تحریر : منظور احمد فریدی اللہ جل شانہ کی لا محدود حمد وثناء تاجفار انبیاء جناب محمد مصطفی کریم کی ذات مقدسہ مطہرہ پر درودوسلام کے ان گنت نذرانے پیش کرنے کے بعد راقم آج زخمی دل اور لہو میں نہائے ملک کے ان سپوتوں کی شہادت پر چند سطور نظر قارئین کررہا ہے اس دعا کے ساتھ کہ اللہ کریم اپنی رحمت سے اس سانحہ میں شہید ہونے والے جملہ افراد کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے تمام زخمیوں کو صحت کاملہ سے نوازے اور ان تمام والدین و اقرباء کو صبر جمیل اور انکے صبر پر اجر عطا فرما ئے (آمین)معزز قارئین ایک طویل عرصہ انہی الفاظ کے ساتھ وطن عزیز کے حکمران طبقہ پر تنقیدی مضامین کالم لکھتے گزر گیا۔
اکیلا میں ہی نہیں بلکہ مجھ سے سر پھرے اور بھی کئی سفید پوش ہیں جو بلا خوف گاہے بگاہے ریاست کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کے کرتوتوں پر تنقید کرتے رہتے ہیں جہاں غلط ہو رہا ہو ننگے الفاظ میں بتا جاتے ہیں مگر صد افسوس کہ ہماری تحریروں کو محض دیوانے کی باتیں سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا رہا ہے اور ہزارہ برادری کی لاشوں کو سڑک پر رکھ کر احتجاج کرنے سے سانحہ پشاور سانحہ کوئٹہ سانحہ گلشن اقبال سانحہ کراچی اور آج پھر کوئٹہ ہی کو لہو میں نہلا دینے کے باوجود بھی ہمارے مقتدر طبقہ نے اپنی ڈوبتی سیاست کو بچانے کے علاوہ کچھ ایسا نہیں کیا جس سے ایسے واقعات کا تسلسل ٹوٹ جاتا یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے نڈر بہادر اور غیور جرنیل نے ضرب عصب آپریشن کے ذریعہ دہشت گردی کے خلاف جو کامیابی حاصل کی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں مگر ایسے ہر واقع کو آپریشن کا ردعمل کہہ کر جان چھڑوا لینا کافی نہیں۔
اقتدار وہ چیز ہے جسے اللہ اور اس کا رسول ۖ تو عوامی خدمت اور مال جان کی حفاظت ارشاد فرماتا ہے اسلام اپنے پیروکاروں کے علاوہ ان غیر مسلم کمیونٹی کے افراد کی جان کو بھی اتنا ہی قیمتی گردانتا ہے جو اس ریاست میں مسلم کمیونٹی کے ساتھ رہ رہے ہوں مگر اس ریاست جسے اب اسلامی جمہوریہ پاکستان لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے میں رعایا کے ساتھ حکمران طبقہ کیا سلوک کررہا ہے تقسیم ہند سے اب تک تاریخ کے اوراق کھول لیں کوئی ایسی قیادت نہ ملے گی جس نے اسلام اور مسلمانوں کے حقوق کی جنگ لڑی ہو افسوس کے ساتھ اس حقیقت کو بھی لکھنا پڑتا ہے کہ ہمارے اس طبقہ نے تو تقسیم کے وقت ہی مہاجرین کی خیمہ بستیوں میں ہی گل کھلانے شروع کردیے تھے رات کے اندھیروں میں کیمپوں سے جوان لڑکیوں کا غائب ہوجانا اور زمین کی الاٹمنٹ کے وقت اربوں کی جائیدادیں چھوڑ کر آنے والوں کو بے زمین کردینا اور بے زمین لوگوں کو کرپشن سے سردار بنا دینا وہ سیاہ باب ہے جو اگر پورا کھول دیا جائے تو یہاں کئی شرفاء جو آج حکومتی ایوانوں میں بیٹھے اپنے آپکو اور مخلوق سمجھتے ہیں اور پاکستانی عوام کو اپنی ذاتی رعایا سمجھ بیٹھے ہیں۔
Quetta Incident
متحدہ ہندوستان میں انکا حسب نسب اتنا گیا گزرا ہے کہ جیسے آج ہندو کمیونٹی میں شودر مگر اس ٹولہ کا دائو ایسا لگا کہ آج شاہ ابن شاہ بن کر ریاست کے شرفاء ہیں اور ریاست کو اپنی جاگیر بناکر اسے کھائے جارہے ہیں یہ اس ریاست اور اس کے باشندوں کی بے شعوری کم اور بد بختی ذیادہ ہے کہ آج تک یہی گنتی کے چند لوگ ہمارے سروں پر مسلط ہیں کسی بھی ریاست کو چلانے والے بنیادی ستونوں میں سے عدلیہ مقننہ اور انتظامیہ ہی وہ ستون ہیں جن پر ریاست کھڑی ہوتی ہے اور اگر ہر ادارہ اپنے دائرہ کار کے اندر رہ اپنے فرائض پوری دیانت داری سے انجام دیتا رہے تو ریاست دنیا کے نقشہ پر حاکم ریاست کے طور پر ابھرتی ہے مگر وطن عزیز کے یہ ادارے اپنی بنیادی پہچان ہی کھو چکے۔
سب سے اہم اور بنیادی شعبہ مقننہ پر قابض لوگوں نے عوامی ضروریات کے پیش نظر قوانین بنانے کے بجائے سڑکیں بنانا پل بنانا اور گٹر تعمیر کرنا اپنی پہچان بنا لیا عوام کو شائد یہ علم ہی نہیں کہ انکے وزیر اعظم کی ذمہ داری کیا ہوتی عوام اب یہی سمجھتی ہے کہ سڑک موٹر وے پلیاں سولنگ نالیاں اور گٹر بنانے کے لیے تمام سیاسی پارٹیاں الیکشن لڑتی ہیں انتظامیہ کو عوامی خدمت کے بجائے اپنی کرپشن سے بنائے محلوں کی سیکورٹی پر مامور کردیا گیا رہا ایک ادارہ عدلیہ تو اس میں کون سا فرشتے بھرتی ہو گئے۔
سیاسی سفارشی اور اقرباء پروری سے پورے کیے گئے انصاف کے تقاضوں سے سو روپے کا آٹا چرانے والے بھوکے چور کو ڈاکو کی سزا اور اور اربوں روپے کی کرپشن کرکے شرفاء میں شامل ہونے والوں کو استثنیٰ جب تک ادارے اپنی حدود میں کام نہ کریں گے کرپشن کا بازار گرم رہے گا اور ہم اپنے اداروں کی نااہلی پر قوم کے بچوں کو قربان کرتے رہینگے اور ہر اس واقعہ کو قربانی کا نام دیتے رہینگے جو عوام کی جان عوام کے معصوم بچوں ہونہاروں کے سپنوں کا قاتل ہو۔
اب اشد ضرورت اس امر کی ہے کہ آپس کی نورا کشتی سے نکل کر ملک و قوم کے لیے کچھ کرلیں ورنہ دیر ہو جائے گی پوری قوم سوگوار ہے اور اب انکی تمام امیدیں آرمی کے اس بہادر سپوت سے وابستہ ہیں جس نے کمال دانشمندی سے صبر سے اور عوام کے اعتماد سے تمھارے اقتدار کو سب دیکھتے ہوئے بھی نہ توڑا ۔مذمتی بیان عوام کے منہ سے نکلے تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر ارباب اختیار محض پر زور مذمت کرتے ہیں کہہ کر عوام کے زخموں پر مرہم نہ رکھیں والسلام۔