تحریر: مقصود انجم کمبوہ نوجوانوں کے علاوہ بالغ ملازمین کی جدید تعلیم وتربیت کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ اس حقیقت میں مضمر ہے کہ مشرقی یورپی ملکوں کے فنی تربیتی مراکز میں اصول اور پالیسی کے طور پرموجودہ زمانے کی ٹیکنیکل ضروریات اور تقاضوں کو مد نظر نہیں رکھا جاتا۔نتیجتاً اب ان تمام ملکوں میں آزمائشی مراکز قائم کیے جا رہے ہیں۔جہاں برسرروزگار عملی تربیت اور بعد ازاں مزید اعلیٰ تربیت دینے کے پروگراموں میں فرموں اور کمپنیوں کو شامل کیا جاتا ہے۔اور مختلف پیشہ ورانہ تربیت کے اداروں کی اعانت کی جاتی ہے۔اب عملے کی تربیت اور فروغ کے لیے اس قسم کے صنعتی مراکز ،تجارتی ،تربیتی دفاتر،ٹیکنالوجی کے متعلق فرمیں مختلف مقامات پر موجود ہیں۔
معیشت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے جس بنیادی ڈھانچے کی ضرورت ہوتی ہے اس میں معیشت کے مفادات کی نگرانی کے لیے صنعت وتجارت کے ایوانوں کی شمولیت ضروری ہے۔جو روزگار مہیا کرنے والے مراکز کو اپنی ضروریات کے مطابق مشورے دے سکیں۔کسی علاقے کی اقتصادی ترقی اس کے ساتھ ساتھ منڈی کی معیشت کے فروغ کی خاطر اقدامات کے لیے ایسے اداروں کی موجودگی انتہائی ضروری ہے کیونکہ ان کی عدم موجودگی میںاقتصادی ترقی کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتاوفاقی جمہوریہ جرمنی ،وسطی اور مشرقی یورپ میں اصلاحات کے عمل میں تعاون کے ساتھ ساتھ مثالی اور مالی امداد بھی کر رہا ہے۔مختلف اہم شعبوں میںمتعلقہ حکومتوں کے ساتھ جرمنی گہرے اور قریبی روابط میں ہے۔تاکہ ان شعبوں میں ترقی کے لیے ممکن حد تک موثر رہنمائی فراہم کی جاسکے۔
Training workshops
ہنرمند کارکنوں کی پیشہ ورانہ تربیت اور تربیتی نظام کے سلسلے میں متعلقہ ضروریات کے بارے میں تجربات کے عام تبادلے کے بعد ابتدائی مراحل میں اپنی مدد آپ کے نظریے کی بنیاد پر تعاون کیا جاتا ہے ۔اگرچہ شعبوں کی اہمیت کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے اس کے باوجود تمام ممالک میں یکساں بنیاد پر اشتراک اور تعاون کیا جا رہا ہے۔پیشہ ورانہ تربیتی نظام میں اصلاح کے لیے رہنمائی اور قانون کے مطابق فاونڈیشن کا قیام اشتراک اور تعاون کی مختلف کوششیں ہیں۔مثلا ماہرین کی خدمات مہیا کی جاتی ہیں۔رہنمائی کے لیے سیمینار ،مجلس مذاکرہ اور تربیتی ورکشاپس منعقد کی جاتی ہیں اور متعلقہ تحریری و تصویری مواد مہیا کیا جاتا ہے ۔پیشہ ورانہ تربیت کے شعبے میں اداراتی بنیاد پر اصلاحات کے لیے بنیادی قوانین و ضوابط مرتب کیے جاتے ہیں۔اورنئی انتظامی ذمہ داریوں کا تعین کیا جاتا ہے۔جدید مثالی تربیتی مراکز کے قیام میں مدد، تجارتی،صنعتی اور ٹیکنیکل تربیتی مراکز کے قیام میں اس بات کابطور خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ ان میں مختلف پیشوں کے بارے میں ایسی عملی تربیت دی جاسکے جومنڈی کی معیشت کی ضروریات پوری کر سکے۔اس کے ساتھ انتظامی امور کی تربیت کے لیے ادارے بھی قائم کیے جاتے ہیں۔
