تحریر: خنیس الرحمٰن 1383 ء میں میر سید علی ہمدانی جو ایک عالم دین اور اسکالر تھے ۔انہوں نے ایران سے کشمیر کا تین مرتبہ دورہ کیا۔ آخری دورے میں وہ اپنے ساتھ سات سو سے زائد مسلم اساتذہ بھی لائے اور اسلام کی تبلیغ کی خاطر انہیں یہاں لا کر آباد کیا۔ ان کے بعد ان کے بیٹے میر محمد ہمدانی نے اس مشن کو جاری رکھا ۔اس کے بعد مقامی مسلمان بھی ان کیساتھ دین اسلام کو پھیلانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔کشمیر میں پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد سلطان سکندر نے (1398-1413) میں رکھی۔ انہوں نے شریعت کے قوانین نافذ کیے۔
تیرہویں سے چودھویں صدی تک وادی کشمیر مسلمانوں کی آزاد ریاست رہی۔برصغیر مالی اعتبار سے خوشحال ریاست تھی۔1846ء میں برطانیہ کے کٹھ پتلی حکمران نے جموں و کشمیر کو ساتھ ملا لیا۔ 14 اگست 1947ء کے بعد انڈیپنڈنس کی دفعہ سات کے تحت تما م ہندوستانی ریا ستوں سے برطانوی حکومت کا عمل دخل ختم ہوگیا۔اس موقعہ پر لارڈ ماونٹ بیٹن گورنر جنرل نے مشورہ دیا کہ الحاق کرتے وقت لوگوں کی خواہشات ،آبادی کے تناسب کے لحاظ سے تقسیم کا خیال رکھا جائے۔سب سے پہلے ریاست جونا گڑھ اور کشمیر کے الحاق پر جھگڑ اہوگیا ۔وہاں ہندوؤ ں کی اکثریت زیادہ تھی اور نواب جونا گڑھ مسلمان تھا ۔اس نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا جسے ہندوستانی حکومت نے ماننے سے انکار کردیا۔
ایک طرف پاکستان کی آزادی کا اعلان ہو رہاتھا سب ہجرت کرکے پاکستان کی طرف رواں دواں تھے دوسری طرف بھارت سرکار 15 اگست 1947ء کو کشمیر پر فوجیں اتار کر غاصبانہ قبضہ شروع کر لیا اور پوری وادی میں ظلم وستم شروع کردیا جو آج بھی جاری ہے۔ برہان وانی شہید رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت سے لیکر اب تک تقریباََ 108 سے زائد دن بیت چکے ہیں۔ کوئی ایسا دن نہیں کہ کسی گھر سے جنازہ نہ نکلا ہو ۔بچوں ،بوڑھوں کو پکڑ کر اذیت ناک سزا دے کر تڑپا تڑپا مار دیا جاتا ہے ۔ماؤں بہنوں کی عزتوں کو تار تار کیا جاتا رہا۔پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے پر پوری وادی میں کرفیو لگا دیا گیا ۔کشمیری قوم نہ جھکنے والے ہے نہ بکنے والی ہے ۔کرفیو کو توڑ کر سینوں پر گولیاں کھا پھر بھی زبان ست پاکستان سے محبت کا نعرہ نہ لگانا گوارا نہ کیا۔
Indian Atrocities in Kashmir
بھارتی سورماؤں نے پیلٹ گن کی گولیوں سے چن چن کا نشانہ لیا اور ہزاروں کشمیریوں کو آنکھوں کی بصیرت سے محروم کردیا ۔اگر ان کو ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال لے کر جایا جاتا ہے راستے میں ایمبولینسز کو بھی نشانا بنایا جاتا ہے۔جو ڈاکٹر مقبوضہ وادی کے اندر مظلوم کشمیر یوں کا علاج کرتے ہیں ان کو جان سے مار ڈالنے کی دھمکیا ں دی جاتی ہیں۔وہ پیلٹ گن جو جانوروں کے شکار کے لئے استعمال کی جاتی ہے جس پر پابندی عائد ہے اس گن سے کشمیریوں کو زخمی کردیا جاتا ہے۔