تحریر : سید توقیر زیدی سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کو پلی بارگین کے قانون کے تحت اختیارات سے روکنے کے حوالے سے کیس میں تحریری حکمنامہ جاری کر دیا، جس میں عدالت نے پلی بارگین کے قانون کے تحت سرکاری ملازمین کی دوبارہ نوکریوں پر بحالی پر تشویش کا اظہار کر تے ہوئے رقوم واپس کرنے والے اہم افسروں کے خلاف فوری کارروائی کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ نیب قانون کے سیکشن 25 اے کے تحت لوٹی گئی رقم کی رضاکارانہ واپسی کا اختیار بدعنوان عناصر کو کلین چٹ دینے کے مترادف ہے۔ پلی بارگین کے حوالے سے فیصلہ جسٹس امیر ہانی نے تحریر کیا۔
پانچ صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین نیب یا ان کے بااختیار افسر رضاکارانہ طور پر رقوم کی واپسی کے حوالے سے نیب آرڈیننس کے سیکشن 25 اے پر عملدرآمد نہیں کریں گے۔ پلی بارگیننگ کرپشن میں کمی کے بجائے اس میں اضافے کا باعث بن رہی تھی۔ بدعنوانی کرنے والے قومی خزانے سے لوٹی گئی دولت کا دس فیصد واپس کرکے یہ سمجھنے لگے تھے کہ وہ پوتّر ہو گئے اور اب مزید کرپشن کر سکتے ہیں۔ جزوی ادائی کے بعد افسران کی نوکریوں پر بحالی ان کے لیے کرپشن کے دروازے مزید وا کر دیتی اور وہ زیادہ کھل کھیلتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج جس سرکاری ادارے یا محکمے کے مالی معاملات کا جائزہ لیا جائے’ اسی میں بدمعاملگی اور بدعنوانی نظر ا?تی ہے۔
NAB
پلی بارگیننگ سے ان لوگوں کو شہ ملتی’ جو محدود پیمانے پر کرپشن کر رہے ہوتے یا اس کی منصوبہ بندی میں مصروف ہوتے۔ ویسے بھی یہ بات قرین انصاف نہیں کہ کوئی بھی بدعنوان لوٹی گئی دولت کا دس فیصد واپس کر دے تو باقی رقم معاف ہو جائے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ چیئرمین نیب کی جانب سے مذکورہ اختیارات کا استعمال کرپشن در کرپشن کا عمل ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ حکم کرپشن کے سدباب میں معاون ثابت ہو گا۔ اب تک پلی بارگین کرکے کرپشن کے مقدمات سے نجات پانے اور کرپشن کے پیسوں سے پْرتعیش زندگی بسر کرنے والے سبھی افسران کے مقدمات دوبارہ کھلیں گے اور اس معاملے کی از سر نو تحقیقات ہو گی کہ کس نے کتنی کرپشن کی اور پھر کتنے پیسے دے کر چھوٹ گیا’ تو سب کو پتا چل جائے گا کہ کون کتنا نیک ہے۔ وہ ساری رقوم واپس قومی خزانے میں جمع ہونے کی راہ ہموار ہو جائے گی’ جو اب تک سرکاری افسران نے لوٹی۔ پْرانے مقدمات کھلیں گے تو ان لوگوں کو کان ہو جائیں گے’ جو اب تک کرپشن کرتے رہے’ اور مزید کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے چار روز قبل کرپشن میں ملوث سرکاری ملازمین کی پلی بارگین کے ذریعے رہائی اور سابق عہدوں پر دوبارہ بحالی کے حوالے سے از خود نوٹس کیس میں حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے چیئرمین نیب کو اپنے اختیارات کے استعمال سے روک دیا اور ہدایت کی تھی کہ اس قانون کے تحت گزشتہ دس سال کے دوران بری ہونے والے ملزموں کی مکمل فہرست اور دیگر تفصیلات عدالت میں پیش کی جائیں۔ پلی بارگین کا سلسلہ وزیر اعظم شوکت عزیز کے دور میں کچھ صنعت کاروں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا’ لیکن اس کا غلط استعمال کیا گیا۔ سہولت کا مقصد یہ تھا کہ اگر کوئی شخص’ جس پر بدعنوانی کا الزام ہے’ یہ تسلم کرے کہ وہ کرپشن کا مرتکب ہوا ہے اور وہ لوٹی گئی دولت کا دس فیصد قومی خزانے میں جمع کرا دے تو اسے رہا کرکے نوکری پر بحال کیا جا سکتا ہے’ لیکن اس کے خلاف مقدمات قائم رہیں گے اور مجرم ثابت ہونے پر نہ صرف لوٹی گئی ساری دولت واپس کرنا ہو گی’ بلکہ عدالت کی طرف سے دی گئی دوسری سزائیں بھی بھگتنا ہوں گی۔
نیب نے لوٹی گئی دولت کا دس فیصد لے کر ان کو مقدمات سے بری کرنا اور نوکریوں پر بحال کرنا شروع کر دیا’ ظاہر ہے جس سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے تھے۔ اب عدالت نے فیصلہ دیا’ تو ضروری ہے کہ دی گئی سہولت سے اب تک ناجائز فائدہ اٹھانے والے تمام افراد کو قانون کی گرفت میں لایا جائے اور جن کو سزا دینا ضروری ہو’ ان کو کڑی سزا بھی دی جائے۔ یہ ملک اس لیے نہیں بنایا گیا تھا کہ اس کے عوام اپنے خون پسینے کی کمائی سے ٹیکس ادا کرتے رہیں’ ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے غیر ملکی قرضے لیے جاتے رہیں’ لیکن پہلے سے مراعات یافتہ طبقہ ان وسائل کو لوٹ کر کھاتا رہے’ شیر مادر سمجھ کر ہضم کرتا رہے۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ ملک کا ہر شہری ایک لاکھ روپے سے زیادہ کا مقروض ہو چکا ہے۔ دوسری جانب قرضے ہیں کہ تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں۔ لوگ اسی لیے ٹیکس دینے پر آمادہ نہیں ہوتے کہ بالادست طبقہ قومی وسائل کی لوٹ مار میں مصروف رہتا ہے۔ ریاست کا کام کسی بھی خرابی کو دور کرنا اور بْرائی کو ختم کرنا ہوتا ہے’ ان کا فروغ نہیں۔ بہرحال اب سپریم کورٹ نے نیب کا ہاتھ روکا ہے تو امکانات روشن ہوئے ہیں کہ دہائیوں سے جاری کرپشن کے خاتمے کی راہ ہموار ہو جائے گا۔