تحریر : رقیہ غزل آج یہ بات زبان زد عام ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے احتجاجی طور پر بنی گالہ میں اکٹھا ہونے اور راولپنڈی میں لال حویلی کے اندر منعقد ہ احتجاجی ریلی کو حکومت نے روک لیا ہے یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ ماڈل ٹائون کی طرح سر عام فولادی گولیاں چلانے کی ضرورت بھی نہیں پڑی ۔یہ بھی کہ پنجاب بھر سے پنجاب پولیس نے تحریک انصاف کے کارکنان کو گھروں ،راستوں اور انٹر چینجوں سے زبردستی گرفتار کر کے دھرنے کے عزائم ناکام بنا دئیے ہیں پولیس نے حالیہ پر امن احتجاج کرنے والوں سے بہت بُرا اور قابل مذمت سلوک کیا ہے آج پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اتنا متحرک اور تیز ہے کہ عوام نے تمام حالات ،واقعات اور حادثات بچشم خود ملاحظہ کئے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ نے خود کو ایک بار پھر دہرادیا ہے ۔پرویز مشرف کے آمرانہ اقدامات کے خلاف میاں نواز شریف نے لانگ مارچ کیا تھا ۔پرویزمشرف نے ریاستی جبر کا بھر پور مظاہرہ کیا تھا ۔عین اس موقع پر میاں نواز شریف نے پولیس والوں کو کہا تھا کہ وہ آمر کی خاطر ڈیوٹی نہ دیں اور لانگ مارچ کو کامیاب بنانے دیں ۔وہ لانگ مارچ بھی اسلام آباد بند کرنے کے لیے تھا۔
حالانکہ اس موقع پر عدلیہ پرویز مشرف سے ناراض تھی اور عدلیہ کا عملی تعاون اور وکلاء کا اس معاملہ میں اتفاق رائے لانگ مارچ والوں کے ساتھ تھا ۔عوام کی اکثریت بھی آج کی طرح میسر تھی ۔حتہ کہ ایک سے زائد پارٹیاں بھی ہم رائے تھیں کیونکہ میاں صاحب نے اپنے ”مقدر” سے بھرپور کام لیا تھا تو اسی راستے سے کامیابی حاصل کی تھی ۔مگر آج یہ بات عوام نے خود دیکھی اور پڑھی ہے کہ حکومت ٤ دن سے عدالتی احکام کی دھجیاں اڑاتی چلی آئی ہے ۔حکومت نے پنجاب اور اسلام آباد پولیس کو کھلی چھٹی دی کہ بنی گالہ کے گردو نواح میں موجود اور باہر سے آنے والے تمام کارکنان کو تشدد کا نشانہ بنایا جائے اورحراساں کر کے گرفتار کیا جائے۔ انھوں نے نہ بوڑھا ،نہ جوان ،نہ عورت ،نہ لیڈر ،نہ عوام کو دیکھا بس اپنے آقائوں کے احکام کو عملی جامہ پہناتے گئے۔
حتکہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ کے ساتھ ایک عام شہری سے بدتر سلوک اور شدید شیلنگ کر کے جگہ جگہ دیو ہیکل کنٹینر اور مٹی و پتھروں کے ڈھیروں کی بلند و بالا رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں۔ یہاں تک کہ اگر وہ ایک شدید شیلنگ میں ایک انٹر چینج عبور کرتے تو دوسرا انٹر چینج عبور کرنا ناممکن بنا دیا جاتا۔ جبکہ پرویز مشرف تو اس حد تک بھی نہ گیا تھا مگر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ کی کیبنٹ اور اہم عہدے داران سے وہ سلوک کیا گیا کہ جو آج تک پاک بھارت جنگ میں بھی یہ حکمت عملی اختیار نہیں کی گئی ۔حکومت کے بعض وزراغرور کرتے ہوئے خوش نظر آتے ہیں کہ انھوں نے دھرنا ناکام بنا دیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس ملک میں بڑی سے بڑی زیادتی اور کرپشن پر بھی پر امن احتجاج کی اجازت نہیں ہے۔
Benazir Bhutto
ہمارے ذمہ داران کہتے ہیں کہ وہ ہر فیصلہ کرتے وقت اپنے ضمیر کی آواز سنتے ہیں حالانکہ اس موقع پر ریاستی جبر کی انتہا کر دی گئی ہے ماضی میں بے نظیر کو پنجاب حکومت نے نہ کبھی شایان شان پروٹوکول دیا تھا اور نہ ہی کبھی ان کا شایان شان استقبال کیا گیا تھا ۔پیپلز پارٹی کی قیادت پنجاب سے ہر طرح سے رسوا ہو کر نالاں رہی لیکن وقت گزر گیا اور آج خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ کو وفاقی دارالحکومت آنے سے پنجاب نے روک لیا ۔کنٹینرز مالکان اور گڈز ٹرانسپوٹرز روتے چلاتے رہے ۔سڑکیں لاک ڈائون رہیں ۔پورا پنجاب اور اسلام آباد حکومت نے بند کئے رکھا ۔جس سے ہر طرح کی ٹرانسپورٹ اور کاروباری اداروں کو بے انتہا نقصان پہنچا جیسے کہ حکومت نے یہ ٹھان لی ہو کہ بے شک ساری خلقت کھجل ہوجائے رُل جائے مگر اپنے اقتدار کو ہر حال میں دوام حاصل رہے ۔ماضی سے آج تک چھوٹے صوبے پنجاب کو گالی اسی لئے دیتے ہیں کیونکہ ان کے بقول بیوروکریسی ،عدلیہ اور تقریباً تمام بڑے اہم ادارے پنجاب کے حق میں زیادہ ہمدردی دکھاتے ہیں۔
