تحریر : ڈاکٹر میاں احسن باری انگریز حکمران اپنے اور بھارتی افراد کے درمیان رہن سہن کا فاصلہ رکھتے تھے اور یہ ان کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ تھا۔وہ چند ہزار افراد آئے اور پورے بھارت پر راج کر کے بھارت جو اس وقت سونے کی چڑیا کہلاتا تھا کا مال متال ہیرے جواہرات تک لوٹ کرلے گئے (دنیا کا سب سے بڑا کوہ نور ہیرا آج تک برطانوی ملکہ کے تاج میں جڑا ہوا ہے) کاروباری کمپنی بن کر داخل ہوئے اور رفتہ رفتہ اپنا قبضہ جما لیا کہ ہندو بنیے تو ویسے ہی ہاتھ جوڑ کر نمستہ نمستہ کرنے لگ گئے اور مسلمانوں کے اندر میر جعفر وصادق وغیرہ غداران جنم لیتے گئے۔
مسلمانوں کی ریاستوں پر بھی وہ قابض ہوتے چلے گئے انہوں نے نظام ایسے چلایا کہ کنٹرولنگ سیٹوں پر اپنے بندے بٹھائے اور باقیوں کو غلامانہ طریقے سے ہانکے رکھا۔ڈویژن کی حد تک کمشنر ڈی آئی جی وغیرہ اور ضلعی سطح پر ڈی سی ایس پی جیسی پوسٹوں پر خود براجمان رہے اور ایسی کوٹھیاں کئی کئی ایکڑوں پر مشتمل بنائی گئیں۔محکمہ انہار کا پنجاب میں خصوصاً اور دیگر صوبوں میں جال بچھایاتو ان کے افسران چیف انجنئیر ایس ای اور ایکس ای این وغیرہ خود بنے اور ان کی کوٹھیاں بھی کئی کئی ایکڑوں پر بنائی گئیں۔
ریلوے کی ایجاد کی تو ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ اے ای این ودیگر بڑے عہدوں کی رہائش گاہوں کی تعمیر بھی ایکڑوں زمینوں پر ہوئیں۔کہ وہاں خود انگریزوں نے رہنا ہوتا تھا۔محکمہ انہار و ریلوے کے چھوٹے ملازمین اور مزدوروں کے کوارٹرز دیکھیںتو وہ چھوٹے ایک دو کمروں پرمشتمل ہیں جن میں دو تین افراد بمشکل سو سکیں۔گورنر ہائوس ،چیف سیکریٹری ودیگر سیکریٹریوں اور وزراء کی رہائش گاہیں کئی کئی ایکڑوں پر مشتمل ہیں۔کئی رہائش گاہیں توپچیس ایکڑ سے بھی زائد ہیں۔حتیٰ کہ ان میں ہائی سکولز تک موجودہیں۔اور نچلا اسٹاف بھی سینکڑوں افراد پر مشتمل ہے۔گورنر ہائوس پنجاب لاہور75ایکڑوں یعنی600 کینال (3مربع زمین )پر مشتمل ہے۔کمشنر ہائوس سرگودھا 104کینال،ڈی سی او ہائوس فیصل آباد92کینال اور بہاولپور کمشنر ہائوس72کینال پر مشتمل ہیں۔علیٰ ھٰذالاقیاس۔اسی طرح صرف بڑے افسران وزرائے اعلیٰ مشیر وزیرایوان صدر اور پی ایم ہائوسز کے رقبوں کو جمع کیا جائے تو یہ زمینیں پچاس ہزار ایکڑوں سے بھی زائد بنتی ہیں۔
Property Sale
