آخر ماجرا کیا ہے

Quetta Incident

Quetta Incident

تحریر : روہیل اکبر
یہ ماجرا کیا ہے، کیوں ہم سانپ گذرنے کے بعد اسکی لکیر پر بیٹھ کر تجزیے ،تبصرے اور دعوے کرتے رہتے ہیں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے بھی اپنی بلوں سے باہر آکر کھوجی بن جاتے ہیں اور پھر یہ سب سیانے مل جل کر اس واقعہ کو عوام کے ذہنوں سے بھلانے کی تدبیریں کرتے ہیں ہر سانحہ کو قیامت قرار دینے والے شائد اس لفظ کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں کیونکہ انہیں کیا معلوم جب ایک غریب انسان اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کی پرورش کرتا ہے اپنی جوانی کو اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے قربان کر دیتا ہے اور جب بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے باپ کے سامنے بھر پور جوانی کو پہنچنے والا اسکابیٹا سفید کفن میں لپٹے سامنے آتا ہے تو اس وقت قیامت صغری برپا ہوتی ہے اور ہماری طرف سے دی جانے والی جھوٹی تسلیاں اسے مزید اذیت سے دوچار کر رہی ہوتی ہیں کیا اس وقت ہماری طرف سے کیے جانے والے وعدے اسکے بچے کو واپس لاسکتے ہیں کیا سو دہشت گردوں کی گردنیں آڑانے سے اس والد کو تسلی مل سکتی ہے۔

کیا حکومت کی طرف سے کیے گئے دعووں پر اس وقت لعنت بھیجنے کو دل نہیں کرتاجب حکمرانوں کے بچے لوٹ مار کے پیسوں سے بیرون ملک شاہانہ زندگی گذارنے میں مصروف ہوں اوراور خود حکمران سانپ گذرنے کے بعد لکیر پر ڈنڈے برسا رہے ہوں پیر کو رات گئے کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملہ ہوتا ہے تو 61 قیمتی جانیں شہیداور سو سے زائد زخمی ہوجاتے ہیں سکیورٹی انٹیلی جینس ملک کے محافظ اداروں کو خبر دیتی ہے کہ دہشت گرد ملک میں داخل ہو گئے ہیں تیاری کر لو کسی بھی وقت کہیں بھی حملہ ہوسکتا ہے اسکے بعد محافظ ادارے خبر پھیلا دیتے ہیں اور نشاندہی والی جگہوں پرہائی الرٹ کر دیا جاتا ہے،پہرے بڑھا دئیے جاتے ہیں مگر دو تین دن کیبعد چند دہشت گرد بھاری اسلحہ لیکر خودکش جیکٹ پہن کرتمام سیکورٹی فورسز ایجنسیز کی ناک تلے نکل کرکسی سکول، یونیورسٹی ،پولیس ٹریننگ سینٹر ، ہسپتال ، مسجد ،امام بارگاہ ،چرچ، یا کسی اور ہجوم میں داخل ہو کر خون کی ندیاں بہا دیتے ہین چند منٹوں میں لاشوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں جس کے بعد جائے وقوعہ پر لاشوں کے ڈھیر لگ جانے کیبعد پولیس اور کمانڈو کی بھاری نفری موقعہ پر پہنچ جاتی ہے۔

بلڈنگ کو گھیرے میں لے لیا جاتا ہے شہر کے تمام ہسپتالوں میں ایمر جنسی نافذ کر کے ڈاکٹرز کی چھٹیاں معطل کر دی جاتی ہیں اور پھرشہر کے تمام داخلی راستوں پر ناکے لگا کر سخت چیکنگ کے نام پر شہریوں کو تنگ کرنا شروع کردیا جاتا ہے اس سے پہلے کہ خون کے دھبے خشک ہوجائیں قوم کو بتایا جاتا ہے کہ اس افسوس ناک واقعے کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے دہشت گرد افغانستان کے راستے سے پاکستان میں داخل ہوئے دو تین روز شہر کے فلاں علاقے میں رکے رہے اور پھر فلاں سہولت کار کے زریعے مطلوبہ جگہ تک پہنچے اور جب مائیں اپنے لخت جگر کے لاشے دیکھ کر غم سے نڈھال ہوکر بے ہوش ہو جاتی ہیں۔