واضح رہے کہ عمران خان حکمران جماعت کے مرکزی عہدے داران کے خلاف پانامہ لیکس میں کرپشن کے الزامات اور سیکیورٹی لیکس کے معاملہ میں بہت کوشش اور جدوجہد کی لیکن قوم کو انصاف نہیں ملا تو بالآخر مجبور ہو کر سڑکوں پر آنا پڑا اور لانگ مارچ کی طرز پر اسلام آبا د میں اجتماع کرنا پڑا ۔ان کا مطالبہ تھا کہ وزیراعظم اور انکی فیملی خود کو احتساب کے لیے پیش کر دیں اور سیکیورٹی لیکس پر سخت ایکشن ہولیکن حکومتی ریاستی جبر اور ذرائع کے بھرپور استعمال سے پریشان اور بے بس کر دیا گیا اور ایسے میں سپریم کورٹ نے حکومت اور برسر پیکار فریق کو بلوا کر اپنے پہلے سے جاری حکم امتناہی کی خلاف ورزیوں پر خاطر خواہ نوٹس لئے بغیر فریقین کو اس بات پر راضی کر لیا ہے کہ حکومت ڈان لیکس پر نوٹیفکیشن نکالے اور باقاعدہ انکوائری ہو۔
اس مرحلہ اور موقع پر اس حکم پر عملدرآمد کے ذمہ دار وفاقی وزیر داخلہ بیرون ملک برائے علاج روانہ ہو رہے ہیں اور یہ کام تو فی الحال تعطل کا شکار نظر آتا ہے مگر پانامہ لیکس پر سپریم کورٹ میں روزانہ کی بنیاد پر کاروائی شروع ہونے کا قوی امکان ہے ۔اس سے پہلے عمران خان نالاں تھے کہ انھیں نیب اور FIA سے انصاف نہیں ملا اور انھوں نے عندیہ دیا تھا کہ انصاف نہ ملنے تک ہر سطح پر احتجاج کرونگا۔
PTI Protest
باوجودیکہ کہ ہماری عدالتوں کی تاریخ دیکھیں تو بہت بڑے فیصلے نہیں آئے اور اگر آبھی گئے تو حکومتوں نے عمل درآمد نہیں کیا ۔لیکن عمران خان کے مسلسل دھرنوں اور اجتماعات نے یہ سبق دے دیا ہے کہ حکمرانوں کے خاندان اور بچوں کو قطعاً کرپٹ نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ وہ بھی بالآخر جواب دہ ہیں ۔ اب یہ طے پا گیا ہے کہ فریقین اپنے اپنے TOR سپریم کورٹ کو دیں جو کہ بہتر ہے اور سپریم کورٹ نے وزیراعظم اور ذمہ دار اداروں کو طلب کر لیا ہے ۔اس دھرنے کا جو انجام ہوا ہے پھر بھی خوش آئند ہے کیونکہ اگر پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے وزراء اعلیٰ اپنی اپنی پولیس اور حکومتی ذرائع آمنے سامنے لے آتے تو بھیانک انجام ہوتا اور بڑا بگاڑ پیدا ہوجاتا ۔عمران خان نے کہیں نہ کہیں اپنا کوئی نہ کوئی مطالبہ ضرور منوا لیا ہے تاہم خان صاحب کا یہ فیصلہ موقع اور حالات کی مناسبت سے قابل تحسین ہے اسے نہ کوئی اپنی شکست قرار دے سکتا ہے اور نہ کوئی جیت ثابت کر سکتا ہے۔
بعض منجھے ہوئے سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ حالیہ بحران ٹلا نہیں بلکہ سانس لے رہا ہے ان کا کہنا ہے کہ اگر PPP کے چار مطالبات نہ مانے گئے تو وہ بھی تحریک چلائیں گے ۔حالانکہ وہ بھول رہے ہیں کہ پنجاب حکومت اور اسلام آباد کے مالکان نے جواباًکاروائی کا طریقہ کار اپنا لیا ہے ۔یہ سچ ہے کہ جمہوری احتجاج کرنا سب کا حق ہے مگر اگر یہ واقعتا درست ،جائز اور مناسب تھا تو دوسرے سارے کس آڑ اور بنیاد پر منافق اور عیار بنے رہے اب سب جان گئے ہیں کہ اس مشکل وقت میں تقریباً تمام پارٹیوں نے حکومت اور تحریک انصاف سے منافقت کی آڑ میں اپنے اپنے مفادات حاصل کر لئے ہیں ۔کراچی کے مئیر کی ضمانت ہوگئی۔
ڈاکٹر عاصم کی ضمانت ہوگئی اور نہ جانے کس کس نے کیا کیا فائدے حاصل کر لئے ہیں لیکن خدا کی قسم ! پاکستانی قوم کا ہر طرح بڑا نقصان ہوا ہے۔ سیاستدانوں کی ان ہوشیاریوں اور مکاریوں نے پاکستانی قوم کا مستقبل تاریک کر رکھا ہے اور جب وزیراعظم اور اسحاق ڈار جیسے مرکزی حکمرانوں کے بچے پاکستان میں کاروبار کرنے میں خطرہ محسوس کرتے ہیں تو غیر ملکی سرمایہ کار وں کو کیوں دعوت دی جارہی ہے ۔ایسے تمام حالات میں واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ آنے والے دنوں میں مسلم لیگ ن کے لیے بڑے امتحانات ہونگے اور ان حالات میں سپریم کورٹ کی ذمہ داری اور کردار بہت بڑھ گیا ہے۔