ٹیکسلا (ڈاکٹر سید صابر علی / تحصیل رپورٹر) اندھیر نگری چوپٹ راج ، پولیس تھانہ ٹیکسلا نے قانون کو کھلواڑ بنا دیا، چار ماہ گذرنے کے بعد بھی جوانسال تین کمسن بچوں کا باپ24 سالہ غریب نان بائی کے پر اسرار اغواء کا معمہ حل نہ ہوسکا،غریب خاندان انصاف کے حصول کے لئے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور،پولیس نے کال ڈیٹا پر پہلے نامعلوم افراد جبکہ بعد ازاں ملزم جاوید کے خلاف اغواء کا مقدمہ درج کیا،ملزم جاوید کو پندہ اگست کو گرفتار کیا گیا۔
پندرہ روز پولیس کی تحویل میں رہنے کے بعد ملزم کو فرار کرا دیا گیا،ملزم کے قبضہ سے برآمد ہونے والی مہران کار بھی تفتیشی افسر نے اینٹھ لی،ملزم نے فرار ہونے کے بعد مغوی کے والد کو پانچ لاکھ روپے تاوان طلب کیا،اور قتل سمیت سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں ،جوان بیٹے کے اغواء پر ماں باپ غم سے نڈھال ، بیوی بچے رل گئے،انصاف کی دھائی کے لئے ہر دروازہ کھٹکھٹایا مگر سب بے سود، متاثرہ خاندان غم کی داستان سنانے اور انصاف کی دھائی کے لئے تحصیل ٹیکسلا پریس کلب پہنچ گیا،وزیر اعلیٰ پنجاب، وزیر اعظم پاکستان ، چیف جسٹس آف پاکستان وفاقی وزیر داخلہ سے انصاف کی اپیل،ہمیں کچ نہیں باتیا جارہا کہ ہمارا بیٹا زندہ ہے یا ظالموں نے اسے مار دیا،روز جیتے اور روز مرتے ہیں کیا پاکستا میں کسی غریب کے لئے کوئی انصاف نہیں۔
ہم لوگ کہاں جائیں کس کیا گے اپنی فریاد سنائیں، غربت کے باعث گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی ، پولیس انصاف دلانے کی بجائے جیب بھرو پالیسی پر گامزن ہے،ملزم جاوید کے متعلق انسانی سمگلنگ سمیت انسانی اعضاء فروخت کرنے کا بھی انکشاف ہوا ہے،ملزم گردے فروخت کرنے کے گھناونے کاروبار میں ملوث پایا گیاہے،فرض میں غفلت برتنے پر تفتیشی آفیسر ایس آئی اسرار کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا، اس کے باوجود تفتیش آگے نہ بڑھ سکی ، ملزم جاوید پولیس کے لئے کمک کا کام کرتا ہے، جس کے ٹھوس شواہد بھی ملیں ہیں،تفتیشی آفیسر کا کال ڈیٹا بھی ناگزیر ہوچکا ، جس کے جرائم پیشہ افراد کے ساتھ تانے بانے ملتے ہیں،جس پر پولیس کوئی توجہ نہیں دے رہی نہ ہی میرٹ پر تفتیش کی جارہی ہے،غریب مغوی تین معصوم بچوں کا باپ اور گھر کا واحد کفیل تھا،جو تندور کی دکان پر نان بائی کا کام کر کے اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتا تھا،تفتیشی عمل سست روی کے شکار ہونے کی وجہ سے ملزم دندناتا پھر رہا ہے،پولیس نے تھانے کے ریکارڈ میں اپنے کاغذ صاف رکھے ہیں ، گرفتاری نہ ڈالنا پولیس کی مجرمانہ غفلت اور ملزم سے ساز باز کو عیاں کر رہا ہے،تاحال اسے روش پر پولیس کاربند ہے،تفصیلات کے مطابق 24 سالہ یاسرعلی ولدسیف الرحمان 26 جولائی کو دن بارہ بجے اپنی بہن کے گھر واقع بھارہ کہو سے دو لاکھ روپے جو کہ اسکے والد نے بیٹی کے گھر بطور امانت رکھوائے تھے لیکر ایبٹ آباد کی جانب روانہ ہوا۔
شام چار بجے مذکورہ نوجوان کا موبائل بند ہوگیا جس کی بابت آج تک کچھ معلوم نہ ہوسکا،چار اگست کو تھانہ ٹیکسلا میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تاہم بعد ازاں سی ڈی آر ڈیٹا کے شوہد ملنے کے بعد ملزم جاوید ولد کالا خان کو نامزد کیا گیا ، پولیس نے پندرہ اگست کو ملزم کو گاڑی سمیت گرفتار کیا تاہم مغوی کے والد مدعی سیف الرحمان کے مطابق پندرہ روز مذکورہ ملزم پولیس کی تحویل میں رہا اسے پولیس نے وی وی آئی پی پروٹوکول دیا حتی کے متعدد بار دیکھا گیا کہ ملزم جاوید پولیس کے ساتھ بطور ڈرائیور کام کرتا رہا جس کے بعد اسے فرار کر دیا گیا،فرار ہونے کے بعد ملزم جاوید نے 25 ستمبر دن گیارہ ستاون منٹ پرمغوی کے والد سیف الرحمان کو اپنے موبائل نمبر03554119054 سے مغوی یاسر علی کے والد کے موبائل نمبر03227658535 پر فون کیا اور بچے کی بحفاظت بازیابی کے لئے مبلغ پانچ لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا اور دھمکی دی کہ میری گاڑی بھی پولیس سے واپس کروا کر دو اگر میری ہدائت پر عمل نہ کیا گیا تو تمھارے بچے سمیت تین سو افراد کو قتل کردونگا مجس کی بابت مغوی کے والد سیف الرحمان نے پولیس کو فوری متنبہ کیا اور فون کی تفصیلات بتائی مگر پولیس تس سے مس نہ ہوئی۔
