بیل اکیلا جارہا تھا، اتفاق سے میں بھی اُسی راہ گذر تھا، اُسی راہ گذر کہنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ بھی مزدور اور میں بھی مزدور، وہ کھیت کا میں قلم کا۔ وہ اناج اگاتا ہے میں خیالات۔ وہ کھیت میں کام کرتا ہے تو میں کاغذ پر۔ اُس کی پیداوار لوگوں کو جسمانی غذار دیتی ہے تو میری پیداوار لوگوں کو ذہنی یا روحانی غذا۔ یعنی میں اور بیل دونوں ہی انسان کے اچھے دوست ہیں، دونوں مل کر انسان کو خوراک دیتے ہیں، جسمانی اور ذہنی تر و تازگی بخشتے ہیں۔ میں نے یوں ہی گفتگو چھیڑدی،
میں : ہیلو بیل بھائی! بیل بھائی: (غالباً میری آواز نہیں سنی، آگے چلا جارہا تھا، اس کے چلنے کی رفتار یہ بتا رہی تھی کہ وہ اداس بھی ہے ناامید بھی۔ لیکن اس کی سانسوں سے آنے والی آواز یہ بتارہی تھی کہ وہ کچھ غصہ میں ضرور ہے۔) میں : (پھر سے آواز دیتے ہوئے) بیل بھائی کیسے ہو؟ بیل بھائی : (میری طرف مڑ کر) اوہ قلمکار ! ٹھیک ہوں، تم کیسے ہو؟ میں : آپ کی دعا سے ٹھیک ہوں، ویسے تم میری پہلی آواز پہ جواب کیوں نہ دیا؟ بیل بھائی : تم نے کب آواز دی؟ میں : میں نے آواز دی ”ہیلو بیل بھائی” بیل بھائی : اچھا تم نے ہیلو کہا؟ چلو اچھا ہوا تہمارا ہیلو شہروں فلموں فونوں سے ہوتا ہوا کھیتوں تک آگیا۔ میں نے سنا نہیں، اگر سنتا بھی تو تمہاری بات پر ہلتا ہی جاتایہ سمجھ کر کہ تم نے مجھے ہلو کہا۔ میں : (ذرا سٹپٹا گیا، گفتگو کدھر سے کدھر چلی جارہی ہے) نہیں بیل بھائی میںنے سوچا کہ آپ بھی اس جدید دور کے ہیں ہیلو کا مطلب سمجھتے ہوں گے، اس لیے ہیلو کہا۔
بیل : ابھی ہم نے اُس تہذیب کو نہیں سیکھا ہے قلمکار۔ جو بھی جانتے ہیں وہ اپنی مٹی کی خوشبو ہی جانتے ہیں۔ اگر تم مجھ سے ”خیرت بھائی” کہہ دیتے تو میں بڑی مسرت سے جواب دے دیتا۔ خیر۔ (بات کو روکتے ہوئے) کہاں تک کی روانگی؟ وہ بھی اس راستے پر ؟ میں : بس یوں ہی چلا، کھیتوں کی خوشبو سونگھنے کو من چاہا، پونے، ممبئی، دہلی اور دیگر شہروں میں اتنی خوشگوار فضا کہاں، یہ بھینی بھینی خوشبو کہاں؟ بیل بھائی : ہاں جانتا ہوں، دہلی تو ہوا کی آلودگی سے بالکل پریشان ہے! بیچارے کیجریوال تو اس آلودگی سے ہمیشہ کھانستے ہی رہتے ہیں، زمانہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ سردی سے کھانستے ہیں، پردھان منتری بھی من کی بات کرتے کرتے چھینک گئے اور بات من سے آدھے من کی ہوگئی، وہ بھی ہوائی آلودگی کا شکار ہیں۔ میاں نجیب جنگ نصیب والے ہیں، دہلی میں رہتے ہیں مگر گلیوں میں نہیں نکلتے۔ میں : بیل بھائی ماشاء اللہ کافی معلومات رکھتے ہیں! بیل بھائی : کیوں نہیں رکھتا ؟ سرپنچ آفس کے پاس ریڈیو سنتا ہوں اور ٹی وی دیکھتا ہوں۔
Facebook
