تحریر : سلیم سرمد جنوبی پنجاب (سرائیکی بیلٹ) جو کہ حقوق اور بجٹ کی منصفانہ اور مساوی تقسیم نہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ سے پسِ افتادہ و پسِ ماندہ رہا ہے،لیکن اس خطے نے شروع ہی سے پاکستان کے معاشی سیکٹر کو بے پناہ وسائل اور افرادی قوت سے نوازا۔یہاں کے پیداواری وسائل ،افراد کی محنت،لگن اوردیگر صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ذہنی و تخلیقی صلاحیتوں سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔سیاسیات،معاشیات اورزندگی کے دیگر شعبہ ہائے جات کے ساتھ ساتھ یہاں کے فرد نے فنونِ لطیفہ اور علم و ادب کے میدان میں بھی میں گراں قدر اور نمایاں خدمات سر انجام دی ہیں،اور اس دھرتی کی کوکھ سے ایسے ایسے مشاہیر پیدا ہوئے کہ دنیا ان پر رشک کرتی ہے۔خاص کر شاعری اور علم و ادب میں کچھ نام ایسے ہیں جن کا تذکرہ کیے بغیرشاعری اور علم وادب کے سرمائے پہ فخر نہیں کیا جا سکتا۔ معروف محقّق و مورّخ ،محترم ڈاکٹر شکیل پتافی، جناب ڈاکٹر سجاد حیدر پرویز، رانا محبوب اختر، مجاہد جتوئی، ڈاکٹر مختار ظفر، حفیظ خان ، عاشق بزدار اور نہ جانے اورایسے کتنے نام ہیں جنہیں گِنوانے بیٹھیں تو اخبار کے یہ صفحات کم پڑ جائیں۔
فاضل پور(ڈسٹرکٹ راجن پور) سے تعلّق رکھنے والے خوبصورت ، متحیراور اچھوتے اسلوب کے مالک میثم حیدر بھی شعر و ادب کی دنیا میں ایک خوبصورت اضافہ اورفاضل پور کایکتا حوالہ ہیں۔ متحیر اور جاندار منطقی اسلوب ،انکی خاص پہچان اور انفرادیت ہے۔وہ الفاظ و تراکیب کا استعمال بڑے اچھوتے انداز میں کرتے ہیں ،اور شعر کہنے کا فن بخوبی جانتے ہیں۔فاضل پور میں کوئی خاص ادبی تنظیم یاادبی پلیٹ فارم نہ ہونے کے با وجود میثم حیدر اپنا شعری سفر بغیر کسی سپورٹ کے تن تنہا ،اپنی علمی استعداد کے بل بوتے پر جاری رکھے ہوئے ہیں ۔وہ جس طرح کے اشعار تخلیق کرتے ہیں اس سے یہ گمان ہوتا ہے کہ وہ کسی بہت بڑے دبستان میں بیٹھے ہیں مگر جب ہم ان کی جنم بھومی پہ ایک نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ان کے شہر میں کوئی ادبی تحریک نظرنہیںآتی۔
ایم۔ایس بینکنگ اینڈ فنانس، ڈگری ہولڈر اور زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے کے با وجود ان میںذرہ بھر بھی خود پسندی کا شائبہ نہیں ہوتا۔ دوستوں کے دوست،یاروں کے یار،اخلاق و اقدار سے مرصّع شخصیت۔ میثم حیدر کی شاعری روایت سے ہٹ کر جدید خطوط پر استوار ہے، جسم میں وہ مختلف مسائلِ زمانہ اور تلخ حقائق کو اس کمال مہارت کے ساتھ، طنز و تشنیع کے نشتر چلاتے ہوئے بیان کر جاتے ہیں کہ قاری اور سامع حظ اٹھانے کے ساتھ حیران و ششدر رہ جاتا ہے۔چند اشعار ملاحظہ فرمایئے: اپنے جنگل کو بڑھانے تو نہیں آئے ہو تم ! میرا شہر گرانے تو نہیں آئے ہو ٭ یہی گلہ ہے تری آئینہ گری سے مجھے میں ٹوٹ کر بھی مکمل دکھائی دیتا ہوں ٭ ہم تو سائیں کچی مٹی کی دیواروں جیسے ہیں گرنے میں بھی آسانی ہے اٹھنے میں بھی آسانی
Life
