تحریر : سید توقیر زیدی سپریم کورٹ کے مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں قائم عدالتِ عظمیٰ کے خصوصی بنچ نے پانامہ لیکس کی انکوائری کیلئے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل اور اس کمیشن کا فیصلہ قبول کرنے کیلئے وزیراعظم نوازشریف اور درخواست دہندگان عمران خان’ سراج الحق’ شیخ رشید احمد اور طارق اسد ایڈووکیٹ کے مابین اتفاق رائے اور ہم آہنگی کی فضا استوار کرکے ملکی قومی سیاست میں گزشتہ دو ہفتے سے جاری ہیجانی کیفیت اور کشیدگی کے بادل ٹال دیئے ہیں۔ تمام فریقین نے فاضل عدالت عظمیٰ پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اسکے احکام اور متعلقہ کیس میں اسکے فیصلے تسلیم کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ عمران خان نے اپنے 2نومبر کے اسلام آباد بند کرنیوالے دھرنے کو یوم تشکر میں تبدیل کردیا ہے اور اسلام آباد ہائیکورٹ کی ہدایات کی روشنی میں کل 2نومبر کو پریڈ گرا?نڈ میں دس لاکھ افراد کے تشکر اجتماع کا اعلان کردیا ہے جبکہ وفاقی اور پنجاب حکومت نے بند کئے گئے تمام راستے کھولنے کے متعلقہ انتظامی افسران کو احکام جاری کر دیئے ہیں۔ اس طرح عمران خان کی دھرنا تحریک اور اسے کچلنے کیلئے حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے سخت گیر اقدامات کے نتیجہ میں پیدا ہونیوالی کشیدگی اور انتشار کی فضا سے ملک میں ایک بار پھر ماورائے آئین اقدام کے تحت جرنیلی آمریت مسلط ہونے کے جو خطرات منڈلا رہے تھے’ وہ بھی ٹل گئے ہیں اور اب آنیوالی سیاست کا دارومدار سپریم کورٹ کے تشکیل کئے جانیوالے جوڈیشل کمیشن کے فیصلے پر ہوگا جسے تسلیم کرنے کی تمام فریقین سپریم کورٹ کو یقین دہانی کراچکے ہیں۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ کے فاضل بنچ کے روبرو پانامہ لیکس کی انکوائری سے متعلق درخواستوں کی سماعت شروع ہوئی تو اس وقت اسلام آباد کی صورتحال انتہائی کشیدہ نظر آرہی تھی۔ مقامی انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے پی ٹی آئی کے مرد و خواتین کارکنوں کو اسلام آباد میں داخل ہونے اور بنی گالہ میں عمران خان کی اقامت گاہ کی جانب جانے سے بزور روکنے کا سلسلہ جاری تھا۔ مزاحمت کرنیوالے کارکنوں پر آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کا سلسلہ بھی جاری تھا اور گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جارہی تھیں۔ اس طرح عدالت عظمیٰ کے باہر حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین میدانِ کارزار کا نقشہ بنا ہوا تھا جس میں مزید کشیدگی پیدا ہونے کی صورت میں خانہ جنگی اور خونریزی کے خدشات بھی لاحق نظر آرہے تھے تاہم کیس کی کارروائی کے دوران فاضل عدالت عظمیٰ نے پانامہ لیکس کی انکوائری کیلئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کا عندیہ دیا اور فریقین کے وکلاء کو باور کرایا کہ وہ باہمی مشاورت سے جوڈیشل کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس مرتب کرلیں بصورت دیگر عدالت خود کمیشن کے ٹی اوآرز وضع کریگی۔ فاضل عدالت نے فریقین کے وکلاء کو دو گھنٹے کی مہلت دی کہ وہ اپنے اپنے مو¿کلان سے مشاورت کرکے عدالت کو آگاہ کریں کہ آیا انہیں عدالت کا قائم کردہ جوڈیشل کمیشن اور اس کا فیصلہ قبول ہوگا۔ دوران سماعت فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم کوئی ہدایت نہیں دے رہے’ نہ ہم کسی سیاسی سوال میں پڑیں گے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ فریقین اپنے اپنے گھوڑوں کو روک لیں گے۔ اس کیس میں دو ہفتے سے سنسنی پھیلائی جارہی ہے’ یہ ہائی پروفائل کیس ہے۔ عوام کی نظریں اس پر ہیں اس لئے فریقین کو ذمہ دارانہ رویہ اپنانا چاہیے۔ فاضل عدالت نے وزیراعظم میاں نوازشریف اور عمران خان کے وکلاء سے پانامہ کمیشن کی تشکیل اور اسکے فیصلوں کی پابندی کیلئے تحریری یقین دہانی مانگی اور قرار دیا کہ کمیشن کا فیصلہ عدالت کا فیصلہ ہی تصور ہوگا جس کی پابندی لازمی ہوگی۔ اس سلسلہ میں فاضل عدالت نے وزیراعظم نوازشریف کے وکیل سے استفسار کیا کہ اگر کمیشن کا فیصلہ ان کیخلاف آیا تو کیا وہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ چھوڑنے کا وعدہ پورا کرینگے۔ اس پر فریقین کے وکلاء اپنے مو¿کلان میاں نوازشریف اور عمران خان سے مشاورت کیلئے وزیراعظم ہا?س اور بنی گالہ چلے گئے اور مقررہ مدت میں مشاورت مکمل کرنے کے بعد فاضل عدالت کو تحریری طور پر آگاہ کردیا کہ انہیں عدالت عظمیٰ پر مکمل اعتماد ہے اس لئے وہ پانامہ لیکس کی انکوائری کیلئے جو بھی فیصلہ صادر کریگی’ انہیں قبول ہوگا۔
Panama Leaks
اس یقین دہانی کے بعد فاضل عدالت نے مزید سماعت 3 نومبر پر ملتوی کردی۔ اگر اس روز فریقین کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کے متفقہ طور پر ٹی او آرز پیش نہ کئے گئے تو عدالت کمیشن کے ٹی او آرز بھی خود وضع کریگی۔ یہی وہ قانونی پراسس ہے جو عدالتی عملداری میں پانامہ لیکس کے منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی شروع ہو جانا چاہیے تھا جس کیلئے وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو مراسلہ بھجوا کر عندیہ بھی دیا گیا تاہم اس کیلئے حکومت کی جانب سے تیار کئے گئے ٹی او آرز کو اپوزیشن نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جبکہ فاضل چیف جسٹس نے بھی انہیں ناقابل عمل قرار دے کر مراسلہ واپس بھجوادیا جس پر حکومت اور اپوزیشن میں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ٹی او آرز وضع کرنے پر اتفاق ہوا مگر پھر حکومت اور اپوزیشن نے اپنے اپنے تجویز کردہ ٹی او آرز تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور عمران خان نے دھرنا تحریک کے ذریعے ماضی جیسی مزاحمتی سیاست کا آغاز کر دیا۔ اس دوران انہوں نے جس لب و لہجے میں اسلام آباد بند کرنے اور حکومت کو چلنے نہ دینے کی دھمکیوں کا سلسلہ شروع کیا’ اس سے انکی سیاست کے حوالے سے دوبارہ اس تاثر کو تقویت حاصل ہوئی کہ وہ درحقیقت جمہوریت کی بساط لپیٹنے سے متعلق کسی اور کے ایجنڈا کی تکمیل چاہتے ہیں۔
اگر حکومت کی جانب سے فہم و تدبر کے ساتھ عمران خان کی مزاحمتی سیاست کے توڑ کی حکمت عملی طے کی جاتی اور ریاستی طاقت استعمال کرنے کا راستہ اختیار نہ کیا جاتا تو دو ہفتے تک قومی سیاست میں جس تنا? اور کشیدگی کا ماحول بنا رہا ہے’ اسکی کبھی نوبت ہی نہ آتی۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیاسی فہم و تدبر سے محروم حکومتی اور اپوزیشن قائدین کو مفاہمت کا راستہ دکھایا’ سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کی سماعت کیلئے یکم نومبر کی تاریخ مقرر کرکے وزیراعظم اور عمران خان سمیت تمام فریقین سے جواب طلب کیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت کو کنٹینروں اور دوسری رکاوٹوں سے اسلام آباد کی سڑکیں بند نہ کرنے’ پی ٹی آئی کے کارکنوں کی گرفتاریاں عمل میں نہ لانے اور عمران خان کے 2نومبر کے احتجاج کیلئے پریڈ گرا?نڈ کی جگہ مختص کرنے کی ہدایت کی مگر دونوں فریقین نے باہمی کھینچا تانی کو آگے بڑھاتے ہوئے عدالتی احکام کی دھجیاں بکھیرنا شروع کردیں۔
