تحریر : محمد ریاض پرنس نومبر ابھی شروع ہی نہیں ہوا کہ سردہوائوں کارخ پاکستان کی طرف ہو گیا ہے۔ مگر ان ہوائوں کو پتہ نہیں کہ یہاں کے لوگوں کے اندر کتنی آگ بھری پڑی ہے جس سے اس سردی کی لہر کا کوئی اثر نہیں ہونے والا۔ پاکستان کے تمام سیاستدان اس وقت جوشیلے اور گرم لہجے میں سر گرم ہیں ۔اور خوب ایک دوسرے پر گولے برسا رہے ہیں ۔ جس سے بھی پوچھو گے وہ آگ ہی برسائے گا۔ ہر طرف اندھیروں کے بادل بھی جھائے ہوئے ہیں ۔ مگر ان اندھیروں سے ان سیاستدانوں اور حکمرانوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔ ڈر نا تو ان کو چاہئے جو ہر روز مزدوری کر کے اپنے بچوںکا پیٹ پالتے ہیں۔ اور اپنے گھروں کو چلا رہے ہیں۔ ان سرد ہوائوں اور کالے بادلوں کا ڈر تو ان غریب مزدورپاکستانیوں کو ہے جن کے چوہلے بند ہونے والے ہیں ۔ جن کو پتہ ہی نہیں کہ یہ سیاستدان ملک کے ساتھ کیا کرنے والے ہیں۔یہ سیاستدان اپنے مفادات کے لئے ملک کا بیڑا غرق کر رہے ہیں ۔خود تو عیش وعشرت کی زندگی گزار رہے ہیں اور مرنے کے لئے ہم کو آگے کر دیتے ہیں خود کنٹینروں کے اندر چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں گرمی اور سردی کا مقابلہ ہم کو کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت کوئی بھی سیاسی جماعت ملک کے بارے میں نہیں سوچ رہی بلکہ سب اپنے مفادارت کے لئے ایک دوسرے پر زہر اگل رہے ہیں ۔جس سے ہمارے ملک کا بڑا نام روشن ہو رہا ہے۔
اخبارات سے لے کر نیوزچینلز تک سب پر بس ایک ہی بات کا رونا شروع ہے ۔ دو نومبر ،دونومبر۔اور اگر ان دونوں جماعتوں کی کشیدگی کو دیکھا جائے تو معلوم یہی ہوتا ہے کہ پاک بھارت جنگ جھڑنے کا خدشہ ہے۔ ہم کو کہیں اور جانے کیا ضرورت ہے۔ ہمارے ہی ملک میں سب جماعتیں مخالفین کو بھارت ہی سمجھتی ہیں۔اور خوب ایک دوسرے کی کارکردگی پر گند پھیلا رہی ہیں۔میرا سوال بلکہ پاکستان کا ہر نوجوان ان سیاستدانوں سے پوچھنا چاہتا ہے کہ آخر آپ پاکستان کے ساتھ کس حد تک مخلص ہیں ۔ آپ اپنی جنگ میں اور اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے پاکستان کے ساتھ کیا کرنے والے ہیں ۔ کیونکہ پاکستان کو بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہو۔ کیونکہ پاکستان کا امن تباہ وبر باد کرنا چاہتے ہو، کیونکہ پاکستان کو اپنی غلط پالیسیوں کی بدولت مقروض کیے جار ہے ہو کیونکہ آپ سب ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا نہیں ہو سکتے ۔ کیونکہ آپ سب مل کر پاکستان کی عوام کی رولا رہے ہو، کیا آپ مل کر پاکستان کو خوشحال نہیں بنا سکتے ۔ تو پھر پاکستان کو بند کرنے کے بارے میں نہ سوچو۔ اس سے آپ اپنا ہی نقصان کر رہے ہو۔
بچوں سے لے کر بڑوں تک سب کی زبان پر صرف ایک ہی بات ہے دو نومبر ۔پاکستان کا ہر شہری پریشان دیکھائی دیتا ہے کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ مگر کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو صرف تماشہ دیکھنے کے لئے باتوں کو پھیلا رہے ہیں اور بڑے بڑے دعوے کر رہے ہیں کہ دو نومبرکو یہ ہو جائے گا ۔ وہ ہوجائے۔ بس سب تماشہ دیکھنے کے لئے دو نومبر کا انتظار کر رہے ہیں۔ کپتان صاحب بس ایک ہی بات پر ضد لگائے بیٹھے ہیں کہ نواز شریف اپنی تلاشی دیں ۔ مگر کپتان کو تلاشی لینے کے لئے اپنے اردگرد کچھ دیکھائی نہیں دے رہا ۔ خاں صاحب کو چاہئے تھا کہ سب سے پہلے اپنے اردگرد کے لوگوں کی تلاشی لیتے پھر ایسا قدم اٹھاتے ۔ مگر ان کو دو نومبر کو اسلام آباد بند کرنا ہے اور وہ اپنی اس بات پر قائم ہیں ۔ پاکستان کا چاہئے کتنا نقصان ہو جائے خاں صاحب تو پاکستان کو بند کر کے ہی رہیں گے۔
Sheikh Rasheed and Tahir ul Qadri and Imran
