واشنگٹن (جیوڈیسک) جس رات میں عراقی کردستان کے دارالحکومت، اربیل پہنچا، میرے ہوٹل کے ریستوران میں کیوبا کا ایک بینڈ موسیقی میں محو تھا۔ جو پہلا نغمہ میری کانوں پہ پڑا وہ، خاص کیریبئن لب و لہجے میں تھا، جان لنون کی آواز میں، ’امیجن‘ کے نام ہے۔
مار دھاڑ کے بغیر والی دنیا کا خیال انتہائی خوش کُن لگتا ہے؛ اس صورت میں جب ہر سو مایوسی چھائی ہوئی ہو۔
کردستان، میسوپوٹیما کا ایک حصہ رہا ہے، جہاں تہذیب نے جنم لیا، جہاں انسانی تاریخ کے اوراق پلٹے، جہاں کلیدی واقعات کا مشاہدہ کیا گیا، جب ایجاد کا پہیہ تیزی سے متحرک ہوا، جب اناج کی ابتدائی فصل بوئی گئی اور جب رواں خط کی تحریر کروٹ لے رہی تھی۔
جدید طب اور ریاضی کے ماخذ کا منبہ میسوپوٹیما کی تہذیب ہی سے جوڑا جا سکتا ہے۔ قدیم بابل کے ابتدائی باشندے، سمیری ہی تھے جنھوں نے فلسفے کے اہم سوالات اٹھائے، جیسا کہ ’ہم کون ہیں؟‘، ’ہم کہاں ہیں؟‘، ’ہم یہاں کیسے پہنچے؟‘۔
اِن سوالات کے نتیجے میں ہی قدیم یونان کے فلسفے نے ایک شکل اختیار کی، اور وقت کے ساتھ ساتھ، ہماری جدید دنیا وجود میں آئی۔
افسوس کہ صدیوں سے، میسوپوٹیما نے تباہ کُن جنگ و جدل جھیلا، جس میں قبائل، نسلیں، مذاہب، ملک اور تہذیبیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں، جب تنازعات نے جنم لیا، دشمنیاں پھیلں اور انتقام کی آگ کا سلسلہ شروع ہوا۔ اور ایک بار پھر ہم اُسی کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو منظرنامہ انسانی اعتبار سے کوئی نیا نہیں ہے۔ اس کی زندگی بچ سکے گی یا نہیں۔