تحریر : شیخ توصیف حسین جس طرح آئینہ ہر شخص خواہ وہ امیر ہو یا پھر غریب خوبصورت ہو یا پھر بد صورت ظالم ہو یا پھر مظلوم ہر چہرے کی عکاسی کرتا ہے بالکل اسی طرح ہر شخص کا کردار اس کے ضمیر اور خاندان کی عکاسی کرتا ہے جس طرح گھڑی سوئیاں اوپر نیچے کرنے سے وقت نہیں بدلتا بالکل اسی طرح انسان کی گردن اوپر نیچے کرنے سے اُس کی اوقات نہیں بدلتی بزرگوں کی ایک کہاوت ہے کہ اگر آپ نے کسی شخص کے کردار کے بارے جاننا ہو تو اُس کے دوستوں کو دیکھ لو خود بخود اُس شخص کا کردار آپ پر واضح ہو جائے گا آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ درخت اسی کو پھل لگتے ہیں جو جھک جاتا ہے اور تکبر کرنے والا خواہ درخت ہو انسان ہو یا پھر کوئی فرشتہ خداوندکریم اُسے کبھی پسند نہیں کرتا جس کا واضح ثبوت شیطان ہے جو اپنے آپ کو فرشتوں کا استاد کہواتا تھا جس کو یہ تکبر تھا کہ اُس نے زمین کے ذرہ ذرہ پر خداوندکریم کی عبادت کی ہے بس اسی تکبر کی وجہ سے اُس نے صرف ایک حکم خداوندکریم کا ماننے سے انکاری ہوا تو خداوندکریم نے اُسے ناپسند کرتے ہوئے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دھتکار دیا۔
خداوندکریم رحم کرے آج نجانے کتنے بااثر افراد جن میں زیادہ تر تعداد بیورو کریٹس افراد کی ہے جو اقتدار کے نشے میں بد مست ہو کر اس تکبر کے ساتھ کہ کوئی کچھ بھی ان کا بگاڑ نہیں سکتا بے بس اور لاچار غریب افراد پر ظلم و ستم اور ناانصا فیوں کی تاریخ رقم کر کے حکم خداوندی کو ٹھکرا رہے ہیں یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ابو آ دم ایک رات اپنے کمرے میں سوئے ہوئے تھے کہ اسی دوران ان کے کمرے میں ایک روشنی نمودار ہوئی جس کی وجہ سے آپ اُٹھے تو آپ کو ایک فرشتہ کچھ لکھتے ہوئے نظر آ یا تو آپ نے فرشتے سے پو چھا کہ آپ کیا لکھ رہے ہو تو فرشتے نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں اُن کا نام لکھ رہا ہوں جو افراد خداوندکریم سے پیار کرتے ہیں یہ سننے کے بعد ابو آدم نے فرشتے سے پو چھا کہ اس لسٹ میں میرا نام ہے یا نہیں تو فرشتے نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس لسٹ میں آپ کا نام نہیں یہ کہہ کر فرشتہ وہاں سے چلا گیا کچھ دنوں کے بعد ابو آدم کو وہی فرشتہ کچھ لکھتے ہوئے نظر آیا تو ابو آدم نے فرشتے سے پھر پو چھا کہ اب کیا لکھ رہے ہو تو فرشتے نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس بار میں اُن افراد کا نام لکھ رہا ہوں کہ جن سے خداوندکریم پیار کرتا ہے۔
یہ سننے کے بعد ابو آدم نے فرشتے سے پو چھا کہ اس لسٹ میں میرا نام ہے تو فرشتے نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ کا نام لسٹ کے پہلے نمبر پر ہے یہ سننے کے بعد ابو آدم نے فرشتے سے کہا کہ کیسے ممکن ہوا ہے تو فرشتے نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ چونکہ خداوندکریم کی مخلوق سے پیار کرتے ہو بس اسی لیئے خداوندکریم آپ سے پیار کرتے ہیں تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں جن حکمرا نوں نے ملک وقوم کی بقا کی خا طر جنگیں کی ان کا نام تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا گیا اور جہنوں نے اپنے عیش و آ رام اور مال و زر کیلئے اپنے ملک وقوم سے غداری کی ان کا نام میر جعفر کی لسٹ میں لکھا گیا۔
Pakistani Politicians