بوڑھا باپ صدمے سے لاچارہو جاتا ہے بچے یتیم بن جاتے ہیں اور عورتوں کے سہاگ اجڑ جاتے ہیں تب پھر سیاسی و عسکری قیادت بیان جاری کرتی ہے ملک دشمن عناصر کے مذموم عزائم خاک مین ملا دینگے دہشت گردی جڑ سے اکھاڑ پھینکے گے اور دہشت گرد اپنے گھناؤنے کام سے قوم کا حوصلہ پست نہیں کر سکتے اور پھر اس واقعے کی اعلی سطحی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنا دی جاتی ہے اور کمیٹی اگلے سانحے تک تحقیات میں لگی رہتی ہے اور جب اگلا سانحہ رونماء ہو جاتا ہے تب پچھلی کمیٹی ختم کرکے نئی کمیٹی بنا دی جاتی ہے اور معاملہ ختم کردیا جاتا ہے ہمارے ملک میں آج تک ہونے والے سانحات پر جتنی بھی کمیٹیاں بنی ان سب کا مقصد بات کو ختم کرنا ہوتا ہے یہی وجہ کے کہ کئی کئی سال گذر جاتے ہیں مگر کمیٹی کی رپورٹ نہیں آتی اگر کمیٹی رپورٹ جاری بھی کردے تو حکمران اس رپورٹ کو جاری کرنے سے روک دیتے ہیں۔

Terrorist Attacks

Terrorist Attacks

عوامی خدمت کے دعویدار عوام کے کندھوں پر سوار ہوکرجب اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں تو عوام کو ہی مرنے اور مارنے کے لیے کھلا چھوڑدیتے ہیں اپنی دشمنیوں کی قربانیاں عوام سے دلواتے ہیں خود تو اپنے معمولی سے معمولی علاج کے لیے بیرون ملک بھاگ جاتے ہیں جبکہ اپنے ہی صوبہ پنجاب جہاں بڑے بھائی وزیرخزانہ اور وزیراعلی رہے بعد میں خود وزیراعظم بن کرچھوٹے بھائی کو عوام کی خدمت پر اس طرح معمور کردیا کہ رحیم یار خان میں صرف لوگوں کو علاج معالجہ کی سہولیات نہ ملنے پر رونا پڑیا کیا ہمارے ہسپتالوں میں امریکہ نے آکر علاج کی سہولیات فراہم کرنی ہے یا کسی اور کی ذمہ داری ہے۔

ہم سے ووٹ لیتے وقت زمین آسمان کے قلابے ملانے والے بعد میں عوام کو دہشت گردوں کے سہارے چھوڑ کرخود پولیس ،رینجر اور فوج کے حفاظتی حصار میں پناہ گزین ہوجاتے ہیں کیا کبھی کسی ملازم نے اپنے مالک کو دشمنوں کے رحم وکرم پر چھوڑ کرخود بھاگنے کی کوشش کی ہے ؟ مگر پنجاب میں خود کو خادم اعلی کہلانے والے وزیراعظم میاں نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف اور خود وزیراعظم میاں نواز شریف نے عوام کو غربت ،مہنگائی ،لاقانونیت ،پولیس کی غنڈہ گردی ،ڈکیتوں کی بادشاہت ،دہشت گردوں کی من مرضیوں،ہسپتالوں میں ذلت وخواری، طبقاتی نظام تعلیم،جہالت اور افسر شاہی کی فرعونیت کے درمیان بے آسرا چھوڑ کر خود اپنے غلاموں کے ہمراہ چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔

کیا مسلم لیگ ن کی حکومت نے الیکشن سے قبل جو عوام سے وعدے کیے تھے ان میں سے کسی ایک پر بھی عمل کیا گیا؟ دو ماہ قبل وکلاء پر حملہ اور بم دھماکوں میں 73قیمتی جانیں گئی تھیں کب تک ہم دشمنوں کے ہاتھوں اپنے پیاروں کے لاشے اٹھاتے رہیں گے دہشگردی کے واقعات میں بھارت ور دیگر پڑوسی ممالک ملوث ہیں جو پاکستان میں کبھی ترقی واستحکام نہیں دیکھنا چاہتے سب سے بڑا المیہ ہمارا یہ ہے کہ ہم فوٹو سیشن اور بیان باز،ی مذمت اور قراردادیں پاس کرکے اقدامات پر توجہ نہیں دیتے آخر یہ ماجرا کیا ہے۔

Rohail Akbar -Logo

Rohail Akbar -Logo

تحریر : روہیل اکبر
03004821200