متاثرہ خاندان کا کہنا تھا کہ اگر پولیس ہمیں انصاف دلانا چاہئے تو ملزمان تک رسائی اور بیٹے کی با حفاظت بازیابی کے لئے سی ڈی آر ڈیٹا ہی کافی ہے مگر پولیس اثر رسوخ کے حامل ملزمان کے ساتھ ملی ہوئی ہے ، انصاف کے لئے کون ست دروازہ کھٹکھٹائیں،بتایا جاتا ہے کہ جوانسال بیٹے کے اچانک اغواء پر ماں ماں باپ غم سے نڈھال ہیں جبکہ بیوی کے آنسو نہیں رک رہے بچے روز ماں سے پوچھتے ہیں پاپا کہاں ہیں کب آئیں گے، چوبیس سالہ مغوی یاسر علی کے اغواء کا کسی کچ اور رخ اختیار کر چکا ہے پولیس نے تاحال مغوی کو بازیاب کرانے کی بجاے مک مکا کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ پولیس الٹا متاثرہ خاندان کو دبا رہی ہے، بجائے اس کے کہ ملزم جاوید سے فوری مغوی کی بازیابی کو ممکن بنائے،محکمہ پولیس کا آوا کے آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
متاثرہ خاندان پولیس کے اعلیٰ افسران کے پاس بھی انصاف کی دھائی لیکر پہنچے مگر کہیں سے انھیں انصاف نہ ملا ، تحصیل پریس کلب ٹیکسلا میں متاثرہ خاندان کے افراد مغوی کے والد سیف الرحمان ، مغوی کے بھائی محمد ظہید، مغوی کے سسر محمد شریف،بیوی اور مغوی کے کمسن بچے چھ سالہ عاصم، چار سالہ حارث، اور دو سالہ کاشف اپنی ماں کے ساتھ موجود تھے بچوں نے اپنے والد مغوی یاسر علی کی فوٹو اٹھا رکھی تھی اور معصوم نظروں سے باپ کی بازیابی کے لئے فریاد کر رہے تھے جسء دیکھ کر وہاں موجود افراد کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے ، مغوی کی ماں نے روتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان، وزیر اعلیٰ پنجاب، چیف جسٹس آف پاکستان اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے اپیل کی کہ اسکے بیٹے کو بحفاظت بازیاب کرا کر انھیں انصاف دلایا جائے وہ غریب لوگ ہیں با مشکل محنت مزوری کر کے گھر کا خرچ چلتا ہے پانچ لاکھ روپے تاوان کی رقم کہاں سے لائیں کس کے آگے جھولی پھیلائیں، کون ہماری داد رسی کرے گا،مغوی کی بیوی کا کہنا تھا کہ اگر اسے اسکا شوہر زندہ سلامت نہ ملا تو وہ اپنے کمسن بچوں کے ساتھ پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے خود سوزی کرے گی ، کیا انصاف غریب کا حق نہیں ،ہم کس پاکستان میں رہ رہے ہیں جہاں جس کی لاٹھی اسکی بھینس کا قانون رائج ہے چار ماہ گزرنے کے بعد بھی پولیس مغوی کو بازیاب کرانے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔
جبکہ ملزم جاوید کی سی ڈی آر ڈیٹا سب کچھ کھلم کھلا بتا رہا ہے ، ، یہاں یہ امر قابل زکر ہے کہ تھانہ ٹیکسلا میں تعینات سب انسپکٹر اسرار جس نے ملزم کے قبضہ سے برآمد ہونے والی مہرا ن کار مال مقدمہ میں جمع کرانے کی بجائے اپنے تصرف میں رکھی ہوئی ہے اور مدعی اور ملزم کو بھی کہتا ہے کہ کار کا بالکل زکر نہ کرو وہ اب گئی جہاں پہنچنی تھی پہنچ گئی ،کار کا اس مقدمہ سے کوئی تعلق نہیں ، ایس آئی اسرار کی بد نیتی اس سے زیادہ اور کای ہوسکتی ہے کہ نقد رقم رشوت لینے کے باوجود اس نے کار کا بھی مال غنیمت جانتے ہوئے اینٹھ لیا،جسکا کاغزات میں کوئی تذکرہ نہیں، متاثرہ خاندان کا کہنا تھا کہ یہ ایک بہت بڑا نیٹ ورک ہے جو انسانی سمگلنگ میں بھی ملوث ہے جبکہ جاوید نامہ شاطر ملزم اکثر اپنے رشتہ داروں کے نام کی سمیں موبائل میں استعمال کرتا ہے،ادہر یہ امر قابل زکر ہے کہ مانسہرہ میں عینی شاہدین کے مطابق بھی مغوی یاسر کو جاوید نامی شخص کے ساتھ نیم بے ہوش حالت میں دیکھا گیا۔