تحریر: سید انور محمود عمران خان اکثر اپنے کہے یا اپنے اعلان کردہ پروگراموں سے یوٹرن لے لیا کرتے ہیں ، اس لیے انہیں یو ٹرن خان بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن 6 ستمبر 2016 کوجس دن انہوں نے کراچی کے نشتر پارک میں جلسہ کیا تھا اس دن سے شاید وہ یوٹرن لینا بھول گئے ہیں، کراچی کے جلسے میں انہوں اعلان کیا تھا کہ وہ 24 ستمبر کو رائیونڈ میں جلسہ کرینگے۔24 ستمبرکو تو نہیں البتہ 30 ستمبر کو عمران خان نے رائیونڈ کے اڈہ پلاٹ پر جلسہ کرکےاپنے 30 اکتوبر2011 کے جلسے کی یاد تازہ کردی۔ عمران خان کے اس جلسہ سے پہلے کسی کو امید نہیں تھی کہ اتنا بڑا جلسہ ہوجائے گا۔ جلسے سے پہلے نواز شریف کے درباریوں نے اس جلسے کے بارئے میں بڑی بڑی باتیں کی تھیں، انکا دعوی تھا کہ اڈہ پلاٹ کے جلسے میں چند ہزار ہی لوگ جمع ہوپاینگے لیکن اس جلسے میں شریک ہونے والی نفری کو دیکھ کرجو یقیناً دو لاکھ سے زیادہ تھی نواز شریف اور انکے ساتھیوں پر بوکھلاٹ طاری ہے۔ ساتھ ہی عمران خان کاپہلے 30 اکتوبر اور بعد میں دو نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کے اعلان نے پوری نواز شریف حکومت کوہلادیا ہے۔ عمران خان نے کہا ہےکشتیاں جلاکراسلام آباد جارہے ہیں، ہمارا مقابلہ کرپشن کے شہنشاہ نواز شریف سے ہے۔ دو نومبر کا میچ میری زندگی کا سب سے اہم میچ ہے جس میں مد مقابل ٹیم گیارہ جعلی کھلاڑیوں پرمشتمل کرپشن کا ٹولہ ہے۔
جمرات 27 اکتوبر 2016 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت حسین صدیقی نے اپنے فیصلے میں احتجاج کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ 2 نومبر کو کسی کو بھی اسلام آباد بند کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ احتجاج کے نام پر عوام کے بنیادی حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کو احتجاج اور دھرنوں کے ذریعے شہر کو بند کرنے سے روکتے ہوئے پارٹی کے چیئرمین عمران خان کو31اکتوبرکوذاتی حیثیت میں وضاحت کیلئے طلب کرلیا۔دوران سماعت جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دئیے کہ کسی کو کنٹینرز یا دھرنے سے سڑکیں بند کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ‘لگتاہے وہ حکومت مفلوج کرناچاہتے ہیں’ امپائر صرف پاکستان کی عدالتیں ہیں، آن گراؤنڈ ، آف گراؤنڈ اور اور ریزرو امپائر بھی عدالتیں ہی ہیں، کرکٹ میں رگبی کے اصول نہیں چلنے دیں گے۔ آزادی اظہار، تحریر و تقریر اور نقل و حرکت کی آزادی ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن اس سے کسی دوسرے شہری کے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔
پہلے پاکستان اور بھارت میں کرکٹ میچوں میں اپنے اپنے امپائر ہوتے تھے، ایک دوسرے کے ممالک میں جیتنا تقریباً ناممکن تھا، بھارت میں امپائر اور ٹیم دونوں سے لڑنا پڑتا تھا۔ لیکن پھرعمران خان نے اپنے کرکٹ بورڈ سے لڑکر اپنے ملک میں نیوٹرل ایمپائرز کے ذریعے تاریخ میں پہلی مرتبہ میچ کروائے تھے اور کہا تھا کہ میں کھیلوں گا تو نیوٹرل ایمپائرز کے ساتھ تاکہ کوئی ہماری جیت پر انگلی نہ اٹھا سکے ۔ آج کرکٹ کی دنیا عمران خان کو اس حوالے سے اپنا محسن مانتی ہے کہ عمران خان ہی وہ شخص ہے جس نے کرکٹ میں دھاندلی کرنے والے ایمپائرز کے ساتھ کھیلنے کے بجائے نیوٹرل ایمپائرز متعارف کروائے اور کرکٹ کے کھیل کو وقاراوراعتباردیا ۔ یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ عمران خان کسی ایسے ایمپائرکے فیصلے کو نہیں مانے گا جس کے بارئے میں اس کو زرا بھی شبہ ہو کہ وہ ایک نیوٹرل ایمپائر نہیں ہے۔
Supreme Court
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر سید علی ظفر نے کہا کہ ‘‘وہ پاناما لیکس کیس میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کیلئے عمران خان کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں لیکن وہ احتجاجاً اسلام آباد بند کردیئے جانےکے حق میں نہیں ، جو آئین سے بالاتر اقدام ہوگا۔ لہٰذا عمران خان اپنے احتجاج کو آئینی حدود میں رکھیں۔ علی ظفر کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کو ایسا فیصلہ دینے سے گریز کرنا چاہئے تھا کیونکہ تحریک انصاف اس پرعملدرآمد نہیں کرے گی اور عدالت کا وقار دائو پر لگ جائے گا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کو چاہئے تھا کہ وہ ثالث کا کردار ادا کرتی اور صورتحال سے نمٹنے کا معاملہ حکومت پر چھوڑ دیا جاتا’’۔ لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد کی انتظامیہ کو احکامات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ دو نومبر کو اسلام آباد بند نہیں ہونا چاہیے۔ قبل ازیں عمران خان نے کہا تھا کہ وہ احتجاج کرتے ہوئے اسلام آباد بند کردیں گے۔
