بھارت میں مسلمانوں سے امتیازی سلوک، ماضی کا تسلسل

Violence on Muslims

Violence on Muslims

تحریر : عنایت کابلگرامی
مسلمان یہ محسوس کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔بھارت میں آج مسلمان کو روزگار اور کرایے پر مکان حاصل کرنے میں بھی دشواری ہو رہی ہے۔ جب بھی کوئی بم دھماکہ ہوتا ہے تو پولیس اصل مجرموں کو پکڑنے کے بجائے (کیونکہ انھیں سائنسی بنیادوں پر تفتیش کی تربیت نہیں ہے) نصف درجن مسلمانوں کو پکڑ کر مسئلے کو حل کرتی ہے۔ان میں سے زیادہ تر عدالتوں میں بے گناہ ثابت ہو جاتے ہیں لیکن جیل میں کئی سال گزارنے کے بعد۔ مظفر نگر، بلبھ گڑھ اور حال میں دادری میں ہونے والے واقعات اور آدیتیہ ناتھ، سادھوی نرنجن جیوتی، سادھوی پراچی وغیرہ جیسوں کی اشتعال انگیز تقاریر سے بھارت میں مسلمان الگ تھلگ ہوتے جا رہے ہیں اور وہ یہ محسوس کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے سنہ 1857 ہندوستان کی تاریخ میں فرقہ وارانہ رشتے کے لحاظ سے حد فاصل ہے۔

اس سے قبل یہاں کوئی فرقہ وارانہ مسئلہ نہیں تھا، کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوتے تھے، ہندو اور مسلمان ایک ساتھ صلح آشتی کے ساتھ رہتے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔سنہ 1857 کے بعد برطانوی حکمرانوں نے دانستہ طور پر ہندو اور مسلمان کے درمیان نفرت پھیلانے کی پالیسی اپنائی۔سنہ 1857 میں بغاوت پھوٹ پڑی اور ہندو اور مسلمان دونوں نے برطانیہ کے خلاف جنگ کی۔ بغاوت کو کچلنے کے بعد انگریزوں نے فیصلہ کیا کہ بھارت کو کنٹرول کرنے کا واحد طریقہ ‘تقسیم کرو اور راج کرو’ ہے۔ہندوستان کے لیے وزیر خارجہ سر چارلس ووڈ نے وائس رائے لارڈ الجن کو سنہ 1862 میں ایک خط لکھا کہ ‘ہم نے بھارت میں اپنا اقتدار ایک برادری کو دوسری برادری کے خلاف کھڑا کر کے قائم رکھا ہے اور ہمیں اسے جاری رکھنا چاہیے۔ اس لیے ان کو ایک متحد احساس سے باز رکھنے کے لیے آپ جو کچھ کر سکتے ہیں کریں۔’

جنوری 14 سنہ 1887 کیایک خط میں وزیر خارجہ وسکاؤنٹ کراس نے گورنر جنرل ڈفرن کو لکھا: ‘مذہبی احساس کی تقسیم ہمارے مفاد میں ہے اور ہم ہندوستانی تعلیم اور تعلیمی مواد پر آپ کی تفتیشی کمیٹی سے اچھے نتائج کی امید کرتے ہیں۔’اسی طرح وزیر خارجہ جارج ہیملٹن نے گورنر جنرل لارڈ کرزن کو لکھا: ‘اگر ہم ہندوستان کے تعلیم یافتہ طبقے کو دو حصوں ہندو اور مسلمان میں تقسیم کر سکتے ہیں تو اس سے ہماری پوزیشن مضبوط ہوگی۔۔۔ ہمیں درسی کتب کو اس طرح تیار کرنا چاہیے کہ دونوں مذاہب کے اختلافات میں مزید اضافہ ہو۔’اس طرح سنہ 1857 کے بعد برطانوی حکمرانوں نے دانستہ طور پر ہندوؤں اور مسلمان کے درمیان نفرت پھیلانے کی پالیسی اپنائی اور اس پر کئی طرح سے عمل کیا گیا۔جب بھی کبھی کوئی بم دھماکہ ہوتا ہے تو پولیس اصل مجرموں کو پکڑنے کے بجائے نصف درجن مسلمانوں کو پکڑ کر مسئلے کو حل کرتی ہے۔