ہمارے مالک کا بیٹا کبھی کبھار اس کے سمارٹ فون سے فیس بک بھی دکھا دیتا ہے۔ میں بھی سوچ رہا ہوں کہ ایک گروپ شروع کروں اور اپنی باتیں پوسٹ کروں۔ ٹویٹر اکائنٹ کھولوں اور ٹویٹ کروں۔ میں : (بات کاٹتے ہوئے) خیر بھائی، بتائو مزاج کیسے ہیں؟ بیل بھائی : ہمارے مزاج تو مجازی ہیں لیکن لوگ انہیں حقیقی سمجھ جاتے ہیں۔ میں : میں سمجھا نہیں بیل بھائی؟ بیل بھائی : ذرا بتائو انسان اشرف المخلوقات ہے کہ نہیں؟ میں : جی بالکل ہے! بیل بھائی : ایسا اشرف المخلوق ہی ہم جیسی ادنیٰ مخلوق کی پرستش کرنے لگے! تو بتائو تم اشرف المخلوقات کیسے ہوگئے؟ میں : (میرے سر پر بڑی بجلی سی گری) میں نے کہا ایسا نہیں ہے بھائی، انسان اشرف المخلوقات ہی ہے، اسی لیے ‘اوپر والے’ نے اسے وہ شرف دیا کہ دیگر مخلوقات کو طابع کیا۔ بیل بھائی : ‘اوپر والے’ کا مطلب؟ (گردن آسمان کی طرف کرتے ہوئے) کیا پروردگار اوپر ہے؟ (اپنے دونوں کان ایسے ہلائے جیسے کہ طنز کسا جا رہا ہے) میں : نہیں بھائی، اوپر والے کا مطلب ”انسان کے سمجھ سے بالیٰ تر” بیل بھائی : یعنی آج تک آپ لوگوں نے اوپر والے کو دیکھنا دور کی بات محسوس تک نہیں کیا؟
میں : جی، دیکھا تو نہیں ہے لیکن ہم میں بھی کئی عاشقوں نے محسوس کیا ہے۔ بیل بھائی : چلو ٹھیک ہے۔ مگر تم لوگ اپنی جہالت کو نہیں چھوڑتے۔ میں : ہم نے کیا جہالت کی؟ (تعجب بھرے لہجے میں) بیل بھائی : تم نے کیا کی؟ جہالت ہی نہیں چھوڑ تے ساتھ ساتھ تم لوگ قدر شناس بھی نہیں ہو۔ میں : آخر بات کیا ہے بیل بھائی؟ میں تو حیران ہوں! آخر ہم نے کیا کیا؟ بیل بھائی : (کچھ غم و غصے کے لہجے میں) تم نے کیا کیا؟ کیوں نادان بنتے ہو؟ پرسوں ہی تم نے اپنی گائے بھابھی پر ایک تحریر ”گائے کی فریاد” ہی لکھ ڈالی، بھول گئے؟ میں : نہیں بھائی، یاد ہے، ہاں میں نے ضرور لکھی تھی، مگر آپ کو اس تحریر سے کچھ لطف ضرور آیا ہوگانا؟ بھابھی کے بارے میں لکھا، وہ تحریر کافی مقبول بھی ہوئی۔ بیل بھائی : یہی تو مسئلہ ہے، تم نے گائے کی فریاد لکھ دی مگر ہماری نہ پوچھی۔
میں : (میں سمجھ گیا کہ بیل بھائی کے غصے کی اصل وجہ کیا ہے) نہ نہ بیل بھائی، آپ کی بھی داستان لکھوں گا مطمین رہئے۔ بیل بھائی : مجھے میری داستان کو تمہارے ادبی گوشوں میں جوش در جوش دیکھنے کی تمنا نہیں ہے۔ میں : تو پھر؟ بیل بھائی : میری شکایت یہ ہے کہ تم قدر شناس نہیں ہو۔ میں : وہ کیسے ؟ ہم تو آپ کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ بیل بھائی : کہاں دیکھتے ہو، یہی تو مسئلہ ہے۔ جیسے تمہارا جی چاہے ویسے خدا بنا لیتے ہو، یا پھر پرستش کا سامان۔ میں : (میں ذرا متذبذب لہجے میں ) ذرا۔۔۔۔ وضاحت کریں ۔۔۔۔ بیل بھائی۔ بیل بھائی : تم لوگ تاریخ بھی ویسے ہی بنالیتے ہو! جیسے تمہارا من چاہے تاریخ کے آٹے میں نمک ملاتے ہو۔ میں : (میں خاموش رہا، یہ سوچ کر کہ بیل بھائی ہی کو موقع دیا جائے بات کرنے کا) بیل بھائی : ذرا بتائو ”پشو پتی” کس کو کہتے ہیں؟ میں : جی، پشو پتی تو پشو پتی ہی کو کہتے ہیں! یعنی پشو ئوں کو پالنے والا یا دیکھ بھال کرنے والا۔