عمران خان تو 2 نومبر کو ہرصورت اسلام آباد بند کرنے کے فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے پر بضد رہے جبکہ وفاقی اور پنجاب حکومت نے عمران خان کی دھرنا تحریک کو ریاستی طاقت کے زور پر کچلنے کے وہ تمام اقدامات اٹھانا شروع کردیئے جو جرنیلی اور سول آمریتوں کے ادوار سے منسوب رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو اسلام آباد آنے سے روکنے کیلئے مختلف شہروں میں دفعہ 144 نافذ کی گئی اور پھر اسکی خلاف ورزی کے الزام میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کو گرفتار کرنے اور انکے گھروں پر چھاپے مارنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا اور پنجاب اور خیبر پی کے سے پی ٹی آئی کے جلوس اسلام آباد آنے سے روکنے کیلئے تمام راستے کنٹینر لگا کر بند کردیئے گئے جو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکام کی صریحاً خلاف ورزی تھی۔ اسکے ردعمل میں پی ٹی آئی کی صفوں میں زیادہ اشتعال پیدا ہوا۔
pervez khattak
وزیراعلیٰ خیبر پی کے پرویز خٹک نے پی ٹی آئی ورکرز کے ہمراہ بنی گالہ اسلام آباد آکر وہاں نظر بند اپنے قائد عمران خان کو بزور آزاد کرانے کا اعلان کردیا اور ساتھ ہی یہ بھی باور کرایا کہ اگر انہیں اسلام آباد آنے سے روکا گیا تو وہ وفاق سے بغاوت کردینگے۔ وفاقی حکومت انکے اس اعلان پر آپے سے باہر ہو گئی اور وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے اسلام آباد کسی صورت ”لاک ڈا?ن” نہ ہونے دینے کا اعلان کر دیا جس کے ساتھ ہی پی ٹی آئی کارکنوں کیخلاف آنسو گیس اور بے دریغ لاٹھی چارج کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ صوابی سے اسلام آباد آنیوالے وزیراعلیٰ خیبر پی کے کو برہان انٹرچینج پر روک لیا گیا جس پر پی ٹی آئی ورکرز میں مزید اشتعال پیدا ہوا تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں عملاً تصادم کی کیفیت پیدا ہوگئی’ اس دوران دوطرفہ جھڑپوں کا سلسلہ رات گئے تک جاری رہا جبکہ اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ نے منگل کے روز اسلام آباد میں بھی غدر مچادیا اور بے دریغ گرفتاریوں کے عمل میں مفکر پاکستان علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال کو بھی نہ بخشا جنہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے گرفتار کیا گیا جبکہ اس سے قبل پنجاب پولیس ولید اقبال کی والدہ اور علامہ اقبال کی بہو جسٹس (ر) بیگم ناصرہ جاوید اقبال کے گھر کا بھی محاصرہ کرچکی تھی جو مشاہیر پاکستان کی بے حرمتی کی بدترین مثال ہے۔
اس کا لاہور ہائیکورٹ نے بھی بجا طور پر نوٹس لیا جبکہ حکومت اپنے اقتدار کو بچانے کی فکر میں تمام سیاسی اقدار اور عدالتی احکام کے برعکس اقدامات اٹھانے پر ہی تلی بیٹھی نظر آئی۔ سیاسی بے بصیرتی کے اس ماحول میں بالآخر عدلیہ نے ہی ملک کی سلامتی اور سسٹم کو بچانے کیلئے قائدانہ کردار ادا کیا اور باہمی محاذآرائی سے ماورائے آئین اقدام کی نوبت لانے والے حکومتی اور اپوزیشن قائدین میں مفاہمت کا راستہ نکالا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عدلیہ ہی سسٹم کے تحفظ اور آئین و قانون کی حکمرانی کا ضامن ادارہ ہے جبکہ ہمارے قومی سیاسی قائدین کی مفاداتی سیاست کے باوصف عسکری قیادتوں کی جانب سے بھی سیاست دانوں کی باہمی سر پھٹول میں غیرجانبدار رہنے کا تاثر ہی ابھر کر سامنے آیا ہے۔
گزشتہ روز حکومتی اور اپوزیشن قائدین سیاسی محاذآرائی میں شدت پیدا کرکے عسکری قیادتوں کو ماورائے آئین اقدام کی کھلم کھلا دعوت دیتے نظر آرہے تھے تو آرمی چیف جنرل راحیل شریف اس سارے ماحول سے بے نیاز ہو کر ایف ڈبلیو او کے قیام کی گولڈن جوبلی تقریبات میں شریک تھے اور مختلف قومی منصوبوں کے دوران جانیں قربان کرنیوالے ایف ڈبلیو او کے 1300 افسران اور اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کررہے تھے۔ آخر سیاست دانوں کو اس سسٹم سے کیوں محبت نہیں اور اسکے تحفظ کی کیوں فکرلاحق نہیں جس کا میٹھا پھل وہ اپنے اقتدار کی جولانیوں میں کھاتے ہیں اور اس پر وہ سسٹم کے ساتھ تشکر کا اظہار کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتے۔ اب انہیں سپریم کورٹ کے احکام اور فیصلوں کی تعمیل کیلئے اپنے اپنے عہد پر ضرور کاربند رہنا چاہیے۔