واشنگٹن (جیوڈیسک) ترکی کے سرکاری خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ جمعے کے روز ملک کے جنوب مشرقی شہر، دیار باقر میں ہونے والے ایک کار بم دھماکے کے نتیجے میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک جب کہ 100 سے زائد زخمی ہوگئے۔
اہل کاروں کا کہنا ہے کہ یہ حملہ پولیس تھانے کے قریب ہوا جس سے قبل رات میں کُرد پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے حامی، جو پارلیمان میں حزب مخالف کا سب سے بڑا گروپ ہے، اور پارٹی کے کم از کم 11 قانون سازوں کی مشترکہ گرفتاری عمل میں لائی گئی تھی۔ اس پارٹی کا خطے کے کردوں میں بہت بڑا اثر و رسوخ ہے۔
ترکی میں بائیں بازو اور ترقی پسندوں کے خلاف رات بھر گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رہا، جو دہشت گردی کی بنیاد پر تفتیش کا ایک حصہ ہے۔
دیار باقر میں گورنر کے دفتر کا کہنا ہے کہ کالعدم ’کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے)‘ نے حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔
گذشتہ 18 ماہ کے دوران ترکی نے کُرد انتہا پسندوں یا داعش کے شدت پسندوں کی جانب سے کیے جانے والے مشتبہ مہلک بم حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔
’این ٹی وی‘ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کی ’کرد پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی‘ کے حامی دو رہنماؤں، صلاح الدین دمرتاس اور پارٹی کے شریک سربراہ، فگان یوسیکداگ پر ’پی کے کے‘ کے پروپیگنڈا میں شریک ہونے کا الزام ہے۔
جولائی کی ناکام بغاوت کے بعد ترکی میں ابھی تک ہنگامی حالات نافذ ہیں۔
بغاوت کی کوشش کے بعد سے اب تک فوج، پولیس، عدالت اور تعلیم کے محکموں سے تعلق رکھنے والے 100000 ملازمین کو برطرف کیا گیا ہے۔ موجودہ حکومت کا تختہ الٹنے کی مبینہ سازش سے تعلق کے الزام پر 30000 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ہنگامی حالات کے تحت ہزاروں ججوں کو زیر حراست رکھا گیا ہے، جن میں صدر طیب اردوان کے دور میں ذمہ داریاں انجام دینے والے آئینی عدالت کے دو ارکان شامل ہیں۔