تحریر: انجینئر افتخار چودھری ویسے اس تحریک میں ظلم و ستم کے پہاڑ تو بہت توڑے گئے ہیں۔ سیاست کا ایک طالب علم ہونے کے ناطے مجھے کہنا پڑا ہے کہ ہم سیاست دان اپنے تجربات سے فائدہ نہیں اٹھاتے عمران خان نے ریاستی جبر کے سامنے جو نئی تاریخ رقم کی ہے میں نے ملکی تاریخ میں ایسا نہیں دیکھا۔سڑکوں پر آ کر پولیس گردی کا جو مظاہرہ دیکھا گیا اور اس کے خلاف تحریک انصاف جس انداز سے ڈٹی مورخ جب اس تحریک کی جزویات میں جائے گا تو اسے ڈریکولا ملیں گے انہیں یہ دیکھنے کو ملے گا جو لوگ ڈکٹیٹر کے ظلم کا شکار رہے وہ جب چھوٹے تو خود ڈکٹیٹر کے مظالم کو پیچھے چھوڑ گئے۔آج دنیا مشرف کو بھول گئی ہے اسے ضیاء بھی یاد نہیں ۔میری زندگی کی ایک تحریک ایوب خان کے خلاف تھی۔
ہم چھوٹے تھے اسکول کی گھنٹی بجتی ہم ایوب خان کے خلاف نعرے سنتے گھر چلے جاتے اس لئے کہ ہم علاقائی تعلق کی بناء پر اس کے ساتھ تھے۔ جس میں ملٹری ڈکٹیٹر کے بارے میں نازیبا زبان استعمال ہوئی اس نے نہ تو گولیاں چلائیں بلکہ گول میز کانفرنس کے نتیجے میں طے کئے گئے مطالبات کو بھی مانا۔اس کا یہ خیال بعد میں سچ ثابت ہوا کہ ون یونٹ کو نہیں توڑنا چاہئے تھا۔ایوب کے بعد یحی خان کو ملک کی دو لختگی لے گئی۔بھٹو دور میں البتی فسطائی ہتھکنڈے اپنائے گئے بنگلہ دیش نامنظور موومنٹ میں طلباء پر تشدد ہوا جاوید ہاشمی جیل گئے سیاسی لیڈران پر حملے ہوئے ڈاکٹر نذیر خواجہ رفیق مارے گئے مولوی شمس الدین پر ٹرک چڑھا دیا گیا ڈاکٹر غلام حسین جے اے رحیم پر تشدد کیا گیا جے اے رحیم کو تو بھٹو صاحب نے خود اپنے ہاتھوں سے پیٹا ٹھڈے مارے۔
Ladies Police
انہی کے دور میں پنجاب پولیس میں ایک لیڈیز پولیس بنائی گئی جسے نتھ فورس کہا جاتا تھا اس میں بازار حسن سے اخلاق باختہ عورتوں کو بھرتی کیا گیا اور یوں یہ عورتیں عورتوں پر ظلم ڈھاتی رہیں۔ پاکستان کی فوج کے مد مقابل فیڈرل سیکورٹی فورس کھڑی کی گئی لیکن یہ تو اللہ کا کرم ہوا کہ ان کاٹکرائو فوج سے نہیں ہوا یاد رہے کہ پاکستان کی پولیس بھی بر قرار تھی اور فورس بھی اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ اسی فورس کے ہاتھوں احمد رضا قصوری کے والد شہید ہو گئے ۔بعد میں یہی فورس اور اس کے ذمہ داران سرکاری گواہ بنے جن کی گواہیوں کے نتیجے میں بھٹو صاحب پھانسی کا جھولا جھول گئے۔ظلم اس دور میں بھی بہت ہوا۔کہیں کے لوگ کہیں پھینک دئے گئے جما عت اسلامی کے عبدالرشید ترابی کو تو واجپائی کے دورے کے موقع پر مظفآباد سے ٹرک میں بٹھا کر لاہور لایا گیا اور یاد رہے کہ ان کے پیروں میں بیڑیاں بھی تھیں۔یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہی ترابی صاحب آج کل نونن لیگ کی احسان مندیوں کی وجہ سے مظفر آباد میں ہیں بلکہ یہاں اجتماعی زیادتی جماعت کی طرف سے ہوئی کہ اس نے اپنا سارا وزن جہلم کے انتحاب کی طرح آزاد کشمیر میں بھی نون لیگ کے پلڑے میں ڈالا ظاہر ہے ہر حلقے میں جماعت اسلامی کے چند ہزار ووٹ تو ہیں ۔ایک دوست کا کہنا تھا جماعت نے یہ کام متناسب نمائیندگی کے تحت کیا ہے اس نے سارے ووٹ نون کو دے کر ایک سیٹ لے لی۔اس طرح تو گھاٹے کا سودا ہوا ناں۔ذوالفقار علی بھٹو ایک عبر