Bullock Angry
بیل بھائی: ٹھیک سے بولو، پشو پتی کس کو کہتے ہیں؟ (ذرا غصے بھرے لہجے میں۔ بیل بھائی کی ناک سے بھنسکارے بھی آرہے تھے، اور ریٹ بھی تھوڑا اوپر نیچے ہورہا تھا، گویا اس بات کی طرف تمام باتیں جارہی تھیںکہ بیل بھائی نہایت ہی غصے کی حالت میں ہیں، یا پھر پہنچنے والے ہیں) میں : جی، پشو پتی بھگوان شنکر کو بھی کہتے ہیں۔ بیل بھائی : پھر اس میں ڈُل مُل؟ (غصہ برقرار ہے) میں : جی نہیں، یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ پشوپتی شنکر جی ہی کو کہتے ہیں۔ موہن جودڑو کی تہذیب سے ملی آثار قدیمہ کی کئی چیزیں اور تصاویر بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہیں۔ بیل بھائی : اچھا چلو، ایک بات تو مضبوطی سے کرلی تم نے۔ میں : (میں ذرا خوش ہوا کہ بیل بھائی کے اس کون بنے گا کروڑ (پشو) پتی کے مقابلے میں ایک مرحلہ پار کر لیا) بیل بھائی : اب یہ بھی بتائو کہ شنکر جی کا واہن (سواری) کیا ہے؟
میں : (یہ بیل بھائی تو اس مقابلہ کو اور آگے لے جارہے ہیں! ذرا سنبھل کر) جی شنکر جی کے واہن کے بارے میں خوب معلوم ہے، کیونکہ میں نے کئی شیو مندروں میں گیا ہوں، وہاں کی چند باتیں جانتا ہوں۔ بیل بھائی : (کچھ سر ہلاتے ہوئے) جانتے ہو تو بتائو نا؟ میں : جی شنکر جی کا واہن نندی ہے۔ بیل بھائی : آخر نندی کون ہے اور کیا ہے؟ (سوال میں ذرا دبائو ضرور نظر آیا) میں : جی نندی تو بیل ہے۔ بیل بھائی : ہاں وہ بیل کون ہے؟ میں : جی آپ ہیں۔ بیل بھائی : میں ہوں نا؟ میں : جی تم ہی ہو۔
بیل بھائی : تو ذرا بتائو انسانو؟ شنکر جی کا واہن میں شنکر جی کے مندر کا نگہبان میں کھیتوں میں کام کرنے والا میں ہل جوتنے والا میں گاڑی کھینچنے والا میں گھانا کھینچنے والا میں یہاں تک کہ گائے کے بچھڑے بچھڑیاں ہونے کی وجہ میں گائے دودھ دینے کی وجہ میں میں نہیں تو کھیت نہیں میں نہیں تو گاڑی نہیں میں نہیں تو گھانا نہیں میں نہیں تو شنکر جی کا سفر نہیں میں نہیں تو شیوجی کا مندر ادھورا میں نہیں تو بچھڑے نہیں میں نہیں تو دودھ دینے کی وجہ نہیں میں نہیں تو گائے بیلوں کی نسلیں نہیں میں گائے بیلوں کا جد امجد یہاں تک کہ میں نہیں تو کسان ادھورا اور یہاں تک بھی کہ زراعت پر مبنی دیش اور دنیا بھی ادھوری (بیل نے یہ ساری باتیں ایک ہی سانس میں کہہ ڈالے۔ ایسا لگا کہ کوئی بڑا سیاست دان یا پھر انقلاب پسند نیتا مخاطب ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ پھر تھوڑی دیر رُکے ۔۔۔۔ )
میں : (یہ وقفہ غنیمت جان کر، گفتگو آگے بڑھائی تاکہ گفتگو کا ٹیمپو نہ ٹوٹے) جی بات تو آپ کی درست ہے۔ بیل بھائی : (غصے میں، لگ بھگ چلّاتے ہوئے) کیا خاک درست ہے؟ میں : (بیل بھائی کافی غصے میں ہیں۔ غالباً کچھ ایسی ہی بات نکالیں گے جو کہ سننے کے لائق ہویعنی پنچ ڈائلوگ۔ اس لیے خاموشی اختیار کرلی، اور بیل بھائی کی گفت کا انتظار کرنے لگا۔) بیل بھائی : (خاموشی کو چیرتے ہوئے) اتنی بد نیتی؟ اتنی بد حواسی؟ اتنی قدر ناشناسی؟اتنی بد سلوکی؟ میں : (بیل بھائی کی اردو سے اور مستعمل اصطلاحات سے کافی متاثر ہوا۔