ہاں ہاں وہ کشمیری بچے جو گلیوں کوچوں میں کھیلنے کے لئے نکلتے ہیں ان کو پیلٹ کے چھرے مار کر زخمی کردیا جاتا ہے تو وہ معصوم اس درد کو برداشت نہیں کرپاتے اور دم توڑ جاتے ہیں۔بزرگوں کی داڑھیوں سے پکڑ کر گھسیٹا جاتا ہے۔قربان جاؤں ان کشمیریوں پر آزادی کی خاطر گولی کھا لیت ہیں پر اپنی زبان سے پاکستان مردہ باد کانعرہ نہیں لگاتے ،بھارتی غلامیوں کو قبول نہیں کرتے،کرفیو کھولا جاتا ہے وہ پاکستانی پرچم تھام کر سڑکوں پر نکل آتے ہیں ،قافلوں کے قافلے نکل کر ایک جگہ پر پڑاؤ کرتے ہیں اور وہاں پاکستان زندہ باد۔۔۔برہان بھائی کا کیا پیغام۔۔۔حافظ محمد سعید کا کیا پیغام ۔۔۔۔سید علی گیلانی کا کیا پیغام کے نعرے لگاتے ہیں ان کو گولیوں مار کر شہید کردیا جاتا ہے ۔جہاں بڑے ہیں وہاں بچے بھی آزادی کا کھیل کھیلتے ہیں ۔اپنی گلی میں سارے بچے مل ایک ریلی نکالتے ہیں چھوٹے چھوٹے اور معصوم بچے ان کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہوتا ہے لے کہ رہیں گے آزادی۔۔۔بن کہ رہے پاکستان۔۔۔بٹ کہ رہے گا ہندوستان۔
سب سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں سب کی نظروں سے گزرتی ہیں وہ تصویر جن میں کہیں برہان وانی کی ماں اپنے بیٹوں کی تصویریں تھامی بیٹھی ہے،کہیں ماؤں کے ڈوبٹے کھینچے جاتے ہیں ،کہیں چھوٹے چھوٹے بچوں کو ٹھوکریں ماری جاتی ہے۔کیا عجب شان ہے اس بچے کی ہاتھ میں غلیل تھامے کھڑا ہے سامنے ہندو فوجی گھبرائے کھڑے ہیں،کہیں بھارتی فورسز پر پتھراؤ کیا جارہا ہے ان کے پاس اسلحہ نہیں لیکن پتھروں سے مقابلہ کرتے ہیں۔جہاں تک کشمیری اس آزادی کی جدوجہد میں آگے آگے ہیں وہیں ان کے قائدین بھی ہیں جن کی بدولت وہ آگے نکلتے ہیں۔ایک پروگرام میں شرکت کا موقع ملا جس میں حریت کانفرنس اسلام آباد کے صدرنے پاکستانیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کی محبت،اخلاص اور دعاؤ ں نے ہمیں اس مقام تک پہنچایا ہے ہم وہ لوگ ہیں جو پاکستان کی خاطر مرمٹنے کے لئے تیار ہیں ۔ہمارا کوئی کشمیری شہید ہوتا ہے ہم اس کی میت پر پاکستانی پرچم رکھ دیتے ہیں ۔
کوئی شک نہیں اس میں برہان وانی کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ دیا جاتا ہے۔وہ عید کے موقع پر اور نماز جمعہ کے بعد نکلتے ہیں ہاتھوں میں پاکستانی پرچم تھامتے ہیں اور بھارتی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنایاجاتا ہے۔ وہ آسیہ اندرابی دختران ملت کی سربراہ جن کے رفیق حیات کو ڈاکٹر قاسم فکتو کو پاکستان کی حمایت اور تحریک آزادی کے آزادی پر کتاب لکھنے کے جرم میں قید وبند کی صعوبتوں میں جھکڑ دیا جاتا ہے ۔آج دس سال سے زائد عرصہ بیت چکاہے وہ آج بھی زندانوں کے پیچھے ہیں ان کو ان کی رفیقہ حیات سے بھی نہیں ملنے دیا جاتا جب سے دونوں کی شادی ہوئی اس کے کچھ ہی عرصے بعد ان کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے اور آسیہ اندرابی صرف چار مرتبہ ان سے ملیں ۔
Pakistan Expresses Solidarity
