تحریر : ریاض احمد ملک گذشتہ روز اچانک خان صاحب نے عوام کے جذبات کو ٹھیس پنچانے کا پروگرام بنایا اور اس وقت جب کارکن ان کی باتوں میں آکر سردی اور ڈنڈوں کی مصیبتیں برداش کر چکے تھے انہوں نے دھرنا ختم کر دیا یہ موقع قابل دید تھا جب کارکن دھاڑیں مار کر رو رہے تھے ایک کارکن نے یہ بھی کہہ ڈالا کہ خان صاحب نے دھرنے کے لئے دو کروڑ روپے چندہ اکٹھا کیا تھا ویسے یہ کوئی نئی بات تو ہے بھی نہیں یہ ڈرامہ کتنی بار کھیلا جا چکا ہے میں نے اپنے کتنے کالموں میں زکر کیا اور ایڈوانس ہی قارئین کو بتا دیا کہ اس کا انجام کیا ہونے والا ہے۔
پاکستان میں ایسے لیڈروں پر تا حیات پابندی ہونی چاہیے جو ملک میں انارکی پھیلا رہے ہوں عوام نے مسلم لیگ ن کو مینڈیٹ دیا ہے ان ان کی تذلیل نہیں ملک کے ان لوگوں کی تذلیل ہے جنہوں نے انہیں ووٹ دئیییہ کہاں کی بہادری ہے کہ ہم چڑھائی کر کے ملک میں خون کی ہولی کھیل کر حکومت پر قابض ہونے کا پروگرام بنا تے ہیں ایمپایر بھی فوج کو ظاہر کرتے ہیں اور نہ جانے کتنے جھوٹ بولتے ہیں قارئین کرام پاکستان کے لئے نیازی کا لفظ ویسے ہی نیک شگون ثابت نہیں ہوتا وہ عطا اللہ نیازی ہو یا جنرل نیازی یا پھر عمران نیازی ہم نے جنرل نیازی پر اعتماد کیا اس نے پوری قوم کو خون کے آنسو رلا یا عطا اللہ نیازی جہاں قوم کو رلا رہا ہے وہاں خود بھی مسلسل رو رہا ہے۔
عمران نیازی نے اسلام آطاد میں قوم کا چار مہنے نچا نچا کر وہ حال کیا کہ پوری دنیا میں پاکستان تماشہ بن کر رہ گیا ایمپائر کی انگلی نہ اٹھی تو انہوں نے اپنا دھرنا خیم کر دیا جب حکومت نے کراچی تک موٹر وئے بنانے کا اعلان کیا اور اس پر عمل درآمد شروع کیا گوادر تک ترقیاتی کاموں کے جال بچھانا شروع کئے تو نیازی کے پیٹ میں مروڑ اٹھے اور انہوں نے چند افراد سے مل کر منصوبہ بنایا کہ حکومت اگر یہ کام کر گئی تو ان کا کیا بنے گا۔
PTI Workers
انہوں نے ایک بار پھر دھرنے کا منصوبہ بنا کر غریب کارکنوں کو اسلام آباد بلایا کارکن جب اسلام آباد پہنچے تو موصوف نے اپنے محل سے باہر نکل کر ان کی طبعیت تک نہ پوچھی وہ سردی سے ٹھٹر رہے تھے اوپر سے پولیس کی چھترول سونے پر سوہاگے کا کام کر رہی تھی مگر ان کے لیڈر گرم کمروں میں مزے لے رہے تھے سچ تو یہ ہے کہ اسلام آباد میں ان کے ایم این ائے اور ایم پی ائے موجود تھے جو اپنے ووٹروں کو اکٹھا کر سکتے تھے جو انہوں نے نہیں کیا۔
شاہ محمود قریشی ایک روحانی پیشوا بھی ہیں ملتان میں اچھی شہرت رکھتے ہیں کیا وہ ملتان سے کاتکن نہیں لا سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا اور ان کی نظریں خیبر پختونخواہ پر لگی یھیں کہ وہاں سے سرکاری مشینری اسلام آباد پہنچے گی اور وہ اسلام آباد پر قبضہ کرئے گی حکومت نے ان کی بھی مرمت کر کے انہیں واپس بھیج دیا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہ نیازی کا منصوبہ پختون پنجابی کی جنگ تو نہیں تھا جو غیور قوم نے جان لیا اور ان کی کال پر ایک کارکن بھی اسلام آباد کی جانب نہیں آیا جب انہوں نے جان لیا کہ اب تو رسوائی ہو رہی ہے دھرنا موخر کرتے ہوئے یوم تشکر منا کر اپنی سیاسی ساکھ کو بچانے کی کوشش کی یوم تشکر بھی سمجھ سے بالا تر ہے۔
کہ 22اپریل کو میاں نواز شریف نے سپریم کورٹ میں درخواست دی اور خود کو احتساب کے لئے پیش کیا اس وقت نیازی صاحب نے ان کا یہ فیصلہ قبول نہ کیا جو آج مان لیا پورے پنجاب اور پختون خواہ سے جلوسوں کی بھرمار کرائی گئی دلچسپ بات اس وقت سامنے آئی جب لیڈران یہ فرما رہے تھے کہ دیکھ لو اسلام آباد میں 12لاکھ کارکن موجود ہیں جس پر میڈیا نے کہا کہ دس ہزار کرسیوں پر 12لاکھ افراد ایک کینٹنر پر دو لاکھ صحافی بیٹھانے کا اعزاز بھی نئے پاکستان والوں کو حاصل ہو گیا ہے۔
ان کی مسلسل ناکامی سے اب کارکن جنہیں جنون کا نام دے کر بیوقوف بنایا کا رہا تھا وہ ایک بار پھر ہاتھ کر گئے اور ان کا اطہار تشکر اظہار رسوائی میں بدل گیا امید ہے اب عوام کسی کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے جسے مینڈیٹ ملا اسے کام کرنے دیں گے اور جب اس نے اچھا کام نہ کیا تو ووٹ سے تبدیلی لائیں گے۔
Riaz Malik
تحریر : ریاض احمد ملک 03348732994 malikriaz57@gmail,com