افغانستان (جیوڈیسک) افغانستان میں میڈیا کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانے والوں کا کہنا ہے کہ اس سال کے پہلے 10 مہینوں میں کم از کم 11 صحافي ہلاک ہو گئے اور سینکڑوں کو لڑائیوں کی وجہ سے اپنا گھر چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہونا پڑا۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ سال أفغان صحافیوں کے لیے مہلک ترین سال ثابت ہوا ہے۔ أفغان صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے گروپ نے، جو مقامی میڈیا پر نظر رکھتا ہے، کہا ہے کہ پچھلے 16 برس کے عرصے میں ملک میں 60 سے زیادہ صحافي مارے جا چکے ہیں اور حکام نے ان ہلاکتوں کی کبھی تحقیقات نہیں کی۔
أفغانستان کی معاونت کے اقوام متحدہ کے مشن UNAMA کی عہدے دار پر نیلے ڈہلر کارڈل کا کہنا ہے کہ أفغانستان میں طویل عرصے سے تشدد کرنے اور سزا سے بچ نکلنے کا چکر ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔
انہوں نے بدھ کے روز کابل میں ایک سیمنار میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کے تحفظ سے متعلق مقامی گروپس کی رپورٹ کے مطابق پچھلے سال لڑائیوں سے متاثرہ علاقوں میں سینکڑوں مرد اور خواتین صحافیوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ صرف لڑائیاں ہی صحافیوں کے لیے واحد خطرہ نہیں ہیں، بلکہ دباؤ اور ہراساں کیے جانے کے واقعات بھی ایک مسئلہ ہیں خاص طور پر ان صحافیوں کے لیے جو رشوت ستانی اور بدعنوانی کے بارے خبریں دیتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی عہدے دار نے ایک نیا قانون لانے اور صحافیوں کے خلاف جرائم میں سزا سے بچ نکلنے کے خلاف کام کرنے کے وعدے پر أفغان حکومت کی تعریف کی۔
لیکن انہوں نے صحافیوں کی مقامی تنظیموں کی آواز میں اپنی آواز شامل کرتے ہوئے قانون کی مؤثر عمل داری کے ذریعے سزا سے بریت کے کلچر سے چھٹکارہ پانے کا مطالبہ کیا۔