Religion

Religion

1۔ مذہبی رہنماؤں کو دوسرے مذہب کے خلاف بولنے کے لیے رشوت دی گئی۔ انگریز کلکٹر خفیہ طور پر پنڈتوں کو بلا کر مسلمانوں کے خلاف بولنے کے لیے پیسے دیتے اور اسی طرح مولویوں کو ہندوؤں کے خلاف تقاریر کرنے کے لیے پیسے دیے جاتے۔
2۔ مسجد کے سامنے نماز کے وقت اشتعال پھیلانے والے ایجنٹوں کے ذریعے زور و شور سے موسیقی بجوائی جاتی یا پھر مندروں کے سامنے گائے کے گوشت پھنکوائے جاتے اور دیواروں پر اللہ اکبر کے نعرے لکھوائے جاتے۔
3۔ تاریخ کی کتابوں میں فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کے لیے رد و بدل کیا گیا۔ دانستہ طور پر فرقہ وارانہ فسادات کرائے گئے۔ سنہ 1909 کے منٹو مورلی اصلاحات نے ہندو اور مسلمانوں کے لیے علیحدہ رائے دہندگی قائم کی۔
4۔ ہندی کو ہندؤں اور اردو کو مسلمانوں کی زبان کا پروپیگنڈا کرایا گیا حالانکہ سنہ 1947 تک اردو ہندوستان کے بڑے خطے میں ہر تعلیم یافتہ ہندو، مسلمان اورسکھ کی زبان ہوا کرتی تھی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور بنارس ہندو یونیورسٹی قائم کی گئی۔یہی فرقہ واریت سنہ 1947 کے بعد بھی جاری رہی اور حالیہ دنوں میں اس نے خطرناک صورت حال اختیار کر لی ہے۔

اس وقت ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے سرجیکل اسٹرائیک ڈرمے کے بعد کئی مواقع پر زور وشور سے یہ بات کہی ہے کہ ہم نے وہ کردکھایا جو کسی نے حکومت میں رہ کر نہیں کیا۔پتہ نہیں اس سے وہ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں لیکن اگر غور کیا جائے تو ان کی باتوں میں بہت حد تک صداقت نظر آتی ہے۔ان کے جیسا تو کوئی وزیر اعظم یا وزیر اعلی ہندوستان میں نہیں بنا جوسیلفی اور بیرون ملک سب سے زیادہ گھومنے کے لئے مشہور ہوا ہو، جو کام کم اور پروپیگنڈے میں زیادہ یقین رکھتا ہو۔وہ بھی ہندوستان کے ایک صوبے کے پہلے وزیر اعلی تھے جن کے دامن گجرات فسادات کی وجہ سے اتنے داغدار ہوگئے کہ بیرون ممالک نے ان کی آمدپر پابندی لگادی اور جن کیوزیر اعظم کی حیثیت سے برطانیہ جانے پر ان کے خلاف احتجاج ہوا ہو،ان کے دور حکومت میں ہی ہندوستان میں سب سے طویل ڈھائی ماہ تک گجرات کا فسادہوا تھا جس میں ڈھائی ہزار سے زیادہ مسلمان شہید ہوئے اورکئی آج بھی لاپتہ ہیں اور طویل کرفیو کا ریکارڈ بھی ان ہی کی حکومت کے سر ہے۔

زیادہ دن نہیں ہوئے ابھی کشمیر میں مسلسل تین ماہ سے زیادہ کرفیو لگاہوا ہیاور پہلی بار وہاں بقرعید کرفیو کے سائے میں منائی گئی۔ قابض ہندوستانی فوج نیسینکڑوں کشمیری مسلمانوں کو شہید ہزاروں کو زخمی اور کچھ تو ہمیشہ کیلئے اپاہج ہوگئے یہی اصول بھی تو بنایا گیا کہ اکثریتی فرقے کیلوگ ہریانہ کے جاٹ ریزرویشن کی طرح پر تشدد تحریک چلائیں گے تو ان کو اس کی چھوٹ دی جائے گی لیکن اگر یہی کام کشمیری کریں گے توان پرپیلیٹ گن کا استعمال ہوگا۔پٹھان کوٹ اور اڑی میں فوجی بیس پر حملے بھی تو ان ہی کی حکومت میں ہوئے۔یہ اعزاز بھی ان ہی کو حاصل ہیکہ ان کو کبھی موت کا سوداگر کہا گیا تو کبھی فوجیوں کے خون کا دلال،یہ پہلے وزیر اعظم ہیں جنہوں نے سرجیکل اسٹرائیک کہ ڈرامیپر ہندوستان کا موازنہ دنیا کے ایک اور سب سیبڑے دہشت گرد اسرائیل سے کیا اور فلسطینیوں کے خلاف اس کی جارحیت کو جائز ٹھہرایا۔