Writer
ایسا لگا کہ کسی یونی ورسٹی کے سیمینار سے بیل بھائی کی گفتگو ہی بہتر ہے۔۔۔۔ میں بیل بھائی کی باتوں سے کافی محظوظ ہونے لگا۔۔ اور چپ ہی رہا۔ میرے چپ رہنے سے بیل بھائی کی ڈائلوگ ڈیلی وری کافی خوبصورت لگ رہی تھی، اسی لیے میں نے چُپی سادھ لی) بیل بھائی : (بیل بھائی کا غصہ تھوڑا کم ہوتا نظر آیا، مگر پورا کم نہیں ہوا، نیم غصے ہی میں بولے) تم خاموش کیوں ہو؟ بولتے کیوں نہیں؟ میں : بیل بھائی میں کیا بولوں؟ آپ ہی کو سن رہا ہوں! بیل بھائی : قلمکار ہو، محرر بھی، اور بتاتے ہو کہ قلمی مزدور ہو، اور مجھے بھائی بھی کہتے ہو! اور مجھ پر اتنا ظلم ہورہا ہے اور پھر بھی چپ ہو؟ قلم کیوں نہیں اٹھاتے؟ میں : (میں کشمکش میں پڑ گیاکہ بیل بھائی آخر کیا چاہتے ہیں؟) بیل بھائی آخر مجھے کیا کرنا چاہئے؟ بیل بھائی : کیا کرنا چاہئے؟ آواز اٹھائو! تمہارے قلم کو چیخ چیخ کر کہنے دو! کہ مجھ سے کتنی بد سلوکی ہورہی ہے! میں : ذرا سراغ تو دیجئے،اس قلمی مزدور کا سر کام نہیں کر رہا۔
بیل بھائی : آخر کار تم قلمکار بیلوں سے سراغ مانگنے لگے؟ واہ! تو سنو! تم لوگ یعنی دنیا والے! خاص طور پر بر صغیر اور جزائر شرق الہند کے نیواسیو! احسان فراموشو! ” میری بیوی کو ماتا مانتے ہو ” اورمیں؟ اس کا جیتا جاگتا مرد ہوں! مجھے کوئی پوچھتا نہیں! میری کوئی پرواہ نہیں؟ میری کوئی پہچان نہیں؟ میری کوئی عزت نہیں؟ میری کوئی آبرو نہیں؟ میری کوئی حیثیت نہیں؟ میرا کوئی مقام نہیں؟ میری کوئی قدر و منزلت نہیں؟ آخر تم لوگوں نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے؟
Ranch
میں : (میں ۔۔۔ گم سم۔۔۔۔ چپ چاپ۔۔۔۔ بیل بھائی کی باتیں سنتا رہا) بیل بھائی : (کچھ ڈرانے کے موڑ میں) میں اگر ہڑتال پر اتر آئوں توجانتے ہو کہ تہمارا اور تمہاری زمینوں کا حشر کیا ہوگا؟ میں : (خاموش ۔۔۔ معصوم بچے کے موڑ میں) ۔۔۔ جی نہیں۔ بیل بھائی : تم یعنی قلم کے مزدور ہڑتال کریں گے تو دنیا کا کچھ نہیں جائے گا۔۔۔ لیکن میں یعنی بیل، اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہڑتال کرنا شروع کردوں تو! تمہارے کھیت سوکھ جائیں گے! تمہاری کاشت ادھوری رہ جائے گی! تمہارے زراعتی سامان کا حمل و نقل ٹھپ پڑ جائے گا! تہماری گائے ماتا پچھڑوں کو جننا بند کردے گی! بچھڑے نہیں تو دودھ نہیں! دودھ نہیں تو ڈائری نہیں! ڈائری نہیں تو دودھ سپلائی بند! دودھ نہیں تو چائے نہیں! چائے نہیں تو چائے والا بھی نہیں! اور من کی بات بھی نہیں! چائے نہیں تو صبح کا اخبار ادھور!ا اخبار نہیں تو قلم کار نہیں ! قلمکار نہیں تو تم بھی نہیں!!!!!!!!!! میں : (میں تو حیران ہی رہ گیا۔۔۔ آخر کار بیل بھائی مجھ پر ہی وال کر ڈالے؟)