جہاں ان لوگوں کی تربیت کی جاسکے۔جنہیں آگے چل کر فیصلے کرنے کی ذمہ داریاں نبھانی ہوں۔اس بارے میں دی جانے والی مدد اور تعاون میں ترقیاتی منصوبہ بندی ۔عملے کی تعلیم اور نصاب کی تیاری اور تعلیم وتدریس کے لیے استعمال ہونے والے مواد ،سازوسامان کی فراہمی شامل ہے۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طریقہ کار کے ذریعے متعلقہ ممالک تربیتی اقدامات کو خود بروئے کار لا سکتے ہیں۔اور اپنے حالات اور ضروریات کے مطابق نئے طریقے اپنا سکتے ہیں۔اس وقت جرمن یورپین مملک سے کہیں آگے جارہا ہے اور نئے نئے فنی کمالات سے صنعتی ،تحقیقی معاملات میں جدت پیدا کر رہا ہے۔یہ ایک سچی حقیقت ہے کہ جرمن نے پاکستان کی صنعتی ترقی میں ان گنت مشورے دئیے اور تعاون کیا ہے۔پیشہ ورانہ تعلیم کو فروغ دینے میں جرمن کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔ہمارے ہاں بیشتر تربیتی ادارے پاک جرمن کے تعاون سے قائم ہیں۔اور ان اداروں کے سٹاف کی تربیت میں بھی جرمن کا ہاتھ ہے۔جرمن نے ہمارے تعلیمی وتربیتی اداروں کو جدید بنانے میںعملی اور مثالی تعاون کیا ہے۔
Performance
سٹاف کی تعلیم وتربیت کے لیے عملی اقدامات اٹھائے ہیں۔ بلاشبہ جرمن سے ہم نے بہت کچھ لیا اور سیکھا مگر دیکھنا یہ ہے کہ ہماری ٹیوٹا کیاکر رہی ہے ۔اخبارات میں تو ٹیوٹا کی کارگردگی کے بارے میں بہت کچھ کہا جا رہاہے۔روزانہ دو چار خبریں ٹیوٹا کی کارگردگی کے بارے میں شائع ہوتی ہیںلیکن میری نظر میں کارگردگی ایسی نہیں جس پر ہم اطمینان کا اظہار کر سکیں۔ابھی ہمیں بہت کچھ کرنا ہے ۔سٹاف اور ملازمین کی گردنیں دبوچنے سے ٹیوٹا کی کارگردگی کو اچھا نہیں کہا جاسکتا۔دیکھنا تو یہ ہے کہ اداروں سے تعلیم وتربیت حاصل کرنے والوں کی کارگردگی کتنی مثالی اور انقلابی ہے۔بہت سے پولی ٹیکنیک ،ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹی ٹیوشنزاور چھوٹے چھوٹے تربیتی مراکز ایسے ہیں جہاں تربیتی معیار اس قابل نہیں کہ وہ صنعتی یونٹوں میں جاکر صنعتی عملے اور سپر وائزروں کو مطمن کرسکیں۔گورنمنٹ ٹیکنیکل ٹریننگ انسیٹیوٹ قصو رکو ہی دیکھ لیں۔یہاںمشین شاپ، الیکٹرونکس شاپ،ویلڈنگ شاپ میں نوجوان داخلہ ہی نہیں لیتے کہ ،جس کے لیے پرنسپل کو دن رات ایک کرنا پڑتا ہے۔
اس کی کیا وجوہات ہیں۔ٹیوٹا انتظامیہ کو اس پر غور کرنا ہو گا۔اپنے ادارے کی کمزوریاں تو پرنسپل ہی بتاسکتے ہیں۔مگر جو میرے مشاہدے میں آیا ہے وہ سٹاف کی عدم دلچسپی اور مہارت میں کمی ہے۔جس کی وجہ سے نوجوان ان شعبوں میں داخلہ نہیں لیتے اور پھر یہ سٹاف برسوں سے اسی ادارے میں موج مستی اڑا رہا ہے ۔دیہی مزدور تربیتی مراکز جہاں کوڑا کرکٹ بھرا ہوا ہے اگرکوئی ہیراہے تو وہ بھی پتھر بن کے رہ گیا ہے۔ان اداروں میں سینکڑوں ملازم ایسے ہیں،جنہوں نے صدیاںگزاردیں لیکن تنکا بھی توڑ کر نہیں دکھایا ۔ ایسے ملازم جو کسی شعبے میں سمانا نہیں چاہتے ،ان کو جبری فارغ کردینا چاہیئے تھا۔چاہیئے تو یہ تھا کہ ایسے افراد کو بڑے اداروں میں ایڈجسٹ کرکے ان سے کام کیا جاتا مگر ایسا ہرگز نہیں ہوسکا۔ افسوس کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ میرے جیسے شخص کی کون سنتا ہے۔میں اپنے کالموں میں کئی تجاویز و آرادے چکا ہوں مگر آج تک ٹیوٹا انتظامیہ کے کسی فرد نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا ۔ حالانکہ میں مفت تعاون کرنا اپنا فرض اولین سمجھتا ہوں۔میں یہ نہیں کہتا کہ مجھے ایڈوائزر بنا کر دو لاکھ روپے ماہانہ دو۔