اسی طرح انگریزوں نے ہر چک میں خود جاگیریں بانٹیں اس نے تابعداروں ،ہمہ قسم غلاموں کو نمبرادر ،تمندار و ضیلداروغیرہ تعینات کیا انھیں ایک ایک مربع تک زمینیں دی گئی اس پر طرا یہ کہ گھوڑی ،خچر پال سکیمیں شروع کی گئی چکوک میں پچیس ایکڑ تک زمینیں الاٹ کی گئیں جو کہ کل چار ہزار مربع یعنی ایک لاکھ ایکڑ بنتے ہیں۔تاکہ انگریزوں کو پہاڑوں پر اسلحہ لیجاناپڑے تو یہ گھوڑے خچر کام آسکیں۔ریلوے کا جال بھی بنیادی طور پر انھی مقاصد کے پیش نظربچھایا گیا تھااب گھوڑے خچروں کا تو رواج ہی نہ رہا یہ ساری زمینیں بحق سرکا ر ضبط کی جائیںتو ایک ایکڑ پندرہ بیس لاکھ سے کم کا نہ ہو گا۔
پچیس فیصد دیہات تو اب شہر بن چکے ہیںوہاں کی زمینیں تو لاکھوں روپے فی مرلہ کی ہیں۔بیوروکریٹوں کے مکانات دس مرلہ پر مشتمل چھ ماہ کے اندر تعمیر کرکے الاٹ کیے جاسکتے ہیں۔اور یہ زمینیں فروخت کرکے کھربوں ڈالرز مہیا ہوں گے جو کہ بیرونی قرضوں سے بھی کئی گنا ہوں گے اس کے علاوہ بھی انگریزوں نے کئی علاقہ جات میں 1857کی جنگ آزادی کو کچلنے کے لیے خلعتیںاور مربع جات الاٹ کیے تھے جن پر آج ان ظالم غدار جاگیرداروں کی تیسری پشت عیاشیاں کرہی ہے ۔یہ زمینیں صرف اسلام اور مسلمانوں سے غداریوں کے عوض الاٹ کی گئی تھیں۔مثلاً ملتان چھائونی سے مسلمان سپاہی بغاوت کرکے نکلے تو انگریزوں نے ہر باغی کے سر کی قیمت ایک مربع زمین رکھی اس وقت کے مخدوم شاہ محمود قریشی اور مخدوم آف شیر شاہ ملتان نے بالترتیب چار سو اور اڑھائی سو سر پیش کرکے اتنے مربع جات الاٹ کروائے ۔ اسطرح پندرہ لاکھ ایکڑوں کی بندر بانٹ کی گئی۔
سرکار انگلیشیہ نے سرکاری گزیٹر میں ان غداران ملت کے نام درج کرکے انھیں سرکار کے وفادران قراردیا یہ ساری زمینیں بھی بحق سرکار ضبط کرکے کھربوں روپیہ جمع ہو سکتا ہے یہ ساری رقوم بیرونی سود در سود قرضے اتارنے کے بعد بھی کھانے پینے کی اشیاء 1/5قیمت پر اور ہمہ قسم تیل1/3قیمت پر بیچنے کے لیے بطور سبسڈی استعمال کی جا سکتی ہیں مزید برآںہر محنت کش اور مزدور پچاس ہزار ماہانہ تنخواہ پا سکتا ہے۔
کسانوں کو انھی رقوم سے مفت بیج کھاد سپرے اور زرعی آلات ٹریکٹر وغیرہ مہیا کرکے ملک میں بنجر زمینیں آباد کی جاسکتی ہیں اور ملک میں سبز انقلاب لا کر اسے اسلامی فلاحی مملکت بنایا جا سکتا ہے سابقہ حکمرانوں نے ان فالتو مذکورہ زمینوں کوبیچنے کے لیے کئی سکیمیں ،کمیٹیاں بنائی تھیںمگر سب کرپٹ بیورو کریسی اور سرخ فیتہ کی نظر ہوگئیں۔مگر اب خود کشیاں اور خود سوزیاں کرتے کچلے ہوئے غریب افراد اللہ اکبر اللہ اکبر اور رسالت مآب ۖکے نعرے لگاتے تحریک کی صورت میں نکلے تویہ سب کچھ ہو کر رہے گاکہ نظام قدرت کا یہی فطری تقاضا ہے اور لازمی امر ہے۔