Modi

Modi

وہی ملک کے سب سے انوکھے وزیراعظم ہیں جن کے بولنے یا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو خاموش رہتے ہیں، کوئی لاکھ کوشش کرے ان کی خاموشی ٹوٹتی نہیں اور جب بولنے اورجملے پھینکنے پر آتے ہیں تو کوئی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔یہ بھی ان ہی کی حکومت کا کمال ہے کہ کسی ریاست کے وزیر اعلی (اروند کیجری وال)کو کبھی دھرنا دینا پڑا تو کبھی ان کو پولیس نے گرفتار کیا۔کسان تو پہلے سے خودکشی کررہے تھییہ بھی ان ہی کی حکومت میں ہورہا ہے کہ ملک کی حفاظت کرنے والے فوجی حکومت کی بے اعتنائی اورجھوٹے وعدوں کی وجہ سے خودکشی کررہے ہیں یہ بات بھی رکارڈ پر موجود ہے کہ دنیا کے کئی ممالک کہ افواج میں خودکشی کا ریجان پایا جاتا ہے ان سب سے پہلے نمبر پر ہندوستان ہے جہاں سالانہ سینکڑوں یا تو زہر کھالے تے ہے یا خود کو گولی مار دیتے ہے(یہاں یی بات یاد رکھی جائے کہ خودکشی ہمیشہ بزدل آدمی کرتاہے)اوران کے خاندان کے لوگوں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔

عدم تحمل کا مسئلہ بھی ان ہی کی حکومت میں پیدا ہوا،یہ بھی شاید ہندوستان کے پہلے وزیراعظم ہیں جو جب تک نام نہاد گئو رکشا والے غنڈے مسلمانوں پر حملے کررہے تھے تو خاموش تھے اور دلتوں پر حملے شروع ہوئے تو انہوں نے بولنا شروع کیا اور بیان دیتے وقت بھی مذہبی تفریق کرتے ہوئے دلتوں کو اپنا بھائی کہدیا اور ان کے لئے گولی کھانے کی بات تک کہدی اور مسلمانوں کے لئے کچھ نہیں کہا۔ یہ بھی ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم ہیں جن کی بیوی ملک کی سب سے دکھیاری عورت بنی ہوئی ہے جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔شوہر کے رہتے ہوئے بیوہ کی زندگی گزاررہی ہے اور شوہر کو ان کے حقوق کی کوئی فکر نہیں لیکن مسلم خواتین کے نام نہاد حقوق کی فکر میں ان کی حکومت مری جارہی ہے۔

طلاق کی آڑ میں شریعت میں مداخلت، مسلم پرسنل لا کو ختم کرنے اور ملک پر یونیفارم سول کوڈ تھوپنے کاکریڈٹ بھی وہی لینا چاہتے ہیں۔یہ بھی ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم ہیں جو کبھی پاکستان سے ایسی دوستی دکھاتے ہیں کہ بن بلائے پاکستان آکر پوری دنیا کو حیرت زدہ کردیتے ہیں اورکبھی ایسی دشمنی دکھاتے ہیں کہ سرجیکل اسٹرائیک کا ڈرامہ کرتے ہیں پوری دنیا میں خودکو ذلیل کرجاتے ہیں۔یہ اعزاز بھی ان ہی کی حکومت کو حاصل ہیکہ عدالت مانے یا نہ مانے جس کو بی جے پی نے دہشت گرد کہہ دیا وہ موت کا مستحق ہے اور اسے فرضی انکاؤنٹر میں ماردیا جائے تو اس کی انکوائری نہیں کرائی جائے گی۔یعنی ان ہی کی حکومت ہندوستان میں عدلیہ ہے اور ان ہی کا فیصلہ حتمی ہے۔وغیرہ وغیرہ کارنامے اور ریکارڈ پر موجود ہے اخر میں اللہ سے دعا ہے کہ یااللہ عزوجل پوری دنیا کے مسلمانوں پر رحم فرما بل خصوص کشمیر کے مسلمانوں کو ظالم ہندوستانی فوج نیجاد عطاء کر آمین ثمٰ آمین۔

Inayat ulhaq Kabalgraami

Inayat ulhaq Kabalgraami

تحریر : عنایت کابلگرامی