آسیہ اندرابی جو ہر موقع پر پاکستان سے اظہار یک جہتی کے لئے اپنے دختران ملت کے مرکزی دفتر میں خواتین کے پروگرام کا انعقاد کرت ہیں ۔جہاں پاکستانی ترانے، نغمے پڑھے جاتے ہیں ،پاکستان کے حق میں تقاریر کی جاتی ہیں جیسے ہی پروگرام ختم ہوتا ہے بھارتی میڈیا چیخ اٹھتا ہے اور بھارتی فورسز بہادر خاتون کے ہاتھوں پر ہتھکڑیاں لگا دیتے ہیں اورکال کوٹھری میں بند کردیا جاتا ہے۔جب بھارتی میڈیا آسیہ اندرابی سے سال کرتا ہے تو وہ یہی کہتی ہیں ۔آزادی ہمارا حق ہے۔پاکستان کا پرچم لہرانا جرم نہیں بھارت نے ہمارے پر غاصبانہ قبضہ کررکھا ہے ۔جب حافظ محمد سعید (کسی تعارف کے محتاج نہیں) کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ یہی کہتی ہیں کہ دنیا والے ،امریکہ والے حافظ صاحب کو دہشتگرد کہیں میں تو حافظ صاحب کو اپنا ہیرو مانتی ہوں وہ اللہ کے مومن بندے ہیں مجاہد ہیں۔ کہیں مسرت عالم جیل سے رہا ہو کر آتے ہیں تو آزادی کے نعرے لگانے پر ان کو دوبارہ زندانوں میں جھکڑ دیا جاتا ہے۔
سید علی گیلانی جن کو کشمیر کی آزادی کی تحریک کے لئے نکلے ستر سال سے زائد عرصہ بیت چکا ہے ۔وہ پاکستان کی جانب نہیں آتے نہ ہی وہ عمرہ کے لیے جاتے ہیں وہ بھارتی ویزہ پر جانے سے انکار کردیتے ہیں ۔وہ یہ بھی کہتے ہیں اگر آپ سری نگر کی سڑکوں پر سونے کا تارکول بھی بچھادو تو ہم تمہاری غلامی نہیں قبول کریں گے۔ یاسین ملک (سربراہ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ) کو بھی کئی دفعہ آزادی کی آواز اٹھانے پر زندانوں میں جھکڑ دیا جاتا ہے۔دو ہفتے سے زائد دن بیت چکے ہیں بھارتی جیلوں میں شدید ٹارچر سے ان کی صحت بگڑ گئی اور ان کی صحت کی بہتری کے کوئی امکان نہیں تھے ۔ان کے بازو پر غلط انجکشن لگادیا جاتا ہے جس سے ان کا بازو مفلوج ہوگیا ہے ان کی اہلیہ مشال ملک نے اقوام متحدہ کو خط لکھا لیکن کوئی پرسان حال نہیں ۔ان کے اہل وعیال نے بیرون ملک علاج کی پیشکش کی تو ان پر تشدد کیا گیا ۔اب ڈاکٹر یاسین ملک کی صحت بہتر بتارہے ہیں(اللہ ان کو شفاء نصیب فرمائے!آمین)۔
کشمیر کی آواز اٹھانا کسی جہادی تنظیم کا ہی کام نہیں حکومت بھی اس میدان میں آگے بڑھے،نواز شریف صاحب نے جو یو ۔این کے اجلاس میں خطاب میں جو مطالبات پیش کیے ان کو ٹھکرادیا گیا جب پاکستان میں دہشتگردوں کو پھانسی دی جانے لگتی ہیں انسانی حقو ق کے ٹھیکیدار بانکی مون کہتے ہیں کہ یہ انسانیت پر ظلم ہے لیکن ان کو کشمیر میں بہتا ہوا خون نظر نہیں آتا اور اجلاس کے دوران وہ بھی کشمیریوں کے حوالے سے خاموش رہے۔ آؤ یہ وہی کشمیر ہے جس کے بارے قائد نے فرمایا تھا:کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔اس کے لئے آواز اٹھاؤ ۔یہ کشمیر ان ہندوؤں کے ہاتھ میں نہیں رہ سکتا ۔ان کا جنگی جنون بھی اس قدر ہے کہ وہ آئے روز سیالکوٹ بارڈر پر بلا اشتعال فائرنگ کرکے پاکستانیوں کو بھی شہید کررہے ہیں۔
کہتے ہیں یاران جہاں کشمیر ہے جنت جنت نہ کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی