شام (جیوڈیسک) شام کے لیے اقوام متحدہ کے ایلچی سٹیفان ڈی مستورا نے کہا ہے کہ ‘وہ اس بات سے دہشت زدہ ‘ہیں کہ شام میں حکومت مخالف باغی حلب میں عام شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مغربی حلب میں گذشتہ 48 گھنٹوں کے دوران ہونے والے ‘بے رحم اور بِلا متیاز’ راکٹ حملوں میں متعدد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
سٹیفان ڈی مستورا کے مطابق ایسے حملوں کا شمار جنگی جرائم کے زمرے میں آ سکتا ہے۔ واضح رہے کہ باغیوں نے جمعے کو مشرقی حلب میں ایک بڑی کارروائی کی جس کا مقصد حکومتی محاصرے کو توڑنا تھا۔
ایک اندازے کے مطابق فوجیوں نے گذشتہ ایک ماہ سے حلب کے مشرقی علاقے کا محاصرہ کیا ہوا ہے جہاں دو لاکھ، 75 ہزار افراد آباد ہیں۔
روس اور شامی حکومت نے حلب میں باغیوں کے خلاف رواں برس ستمبر میں بمباری کا آغاز کیا تھا جس سے اب تک 2,700 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
حلب کا مشرقی علاقہ امریکہ اور روس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے ختم ہونے کے بعد سے شدید بمباری کی زد میں ہے۔
شام کے سرکاری میڈیا کےمطابق باغیوں نے حلب میں حکومت کے زیرِ قبضہ علاقوں میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ باغیوں کے ایک گروپ کے ترجمان نے شامی حکومت کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے پاس ایسے ہتھیار نہیں ہیں۔
حلب کے دو اضلاع میں 35 افراد کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ شام میں کام کرنے والے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ حلب میں باغیوں کے حملوں کے آغاز سے اب تک 40 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