تحریر: احمر اکبر کل مسجد میں نماز مغرب کے بعد خلاف معمول حافظ صاحب نے دعا سے پہلے سب نمازیوں سے درخواست کی کہ نماز کے بعد ایک ضروری بات کرنی ہے دعا کے بعد بیس لوگ موجود تھے جو سب انتظامی معملات میں بھی مدد کرتے ہیں حافظ صاحب نے بتایا کہ پچھلے سات ماہ سے کوئی جوتی چور ہماری مسجد کے پیچھے پڑا ہے ہر نماز کے بعد کوئی نا کوئی اس کا شکار ضرور ہوتا ہے پہلے تو نمازی حضرات تک بات محدود تھی میں نے کوئی ایکشن نہیں لیا مگر کل تو اس نے امام مسجد یعنی میری نئی جوتی بھی اٹھالی اب مجھ سے صبر نہیں ہوتا میری خون پسینے کی کمائی کی تھی میں چاہتا ہوں مسجد میں داخلی اور خارجی راستوں پر سی سی ٹی وی کیمرے لگائیں جائیں
اس سے پہلے کے میں کچھ کہتا ایک بزرگ نے کہا حافظ صاحب جب چور لوگوں کی اٹھاتا تھا تب آپ چپ کیوں تھے تب تو کبھی سپیکر میں اعلان بھی نہیں کیا آپ کی باری آئی تو اعلان بھی ہوا اور آج آپ کیمرے بھی لگانا چاہتے ہیں یہ تو آپ کی زیادتی ہے ویسے مجھے کہنا تو نہیں چاہیے شاید چور کو آپ سے زیادہ ضرورت ہو اور اس نے چوری کرنے میں آپ سے بھی زیادہ خون پسینہ بہایا ہو ۔حافظ صاحب کے مشورے سے ابھی کوئی متفق نہ تھا کہ ایک اور کمیٹی کے رکن بولے پچاس ہزار روپے لگیں گے حافظ صاحب، مسجد کے پاس انتے پیسے نہیں ہیں اس لیے ایسا ممکن نہیں ۔حافظ صاحب بولے پریشانی کس بات کی ہے حاجی صاحب۔ میرا داماد سکیورٹی کیمرے کا کام کرتا ہے اس سے لگوا لوں گا دو ماہ میں اس کو تھوڑے تھوڑے کر کے پیسے دے دوں گا ۔ چندہ جمع کر کے ۔،ایک بار پھر وہی بزرگ بولے حافظ جی ناراض نا ہونا۔۔۔۔
Cctv Camera
جوتی وی تھواڈی ۔کیمرے وی تھواڈے ۔پیسے وی تسی دے دو اپنی تنخواہ سے۔ یہ بات حافظ صاحب کو بہت بری لگی اور بولے آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا ایک عالم دین کے سامنے زبان چلانے کا۔ میں نے بیس سال خدمت کی ہے اس مسجد کی تم کیا چاہتے ہو میں یہ مسجد چھوڑ دوں گا ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا جبکہ ایسا کوئی بھی ایشو زیر بحث تھا ہی نہیں جو حافظ صاحب بیان کرتے وقت جوش میں آگئے اب جوتی چوری کا تو پتہ نہیں مسجد میں اختلاف ضرور ہے ۔۔۔۔
اس پورے واقعہ کا لب لباب یہ ہے کہ ہم لوگوں کی تکلیف کو کبھی بھی محسوس نہیں کرتے زیادہ سے زیادہ اظہار افسوس کرتے ہیں وہی سب جب اپنے ساتھ ہو تو ہم شور مچا دیتے ہیں ادھر ادھر بھاگتے ہیں ہم کو لگتا ہے ہم دنیا کے واحد مجبور اور بےکس انسان ہیں اور جب کسی کو نوازنے کی باری آتی ہے تو ہم سب سے پہلے اپنوں کو نوازنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انسان اشرف المخلوقات ہے پھر بھی بندر بانٹ سے باز کیوں نہیں آتا اس کو کیوں اپنا دکھ تو دیکھائی دیتا ہے مگر دوسروں کا دکھ ایک ڈرامہ لگتا ہے ساس کی بیٹی بیمار ہو تو وہ بیمار ہوتی ہے بہو بیمار ہو تو وہ ڈرامہ کیوں لگتا ہے ہم کب ان قدیم وسوسوں سے نکلیں گے کب ہم سب کے لیے ایک سا سوچیں گئے ؟
Injustice
یہی حال ہماری اشرافیہ کا ہے ان کو تب تک تکلیف نہیں ہوتی جب تک ان کے بچوں پر کوئی مصیبت نہ آے عام انسانوں کے لیے وہ نرم گوشہ بھی نہیں رکھتے اور ملک کے اہم ترین کنٹریکٹ اپنے عزیز اور رشتے داروں کو دیتے ہوے بھی ان کو خوف خدا نہیں آتا ہر سیاستدان کے پیچھے ایک یا دو انویسٹر موجود ہیں جو اپنا پیسہ ان کے الیکشن پر لگاتے ہیں پھر اپنے تمام اچھے اور برے کام ان کی کرسی کے پچھے بیٹھ کر کرواتے ہیں اور کوئی پوچھتا بھی نہیں اگر کوئی ہمت کر بھی لے اس کا ٹرانسفر کروا دیا جاتا ہے اگر عدالت کوئی فیصلہ ان کے خلاف کرنے جا رہی ہو تو اس جج کو بھی وکیلوں کے ہاتھوں ذلیل کروا دیا جاتا ہے اس عدالت کو بھی اختیار نہیں دیا جاتا کہ میرٹ پر فیصلہ کرے ۔ ہم بہت دور نکل چکے ہیں ہم اچھی بات سنتے ہیں اس کو اچھا تسلیم بھی کرتے ہیں مگر اس پر عمل نہیں کرتے کیونکہ اس سے ہمارا نقصان ہو سکتا ہے ہمارے رشتےداروں اور انویسٹر کا پیسہ ڈوب سکتا ہے اس لیے ہم حافظ صاحب کی طرح اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔تشدد کا راستہ اپناتے ہیں عدم برداشت کی پولیسی پر عمل کرتے ہیں یہی قوموں کی بربادی کا سبب بننے والے عناصر ہیں
ہم جس ملک میں رہتے ہیں یہاں چوروں کی تعداد دوسرے ملکوں کی نسبت انتہائی کم تھی آج بھی کم ہے مگر اب چوروں کے واردات کے طریقے میں جدت آچکی ہے چور جوتے بھی چوری کرتا ہے پھر کیمرے بھی خود لگاتا ہے پولیس بھی تفتیش کے نام پر پیسے مانگتی ہے عدالتوں میں انصاف کے لیے جھوٹ بولنا پڑتا ہے بنا جھوٹ کے آپ کا کیس کمزور رہ جاتا ہے ایسا ہم کو قانون دان بتاتے ہیں اب عام سائلین کہاں جائیں ۔کس کو اپنا دکھڑا سنائیں ۔۔۔۔اس لیے ہر کوئی حافظ بننے کی کوشش کرتا ہے ہر کوئی چور نہیں مگر کسی نی کسی طرح ہم ان کے سہولتکار ضرور ہیں