تحریر : حبیب اللہ سلفی یہ ماہ نومبر کی چھ تاریخ تھی جب 67 برس قبل 1947ء میں مقبوضہ جموں میں اڑھائی لاکھ مسلمانوں کا انتہائی بے دردی سے قتل عام کیا گیا۔انسانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو کسی ایک دن میں لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے مگر یہ غاصب بھارتی فوج تھی جس نے طاقت و قوت کے بل بوتے پر کشمیر پر فوج کشی کی اور آر ایس ایس، ہندو مہاسبھا ودیگرہند و انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ مل کر نہتے اور بے گناہ مسلمانوں کا نہ صرف بہیمانہ قتل عام کیا بلکہ لوٹ مار، خواتین کی اجتماعی عصمت دری اور جلائو گھیرائو کی بدترین وارداتیں کی گئیں۔ کشمیریوں کا خون بہانے کیلئے وہ گھنائونے حربے اختیار کئے گئے جنہیں بیان کرتے ہوئے بھی قلیجہ منہ کو آتاہے۔شیخ عبداللہ نے اپنی خودنوشت آتش چنار میں لکھا ہے کہ پانچ نومبر کوجموں شہر میں ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ مسلمان پولیس لائنز میں حاضر ہوجائیں تاکہ انہیں پاکستان بھیجا جاسکے۔ اس اعلان پر عمل درآمد کرتے ہوئے مسلمان اپنے معصوم بچوں اور عورتوں کے ساتھ حاضر ہو گئے۔اس طرح انہیں ٹرکوں پر سوار کرکے لیجایا گیا اور پھر سانبہ کے قریب ایک پہاڑی کے قریب اتار ا گیا جہاں پہلے سے مشین گنیں نصب کی گئی تھیں۔
ہندو درندوںنے جوان کشمیری لڑکیوں کو الگ کیا اور باقی بچنے والے تمام جوانوں، بچوں او ربوڑھوں کو چند لمحوں میں گولیوں سے بھون کر رکھ دیا گیا۔ اسی طرح کا سلوک دوسرے قافلوں کے ساتھ کیا گیا۔ان شرمناک واقعات میں مہاراجہ کی فوج میں شامل پٹیالہ اور سکھ رجمنٹ کے فوجیوں کا کردار انتہائی سفاکانہ اور گھنائونا رہا۔ یہ واقعات اب مسلمانوں کی تاریخ کا ایک سیاہ باب بن چکے ہیں۔ جب یہ قتل عام کیا گیا تو جموں کی آبادی میں سے اسی فیصد مسلمان تھے۔ بھارتی فوج اور ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ اکتوبر 1947ء میں ہی شروع کر دیا تھا۔
دیہاتوں میں مسلمانوں کے قتل اور خونریزی کے زیادہ واقعات پیش آنے پر مسلمان اپنی جانیں اور عزتیں بچانے کیلئے شہروں کا رخ کر رہے تھے مگر بھارت سرکار نے مسلمانوں کے بڑے پیمانے پر قتل عام کی سازش پہلے سے تیار کررکھی تھی اس لئے دن بدن مسلمانوں پر حملوں کا سلسلہ شدت اختیار کرتا گیا۔بعد ازاں مہاراجہ پٹیالہ سرداریدوندر سنگھ نے مزید فوج جموں روانہ کر دی جس کے اہلکاروںنے بھگوا دہشت گردوں کے ساتھ مل کر جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں پر حملوں کا سلسلہ بڑھا دیااور پھر پانچ اور چھ نومبر کو لاکھوں مسلمانوں کو تہہ تیغ کر دیا گیا۔
Dead Bodies
ہندو انتہاپسندوں کی جانب سے مقبوضہ جموں میں بالکل اسی طرح قتل عام کیا گیا جس طرح لدھیانہ، پٹیالہ، فرید کوٹ، جالندھر، کپورتھلہ، امرتسر، پانی پت، کرنال اور دیگر علاقوں میں کیا گیا تھا۔ اگر تاریخی حقائق کا جائزہ لیا جائے تویہی وہ لوگ تھے جنہوں نے ہیرانگر، رام گڑھ، آر ایس پورہ، کٹھوعہ، سانبہ، ادھمپور، بھمبر، نوشہرہ، ارنیہ، سچیت گڑھ، جموں ، بٹوت وغیرہ میں آکر ڈیرے ڈالے جنہیں مہاراجہ نے خوب پروٹوکول دیا، ان کی آئو بھگت کی اور پھر انہی ہندو درندوں نے مقامی بھگوا دہشت گردوں کے ساتھ مل کر کشمیری مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی۔آج میر پور، کوٹلی سے لیکر کراچی تک جو کشمیری آباد نظر آتے ہیں ان میں سے بہت بڑی تعداد ان کشمیریوں کی ہے جن کے آبائو اجداد نے جموں میں مسلمانوں کے قتل عام کے موقع پر ہجرت کی اور پھر یہاں آکر آباد ہو گئے۔
مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ 1947ء سے لیکر آج تک نہتے کشمیری اس تحریک میں اپنا خون پیش کرتے آرہے ہیں مگر ان کے جذبہ حریت میں کوئی کمی نہیں آئی تو دوسری جانب بھارت سرکار آج بھی مقبوضہ کشمیر خاص طور پر جموں کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی بھرپورکوششیں کر رہی ہے۔بھارت سے بڑی تعداد میں ہندوئوں کو لاکر یہاں بسایا جارہا ہے اور انہیں مستقل زمینیں الاٹ کی جارہی ہیں۔ پچھلے کچھ عرصہ سے ہندو انتہا پسندوں کی جموں میں سرگرمیاں خطرناک حد تک بڑھ گئی ہیں اور وقتا فوقتا مسلم کش فسادات پروان چڑھانے کی بھی سازشیں کی جاتی ہیں۔بھارت سرکار کے دبائو پرپی ڈی پی کی کٹھ پتلی حکومت بھی مکمل طور پر خاموش ہے۔
حریت پسندلیڈ کو جموں جانے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ پوری حریت قیادت نظر بند ہے مگر دوسری جانب برہان وانی کی شہادت کے بعد سے ہندو انتہاپسند کھلے عام مسلح جتھوں کی صورت میں جلوس نکال رہے ہیں اوروہاں کھلے عام نہ صرف گھوم پھر رہے ہیں بلکہ یہ باتیں بھی اب منظر عام پر آچکی ہیں کہ وہ مختلف اضلاع میں موجود مندروں میں بڑی مقدار میں اسلحہ جمع کر رہے ہیںجس سے مقامی مسلمان سخت خوف وہراس کی کیفیت میں ہیں۔
Violence on Muslims
ہندو انتہا پسند جب چاہتے ہیں وہاں مسلمانوںکی عبادات میں خلل ڈالتے ہیں، بازاروں میں پردہ کر کے نکلنے والی مسلم عورتوں کو تنگ کرتے ہیں اور فسادات بھڑکانے کی کوششیں کرتے ہیں خاص طور پر جب سے بھارت میں نریندر مودی کی حکومت آئی ہے ہندو انتہا پسند تنظیموں آر ایس ایس، بجرنگ دل، وشواہندو پریشد ودیگرکی سرگرمیاں اور ان کے حوصلے بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں۔بھارت کے مختلف علاقوں سے ہندو انتہا پسند یہاں جمع ہو رہے ہیں اور اپنی پراسرار سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی بار بار اس بات کی جانب توجہ دلا رہے ہیں کہ جس طرح سے ہندو انتہا پسند مندروں میں ہتھیاروں کے ذخیرے جمع کر رہے ہیں یہ جموںکو کشمیر سے الگ کرنے اور مسلمانوں کے قتل عام کی خوفناک سازشوں کا ایک حصہ ہے لیکن کوئی اس جانب توجہ دینے اور ان کی سرگرمیوں کا نوٹس لینے کیلئے تیار نہیں ہے۔میں سمجھتاہوں کہ جموںمیں یہ سازشیں کسی حد تک کامیاب جارہی ہیں کیونکہ بڑی تعداد میں مسلمان خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہوئے وادی کشمیر کے مختلف علاقوں کا رخ کر رہے ہیں اور بھگوا دہشت گرد جماعتیں بھی یہی چاہتی ہیں کہ فسادات کے ذریعہ یا تو مسلمانوں کا قتل عام کیاجائے اور یا پھر وہ خود ہی یہ علاقے چھوڑ کر چلے جائیں تاکہ آبادی کا تناسب مکمل طور پر ان کے حق میں ہو جائے اور پھر آسانی سے جموں کو الگ کیا جاسکے۔
ان حالات میں حریت پسند کشمیری جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر بھارت کی ان سازشوںکو ناکام بنانا چاہیے۔ مودی سرکار اس وقت جہاں کشمیر کی متنازعہ حیثیت ختم کرنے جیسی سازشیں کر رہی ہے وہاں نہتے کشمیریوں کی خونریزی بھی بہت بڑھ چکی ہے۔ آج بھی جب 69واں یوم شہدائے جموں منایا جارہا ہے کشمیریوں کی نسل کشی کا سلسلہ بہت بڑھ چکا ہے۔چادر چار دیواری کا تقدس پامال کیا جارہا ہے۔ لوگوں کو نماز جمعہ تک کی ادائیگی کی اجازت نہیں دی جارہی اورپیلٹ گن جیسے ممنوعہ ہتھیاروں سے لوگوں کی بینائی چھین کر ان کی زندگیاں اندھیر کی جارہی ہیں۔
ایسی صورتحال میں حکومت پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ بھارتی دہشت گردی کا دنیا کے سامنے پردہ چاک کرے، مظلوم کشمیریوں کی کھل کر مددوحمایت کی جائے اور اقوام متحد ہ پر دبائو بڑھایا جائے کہ وہ سلامتی کونسل کی طرف سے پاس کردہ قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھارت کو مجبور کرے۔ یہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی پالیسی ہے جس پر عمل کرنا ازحد ضروری ہے اور یہ بات بھی یاد رہے کہ اپنی شہ رگ کشمیر غاصب بھارت کے قبضہ سے چھڑائے بغیر جنوبی ایشیا میں کسی صورت امن قائم نہیں ہو سکتا۔