سہل پسند اورآرائش و آسائش پرست لوگ دنیاوی زندگی کوہی سب کچھ سمجھتے ہیں،لذتِ کام و دہن اور سکون و آسائشات کو مقصدِ حیات سمجھتے ہوئے خواہشات کی تکمیل میں جتے رہتے ہیں ۔ لیکن صاحبِ بصیرت ،کامل، عاقبت اندیش اور دور اندیش لوگ اس دنیاوی زندگی کو کڑے امتحان سے کم نہیں سمجھتے۔ان کے نزدیک یہ دنیا ایک سراب اور دھوکے کے سوا کچھ نہیںاور بعض اوقات اس طرح کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ انسان زہر پیالہ پینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔میثم حیدر اس زندگی کی حقیقت کچھ یوں بیان کرتے ہیں: زندگی زہر کے پیالے میں چھپی بیٹھی ہے پیاس اتنی ہے کہ امرت کا گماں ہوتا ہے
ماضی کے تلخ لمحات سے خوف زدہ انسان، ہمیشہ اپنے حال کو خوبصورت بنانے،سجانے ،سنوارنے ،اور مستقبل کے بارے میں فکرمند رہتے ہوئے صرف سہانے سپنے نہیں دیکھتا بلکہ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ گزرے ہوئے بھیانک لمحات اس کی زندگی میں دوبارہ نہ در آئیں۔مگر جس انسان کے ماضی کا کچھ حصہ کسی حد تک اذیت ناک اور خوفناک رہا ہو توبرے سپنے اکثراس انسان کا پیچھا کیے رہتے ہیں ۔اوریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس جدت پسند اور آزادانہ معاشرے میں زندگی گزارنے کے لیے ہمیں وقت اور زمانے کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے خود کو اس نظام کے ساتھ متوازن رکھنا پڑتا ہے، مگر جب یہ معاشرتی نظام ہی بگڑا ہوا، متزلزل ،انسانی اقدار اور عقلیت سے عاری ہو تو ایسے میں ایک حساس انسان کی زندگی ایک کڑے امتحان سے کم نہیں ہوتی۔میثم حیدر کے مذکورہ بالا حالات و واقعات کے عکاس چند اشعار دیکھئے: وہی قفس وہی منظر دکھائی دیتا ہے یہ خواب ہے کہ مقدر دکھائی دیتا ہے ہوس کی جلوہ گری ہے کہ پیاس کا عرفاں نشانِ آب ، اب سمندر دکھائی دیتا ہے یہ مجھ کو اپنے ہی جیسا بنا کے چھوڑیں گے کہ ہاتھ ہاتھ میں خنجر دکھائی دیتا ہے
میثمحیدر کے کلام میں ندرتِ خیال،فکری و فنی پختگی اور تہہ در تہہ معنویت انھیں اپنے ہم عصر اور نوجوان شعراء سے ممتاز کرتی ہے اور یہ انفرادیت اور پختگی اس بات کی شاہد ہے کہ میثم حیدر ، ذرخیز ذہن کے مالک اورباصلاحیت شاعر ہیں۔چند مزید شعر دیکھئے۔ کیا جانیے کس ہاتھ ہے زنجیر بدن کی پلٹا ہوں تو ہر شخص ہی پیچھے کو گر ا ہے ٭ کتنے زینے اترنے پڑتے ہیں جب تمھارے فلک پہ آتا ہوں ٭ ہوا نے تھام رکھی ہے مری ہر سانس کی ڈوری جہاں دم تھمنے لگتا ہے وہ کسنا چھوڑ دیتی ہے ٭ چلی جائو کہیں ایسا نہ ہو کہ شا م پڑ جائے مرے اندر کی بستی میں کوئی آدم نہیں رہتا ٭ اس مختصر سے مشاہدے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچاہوں کہ میثم حیدر ایک انتہائی حساس طبع شاعر ہیں۔ان کی شاعری میں وہ تمام فنی و فکری پہلو ،وہ تمام عناصر پائے جاتے ہیں ،جو شعری محاسن اور ایک مستند شاعر کا خاصہ کہلاتے ہیں۔ ان کے کلام میں فکری تنوع،فنی بالیدگی ،ندرتِ خیال اور شعوری رفعتیں بخوبی اور بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں،جسکی بنا پر شعری حلقوں میں وہ اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں ۔ دعا ہے کہ ان کا یہ تخلیقی سفر تسلسل اور کامیابی کے ساتھ جاری رہے۔۔