بیل بھائی، یہ سب ٹھیک ہے، لیکن مجھے کیوں شکار کر رہے ہو؟ بیل بھائی : اس لیے کہ جب تم پر زور پڑے گا تب ہی تم قلم اٹھائو گے، اور مجھ پر ہورہی ناانصافیوں کو عوام تک لے جائو گے۔ اور جانور رائٹس کمیشن تک لے جائو گے۔ میں : ویسے میں آپ کی آہ زاری کو لوگوں تک لے کر جانے ہی والا تھا مگر دل کی روداد بتانے والا کوئی بیل بھائی نہیں ملا تم ملے ساری باتوں سے آگاہی ہوئی، اب ضرور لکھوں گا۔ بیل بھائی : میں نے صرف ایک ہی رخ پیش کیا ہے۔ دوسرے کئی رخ ہیں جن پر پھر کبھی بحث ہوگی۔ میں : جی۔۔۔ مگر ایک اور بات ہے بیل بھائی : پوچھو میں : میں آپ پر لکھوں گا، مگر کیا آپ کو یوں نہیں لگتا کہ میری تحریر یعنی آپ کی تقریر، گائے بھابھی کے خلاف تو نہیں ہے؟ اور ان کو ماتا ماننے والے تم پر اور مجھ پر برہم نہیں ہوجائیں گے؟ میرے خلاف کوئی کارروائی نہ کر ڈالے؟ بیل بھائی : مجھے کسی کی برتری سے حسد نہیں ہے، میں صرف اس بات کا احساس دلانا چاہتا ہوں کہ تم لوگوں کو کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں۔ اگر کسی حادثے سے ڈرتے ہو تو پھر قلم کار کیوں بنے؟ کوئی پان پٹری کھول لیتے؟ میں : میں کہاں سے ڈرنے والا؟ اگر ڈرتا تو کوئی پان پٹری نہ کھول لیتا؟
بیل بھائی : (میرا، ان کی بات انہی کو لوٹانا اچھا لگا شاید۔۔۔ہنس پڑے۔ ویسے جانور ہنسے نہیں(ہینا کو چھوڑ کر) مگر ان کی نگاہیں، کان ہلانا، دُم ہلانااور اپنی سینگوں کو ایک الگ زاوئے میں رکھنا مجھے ایسا لگا کہ وہ ہنس رہے ہیں۔ اور بولے) او قلم کے مزدور! تہماری مزدوری کی وہ رقم جو تمہیں صداقت کو عوام کے سامنے لانے میںاطمینان کے روپ میں ملتی ہے، وہ تمہیں ضرور مل جائے گی، جائو لکھو، ادبی دنیا تمہیں یاد رکھے گی۔ اور آخر میں میری یہ بات ذرا غور سے سنو! تمہارا بھائی یعنی میں! اور تمہاری بھائی یعنی گائے! ہم دونوں مقدس نہیں ہیں کہ ہماری پرستش ہو۔ ہم تو صرف اتنا چاہتے ہیں کہ ہماری خدمت لی جائے، ہماری ناکوں میں پرستش کی
نتھنی نہ ڈالی جائے! اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ہمارا مقام بھی ملے اور آزادی بھی! جیسا کہ تمہاری گائے بھابھی نے کہا تھا کہ ”نہ ہم پرستش کا سامان ہیں نہ ہی تغذیہ کا ” میں : (آخر میں) بیل بھائی، آپ سے مل کر بڑی مسرت ہوئی، آپ کی یادگار میں میں آپ کے ساتھ ایک ‘سیلفی’ لینا چاہتا ہوں (جیب سے سمارٹ فون نکالا) بیل بھائی : (طنز بھرے لہجے میں) کیا تمہیں پردھان منتری بننے کی خواہش ہے؟؟؟؟؟ میں : (مجھے بیل بھائی کے ترکش کی یہ آخری تیر بڑے زور سے لگی، چپ چاپ آداب بجا لاتے ہوئے، اپنی فراست پر مسکراتے ہوئے لوٹا۔۔۔۔۔ خوبصورت بات یہ رہی کہ بیل بھائی کی آنکھوں میں بھی مسکراہٹ کی کرن چمک رہی تھی۔ )
Ahmed Nisar
تحریر : احمد نثار مہاراشٹر، انڈیا E-maill : ahmadnisarsayeedi@yahoo.co.in