشتہاری دہشت گردوں کی ایک فہرست جاری کی تھی جس میں 85 جنگجو شامل تھے۔ ان میں اسامہ دمجان کا نام بھی شامل تھا۔ گوانتا نامو جیل سے واپس ہونے ولے سات سعودی جنگجوؤں کی فہرست میں بھی اسامہ دمجان کا نام شامل رہا ہے۔ ان میں محمد عتیق العوفی، سعید علی جابر اال خیثم الشھری، یوسف الشھری اور مرتضی علی مقرم شامل تھے۔