اسلام آباد کو بند کرنے کے لئے شیخ رشید ،چوہدری برادران اور طاہر القادری بھی ان کے ساتھ ہوں گے چوہدری برادران بھی نہیں چاہتے کہ نوازشریف ملک کے وزیر اعظم رہیں ۔ میری نظر میں اسلام آباد کو بند کرنے کی منصوبہ بندی بھی چوہدری برادران اور شیخ رشید نے بنا کر کپتان کے سپرد کی ہے۔ عمران خاں کو آگے کر یہ لوگ اقتدار میں گھوسنا چاہتے ہیں ۔ کیونکہ چوہدری برادران نے تو اقتدار کے خوب مزے لیے ہوئے ہیں ۔ اس لئے وہ عمران کو استعال کر کے فائدہ اٹھائیں گے۔پاکستان مسلم لیگ ن کے تمام ارکان ا س وقت سخت پریشان ہیں کہ عمران خاں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں ۔ اور کوئی مذاکرات کا حل نکل سکے مگر عمران خاں نے واضح طور پر پریس کانفرنس میں کہہ دیا ہے کہ حکومت کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہو سکے۔ بس دونومبر کو نوازشریف اپنی تلاشی دیں یا پھر احتساب کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں ۔عمران خاں نے بس اس پات کی رٹ لگا رکھی ۔ اور یہ ان کا اٹل فیصلہ بھی ہے۔ اور انہوں نے دو نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔ عمران خاں نے اسلام آباد کو سات اطراف سے بند کرنے کی منصوبہ بندی بھی کر لی ہے۔ اور اگر حکومت نے کچھ گڑبڑ کی تو اس کے آگے بھی بہت کچھ سوچ رکھا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ احتجاج جائز بھی ہے مگر یہ طریقہ درست نہیں ۔ اسلام آباد کو بند کرنا۔
پاکستان کو بند کرنا ہے۔ اگر اسلام آباد بند ہو جاتا ہے تو پاکستان سارا بند ہو جائے گا جس کے نقصان کے بارے میں عمران خاں نے سوچا نہیں ۔اگر اس دھرنے کے عمران خاں اچھے نتائج چاہتا ہے تو اس کو کسی دوسرے جگہ مستقبل جتنے بھی دن ہوں کہیں اور جا کر دھرنادینا مناسب ہو گا۔ مگر اسلام آباد کو بند کرنا کہیں کی بھی عقل مندی نہیں اور نہ حکومت نے اسلام آباد باد ہونے دینا ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومت نے دھرنا ہونے نہیں دینا اور ان تمام رہنمائوں کو گرفتار کر لینا ہے اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے حکومت جا بھی سکتی ہے اور مارشل لاء بھی لگ سکتا ہے ۔ اور اگر مارشل لاء لگ گیا تو اس کی ساری ذمہ دار عمران خاں ،شیخ رشید ،طاہر القادری اور چوہدری برادران پر ہو گئی ۔ اور پاکستانی عوام جمہوری حکومت کو تباہ کرنے پر ان سب کو معاف نہیں کرے گئی۔
افسوس اس بات کا ہے کہ عمران خاں کو پاکستان کے موجودہ حالات پر نظر ڈالنی چاہئے ۔ ہمارا ملک اس وقت دہشت گردی کا شکار ہے اور ہم دھرنے پر دھرنا دیے جا رہے ہیں جس سے ہم خود اپنا نقصان کر رہے اور ہمارے دشمن اس کا فائدہ اٹھا کر ہمارے معصوم لوگوں کی جانیں لیے جا رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ عمران خاں جن کے اشاروں پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں ان کی بات نہ مانیں ۔ اور اچھے وقت کا انتظار کریں ۔ ابھی تو ہمارے کوئٹہ میں شہید ہونے والے نوجوانوں کے جنازے پڑے ہیں اور ہم ملک کو بند کرنے کی منصوبہ بندی پر لگے ہوں ہیں ۔ عمران خاں صرف اپنے اردگرد کے لوگوں کے بارے میں نہ سوچو بلکہ پاکستان کی ساری عوام کے بارے میں سوچو جو اس ملک میں امن چاہتے ہیں ۔ جو اس ملک سے دہشت گردی کاخاتمہ چاہتے ہیں ۔ ان شہیدوں کے بچوں کے بارے میں سو چو جن کو پاکستان کی ضرورت ہے ۔ جو پاکستان کے اپنے جانیں دینا چاہتے ہیں ۔ اور پاکستان کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور سب سب جانتے ہیں اگر یہ دو نومبر کا دھرنا طویل ہو جاتا ہے تو ہمارا ملک معاشی طور پر کتنا پیچھے چلا جائے گا۔جس کا اندازہ ان کو نہیں ہے۔ جس کا خلا ہم کبھی بھی پورا نہیں کر سکیں گے ۔اے میرے مالک میرے ملک کی حفاظت فرما۔ آمین