افسوس صد افسوس کہ آج کے اس جدید دور میں بھی لا تعداد بااثر افراد اپنی عیش و آ رام اور مال و زر کیلئے ملک و قوم کے ساتھ میر جعفر کا کردار ادا کر رہے ہیں جس کی واضح مثال ہمارے ملک کے بعض حاکمین ہیں جن میں سے تو بعض حاکمین ایسے بھی ہیں جو اپنے اقتدار میں ہر غریب کی پکار ذوالفقار علی بھٹو شہید کی قابل ترین بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو جو متعدد بار اس ملک کی وزیر اعظم بھی رہی ہے کے بھائی سمیت قاتلوں کو گرفتار کرنے میں قاصر رہے ہیں جو کہ ایک تعجب خیز بات ہے کہ جو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سمیت اُس کے بھائی کے قاتلوں کو گرفتار کرنے میں قاصر رہے ہیں وہ بھلا ہم جیسے غریبوں کی جان و مال کا تحفظ کیسے کر سکتے ہیں جبکہ باقی مسئلہ رہا دیگر حاکمین کا جو ہاتھ میں کشکول لیئے آئے روز غیر مسلم ممالکوں سے قرض حاصل کر کے ملک و قوم کے بچے بچے کو قرض دار بنا رہے ہیں کے ہر اضلاع میں تعنیات کیئے گئے ڈی سی او اور ڈی پی او صاحبان کے رہائشی کو ٹھیوں کی لسٹ عوام کی نظر کر رہا ہوں کہ اس ملک کے ڈی سی او اور ڈی پی او صاحبان کس عالیشان انداز میں رہائش پذیر ہیں تو حاکمین کس انداز میں رہتے ہوں گے فیصلہ اس ملک کی عوام پر چھوڑتا ہوں۔
کمشنر سر گو دھا کی رہائش گاہ چار سو کنال ڈی سی او میا نوالی پچانوے کنال ایس ایس پی ساہیوال آ ٹھانوے کنال ڈی سی او فیصل آ باد بانوے کنال ڈی آئی جی گو جرانوالہ ستر کنال ڈی آئی جی سر گو دہا چالیس کنال ڈی آئی جی روالپنڈی بیس کنال ڈیرہ غازی خان بیس کنال ڈی آئی جی ملتان اٹھارہ کنال ڈی آئی جی لاہور پندرہ کنال ایس ایس پی قصور بیس کنال ایس ایس پی شیخو پورہ بتیس کنال ایس ایس پی گو جرانوالہ پچیس کنال ایس ایس پی گجرات آ ٹھ کنال ایس ایس پی حافظ آ باد دس کنال ایس ایس پی سیالکوٹ نو کنال ایس ایس پی جھنگ اٹھارہ کنال ایس ایس پی ٹوبہ ٹیک سنگھ پانچ کنال ایس ایس پی ملتان تیرہ کنال ایس ایس پی وہاڑی بیس کنال ایس ایس پی خا نیوال پندرہ کنال ایس ایس پی پاکپتن چودہ کنال ایس ایس پی بہا ولپور پندرہ کنال ایس ایس پی بہا ولنگر بتیس کنال ایس ایس پی رحیم یا خا ن بائیس کنال ایس ایس پی لیہ چھ کنال ایس ایس پی روالپنڈی پانچ کنال ایس ایس پی چکوال دس کنال ایس ایس پی جہلم چھ کنال ایس ایس پی اٹک انتیس کنال ایس ایس پی خو شاب چھ کنال ایس ایس پی بھکر آ ٹھ کنال ایس ایس پی را جن پور سینتیس کنال ایس ایس پی خلیل آ باد بارہ کنال ایس ایس پی نارووال دس کنال صرف اور صرف ان سر کاری افسران کا رہائشی رقبہ مجموعی طور پر دو ہزار چھ سو کنال پر مشتمل ہے جن کی مر مت اور تزئین کا سالانہ خرچ تقریبا اسی کروڑ روپے بنتا ہے جبکہ ان پر تعنیات ہزاروں ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ملازمین ہیں۔
ایک سرکاری اندازے کے مطا بق یہ تمام رہائش گاہیں شہروں کے اُ ن مر کزی علاقوں میں ہیں جہاں پر زمینوں کی قیمت سب سے زیادہ ہے اگر ان رہائش گاہوں کو فروخت کر دیا جائے تو کم از کم ایک کھرب کے قریب ہو گی اگر اسی افسران کی رہائش گاہیں ایک کھرب کی ہیں تو عوام از خود اندازہ کر لے کہ پورے ملک کے باقی ماندہ سر کاری افسران کی رہائش گاہیں کتنی مالیت کی ہوں گی حاکمین کی رہائش گاہوں اور دفاتروں کو چھوڑ کر یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بر طانیہ کے وزیر اعظم سے لیکر ڈپٹی سیکرٹری تک دو دو یا پھر تین تین کمروں کے فلیٹس میں رہائش پذیر ہیں جبکہ امریکا کا وہائٹ ہائوس دیکھے وہ پنجاب کے گورنر ہائوس سے چھوٹا ہے غالبا جا پان میں تو ایسی کوئی سرکاری رہائش گاہ ہے ہی نہیں لہذا اگر ہمارے ملک کے حاکمین اپنے فرائض و منصبی ملک و قوم کی بقا کیلئے سر انجام دینا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے انھیں چاہیے کہ ملکی دولت لوٹنے والوں کا احتساب کر کے ملکی لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کے ساتھ ساتھ سر کاری رہائش گا ہوں کو فروخت کر کے ملکی قرضہ اُتارے انشاء اللہ تعالی ملک و قوم خو د بخود ترقی کی راہ پر گامزن ہو کر رہ جائے گی۔ اے اللہ میری توقیر ہمیشہ سلامت رکھنا میں فرش کے سارے خدائوں سے الجھ پڑا ہوں