ناک انجام سے دوچار ہوئے لوگ بھٹو زندہ ہے کا نعرہ لگا تے ہیں تو یہ نہیں سوچتے کہ اس جھوٹے نعرے نے کتنے اور بھٹو لے لئے۔اس دن جب بلاول رو رہے تھے تو میں بھی افسردہ ہوا اس نوجوان کو نہیں پتہ کہ اس کی ماں کس نے ماری ہے لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ جن دنوں میں ماں کا پیار اس کے ساتھ ہونا چاہئے تھا ان دنوں میں وی اکیلا ہے۔بلاول کا دکھ سارے میٹروں اور یتیموں کا دکھ ہے مجھے تو اس دن سے ڈر لگ رہا ہے جب اسے علم ہو گا کہ اس کی ماں کا قاتل کون ہے؟پاکستان مسلم لیگ نون کی زندگی میں کوئی تحریک نہیں چلی انہوں نے ایک بار تحریک نجات کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کیا لیکن یہ پھس پھسی تحریک پنجاب پولیس نے اسی طرح کچل دی جس طرح پنجاب کے ان سورموں نے پرویز خٹک کو پیچھے ہٹا کر کیا مجھے پرویز خٹک پر فرنٹیئر کانسٹیبلری اور گلو پولیس کی گلو گردی دیکھ کر دلی دکھ ہوا۔گجرانوالہ کے کشمیر محل سینیما جو غلام دستگیر خان کی ملکیت ہے منعقدہ اجلاس کے شرکاء کو چھت سے پھینکا گیا،کارکنوں کو بری طرح پھینٹا لگایا گیا جس طرح قاضی حسین احمد کو پنڈی کی سڑکوں پر گھسیٹا گیا لاہور کے مال روڈ پر پنجاب پولیس نے جماعت اسلامی کو رگڑ کے رکھ دیا۔تاریخ کی سب سے بڑی غنڈہ گردی ماڈل ٹائون میں ہوئی۔منہاج القران کے کارکنوں اور خاص طور پر خواتین کو جن ایک حاملہ عورت بھی تھی اسے بھی بے دردی سے قتل کیا کبھی موقع ملا تو بتائوں گا کہ پنجاب پولیس ہی کیوں ایسا کرتی ہے یہ کے پی کے آزاد کشمیر سندھ بلوچستان میں کیوں نہیں ہوتا؟۔
Arrested
اب میں آئوں گا ایک ایسی گلو گردی کی طرف جو پاکستان تحریک انصاف راولپنڈی کے چودھری اصغر کے ساتھ کی گئی انہیں ایک ہفتہ پہلے ایک احتجاج کے دوران گرفتار کیا گیا۔چودھری اصغر راولپنڈی میں آشیانہ جو ایک پلازہ ہے اور مری روڈ کی پرائم لوکیشن میں واقعہ ہے کے مالک ہیں انہوں نے ایک فلور پی ٹی آئی کے لئے مخصوص کر رکھا ہے گویا وہ چند ایسے لوگوں میں سے تھے جنہوں نے پنڈی میں پی ٹی آئی میں جان ڈال رکھی تھی گو وہ اکیلے نہیں تھے لیکن اس تحریک کے روح رواں ہونے کے شبے میں انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ایئر پورٹ سوسائٹی سے ملک منیر اقبال خان اور دیگر علاقوں سے ان گنت لوگ پکڑے گئے مگر انہیں راولپنڈی میں ہی رکھا گیا۔چودھری اصغر کو آج دسواں دن ہے انہیں رانا ثناء اللہ کے شہر میں لے جایا گیا۔فیصل آباد اور راولپنڈی میں دو اڑھاء سو کلو میٹر کا فاصلہ ہے انہیں اوران کے وکلاء کو ملنے نہیں دیا جا رہا۔اس تحریک میں لوگوں پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں ہمارے ایک ایک کارکن شعیب کا پیٹ چھلنی کر دیا گیا۔
اب بات کرنا چاہوں گا راولپنڈی کے چودھری اصغر کی انہیں پنڈی پولیس نے گرفتار کیا اور شہر سے کوسوں کلو میٹر دور جا پھینکا۔ان سے رابطہ بھی نہیں ہو رہا۔حکومت پنجاب نے در اصل اپنے ذمے وہ گناہ پر کر لئے جو اس نے سوچے بھی نہ تھے پنجاب پولیس تو اپنی جگہ ایک سابق پولسیا رانا مقبول رانا ثناء اللہ کی قیادت میں یہ کا م کررہا ہے۔تحریک انصاف کے پاس ان کے اس اجلاس کی تفصیلات آ گئی ہیں جس میں طے کیا گیا کہ کس طرح پی ٹی آئی کے جلوسوں سے نبٹا جائے گا۔اس میں کئی سرکاری افسران بھی شامل ہیں۔اس اجلاس میں کہا گیا ہے کہ ہم نے پولیس کی تنخواہیں ڈبل کر دی ہیں راناثناء اللہ کا کہنا تھا ان کا مورال بلند کرو۔جب کے دوسری جانب پولیس نے کہا کہ ماڈل ٹائون واقعے کی ذمہ داری ہمارے اوپر ڈال دی گئی ہے جس پر انہیں تسلی دی گئی اب ایسا نہیں ہو گا۔
آج کا جلسہ پاکستان میں نئی حد بندیوں کا تعین کرے گا لگتا ہے اب حکمران کے پی کے میں جانے سے پہلے پشاور کا موڈ دیکھیں گے اس لئے کہ انہوں نے بغیر اجازت آنے والوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ دنیا نے دیکھ لیا ہے۔عمران خان نے حکومت کو سپریم کورٹ کے سامنے کھڑا کر کے وہ قلعہ فتح کر لیا ہے۔سپریم کورٹ اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی،یوسف رضا گیلانی کو بر طرف کر چکی ہے وہ اپنے ہی اخلاقی بوجھ تلے دب چکی ہے پانامہ لیکس اشتہار جرم ہے۔اب دیکھتے ہیں چوہا پہاڑ کے نیچے آیا ہے دم آیا آیا نہ آیا۔ ابھی تلاشی شروع ہوئی ہے