عدالتی فیصلے کے بعد عمران خان کا کہنا تھا کہ میں پاکستان میں انصاف کے اداروں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم سے جمہوری پرامن احتجاج کا حق چھینا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا ‘اس حکم میں کچھ ایسی چیزیں ہیں جن سے ہم اختلاف کرتے ہیں۔ ہم اس بات پر غور کررہے ہیں کہ کیا ہائی کورٹ کے پاس اس حکم کو جاری کرنے کا اختیار ہے۔ کیا ہائی کورٹ رٹ پٹیشن میں انفرادی طور پر کسی شخص کو بلا سکتی ہے؟’۔ تحریکِ انصاف کے رہنما اور معروف وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ ‘یہ فیصلہ نہیں ایک حکم ہے۔ یہ حکم ہمیں سنے بغیر جاری کیا گیا ہے، ہماری نظر میں یہ حکم اپنے دائرہ اختیار سے باہر نکل کر جاری کیا گیا ہے’۔ اس موقع پر معروف قانون دان بابر اعوان نے کہا کہ ‘سپریم کورٹ کا فیصلہ تمام عدالتوں پر محکم ہے اور آئین کے آرٹیکل 10کے تحت کسی فریق کو سنے بغیر کوئی فیصلہ یا حکم نہیں دیا جا سکتا’۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی سے بڑی معذرت کے ساتھ عرض ہےکہ پاکستان کے عوام کو پاکستانی عدالتوں کے ایمپائرز پر اعتبار نہیں ہے، کیونکہ پاکستانی عدالتوں میں بیٹھے ہوئے جج صاحبان نے ہمیشہ جانبدار ایمپائرز کا کردار ادا کیا ہے۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو اس بات کی بڑی مضبوط مثال ہیں، سابق آمر جنرل ضیاء الحق نے سپریم کورٹ کے ایمپائرز کی مدد سے ہی ایک منتخب وزیراعظم کو پھانسی دی تھی اور ان ایمپائرز میں سے ایک ایمپائرجسٹس نسیم حسن شاہ نے اس بات کو تسلیم بھی کیا تھا کہ وہ فیصلہ جانبدارانہ تھا جو جنرل ضیاء الحق نے دباو میں کروایا تھا۔ نواز شریف جوفوجی آمر جنرل ضیاء الحق کی پیداوارہیں انکے کرپشن پر احتجاج کیا جارہا ہے، ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ملکی دولت کو لوٹ کرغیر قانونی طریقے سے ملک سے باہر بھیجا ہے، جس سے انہوں نے لندن میں عالیشان فلیٹ خریدئے ہیں اور انکے دو بیٹے حسن نواز اور حسین نوازبڑئے کاروبار کررہے ہیں۔عمران خان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف آج اربوں روپوں کے مالک ہیں۔لیکن کیسے؟یہ پیسہ جائز طریقے سے نہیں کمایا جاسکتا۔ عمران خان مطالبہ کررہے ہیں کہ نواز شریف یا توتلاشی دیں یا پھر استعفیٰ۔حزب اختلاف کی باقی جماعتیں بھی تھوڑئے سے فرق کے ساتھ نواز شریف سے وہی مطالبہ کررہی ہیں جو عمران خان کررہے ہیں۔ تاہم نواز شریف عمران خان یا حزب اختلاف کی جماعتوں کا کوئی بھی مطالبہ ماننے کو تیار نہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعدگذشتہ دو دن میں ریاستی تشدد نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ مسلم لیگ(ن) ہر عدالتی فیصلے کے خلاف عمل کرتی ہے چاہے وہ فیصلہ اس کے حق میں ہی کیوں نہ آیا ہو۔ خیر ابھی تو دو نومبر میں چار دن باقی ہیں اور بھی بہت کچھ ہوگا۔ اس وقت تو خبر یہ ہے کہ سپریم کورٹ پاناما خفیہ دستاویزات کیس پر یکم نومبر سے کارروائی شروع کرئےگی۔ اب انتظار کیجیے کہ بڑئے ایمپائرز کیا فیصلہ دیتے ہیں۔ میں اکثرعمران خان کی سیاست سے اختلاف کرتا ہوں لیکن بڑی ہی معذرت کے ساتھ مجھےاسلام آباد ہائی کورٹ کے ایمپائرجسٹس شوکت عزیز صدیقی کے فیصلے سے جانبداری کی بو آرہی ہے۔ خدا نہ کرئے مگرہوسکتا ہے آنے والی تاریخ میں یہ لکھا ہوا ملے کہ اپنے ریٹائر منٹ کے بعدجسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی جسٹس نسیم حسن شاہ کی طرح اس بات کو تسلیم کیا کہ دو نومبر کے حوالے سے میرا فیصلہ جانبدارانہ تھا۔کرکٹ کےلیے نیوٹرل ایمپائرز تو عمران خان لے آئے تھے ، اب پاکستانی قوم کو عدلیہ میں نیوٹرل ایمپائرز کا انتظار ہے۔