برطانیہ میں ڈائنوسار کا رکازی (فاسلزائزڈ) بھیجہ دریافت ہوا ہے جو سائنسی تاریخ میں اپنی نوعیت کی پہلی اور غیرمعمولی کھوج ہے۔
ڈائنوسار زمین پر عظیم الجثہ جاندار گزرے ہیں لیکن ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا دماغ جسمانی لحاظ سے بہت چھوٹا ہوتا تھا۔ لیکن اس دریافت نے ڈائنوسار کے دماغ کے متعلق پرانے تصور کو زائل کر دیا ہے۔
برطانیہ میں ایسیکس کے ساحل بیکس ہل کے پاس سے یہ فاسل ملا ہے۔ رکاز سبزہ خور اگوانوڈون جیسے جانور سے تعلق رکھتا تھا اور لگ بھگ 13 کروڑ 30 سال قبل زمین پر موجود تھا جسے ارضیاتی زبان میں کریٹے شیئس عہد کہا جاتا ہے۔
اس میں جانور کا کاسہ سریعنی اندرنی کھوپڑی کا خلا واضح ہے لیکن خاص بات یہ ہے کہ اس کے اندر ایک ملی میٹر یا اس سے زائد کا کچھ دماغی حصہ بھی محفوظ ہوگیا ہے لیکن کروڑوں برس کے دوران وہ بھی معدن بن چکا ہے۔
اس کا مطلب ہوا کے دماغی بافت پر مشتمل یہ ایک انوکھا فاسل ہے۔ اب ماہرین انتہائی طاقتور اور باریکی سے تفصیل دکھانے والی اسکیننگ ٹنلنگ مائیکروسکوپ سے اس نمونے کا مطالعہ کریں گے۔
ماہرین کے مطابق محفوظ شدہ شے ڈائنوسار کے دماغ کی بیرونی مضبوط پرت ہے جو دماغ کی حفاظت کرتی ہے۔ اس پر خون کی باریک نالیوں کے نشانات بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ شاید قشر دماغ (کارٹیکس) کے بھی کچھ حصے ہیں جس میں اعصابی خلیات (نیورونز) ہوتے ہیں۔
ماہرین نے جس کھوپڑی کا سی ٹی اسکین کیا تو معلوم ہوا کہ بھیجے کے نرم حصوں کو فاسفیٹ اور فولادی معدنیات نے محفوظ کیا ہوا ہے جب کہ کچھ پتے اور گھاس پھوس کے آثار بھی ملے ہیں۔ خیال ہے کہ یہ ڈائنوسار کسی دلدلی مگر سرسبز علاقے میں مرا تھا۔
اس دریافت سے ایک راز یہ بھی کھلا ہے کہ شاید ڈائنوسار کے دماغ ہمارے اندازے سے بڑے ہوا کرتے تھے کیونکہ ڈائنوسار کے دماغوں کا موازنہ ہم آج کے رینگنے والے جانوروں ( ریپٹائل) سے کرتے ہیں۔ خیال ہے کہ اس تحقیق سے ڈائنوسار کے متعلق ہماری معلومات میں بیش بہا اضافہ ہو گا۔