تحریر : حامد تابانی گذشتہ دنوں ایک ویڈیو دیکھنے کا موقع ملا۔جس میں ایک گیارہ سالہ بچہ میڈیا کے سامنے پولیس کے ہمراہ بڑی بیباکی ،بے شرمی،بلا خوف اور ڈھٹائی سے اپنے جرم کا اعتراف کررہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حقیقت میں ایسا نہ ہو بلکہ ڈرامے کا ایک سین فلمایا جا رہا ہو۔ایک ڈھائی سالہ بچے کو اپنے انتقام کا نشانہ بنا تا ہے ۔بدن ایک جھرجھری لے کر کانپ اٹھتا ہے ۔ابھی سے یہ دم خم ہے جب یہ بچہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھے گا تو پتہ نہیں کیا گل کھلائے گا۔ہم پولیس کا نا م سنتے ہی چہرہ انڈے کی زردی جیسا ہو جا تا ہے اور ہاتھ پاوئں کپکپانے لگتے ہیںجبکہ اس کے چہرے پر خوف کا شائبہ تک نہیں تھا۔ یہی تو آغاز ہے پتہ نہیں انجام گلستاں کیا ہو گی۔مغربی کلچر کی یلغار اور ٹیکنالو جی کی دہلیز پر دستیابی نے ہم پر اور نسل نو پر کاری ضرب لگائی ہے۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس کا ادراک کسی کو نہیں۔
انگریزی میں ایک معقولہ ہے”evil must be nipped in the bud ”برائی کو ابتداء میں ہی دبانا چاہیے،جب برائی اپنے پنجے گا ڑھ لیتی ہے تو ان کو ختم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ برائی اپنے پنجے گاڑھ چکی ہے اور متعدی بیماری کیطرح پھیل چکی ہے۔نسل نو تباہی و بر بادی کے جانب گامزن ہے۔سوات چونکہ شورش زدہ علاقہ رہ چکا ہے اور یہاں کے مکین ایک ناقابل فراموش واقعات اور حالات سے گزر چکے ہیں۔بچوں اور بڑوں کے ذہنوں میں ”خون ریزی” کے مناظر چسپاں ہو چکے ہیں۔اور نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔ان کے ذہنوں سے یہ سب خرافات نکالنا درکار تھالیکن افسوس وہ نکلے نہیں بلکہ پشتو سی ڈیز ڈراموں اور فلموں کی بھیس میں اس میں مزید اضافہ ہوا۔مہنے میں کئی ڈرامے اور فلمیں ریلیز ہوتی ہیں۔جو بچے ،بڑے اور یہاں تک کہ صنف نازک بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔اس کی دور رس اثرات معاشرتی اقدار پر پڑ رہے ہیں۔یہ فلمیں اور ڈرامے نہ صرف اخلاق کو تباہ کر رہے ہیں بلکہ دہشت گردی،ظلم ،مار دھاڑ،قتل وغارت اور بے چینی کی فضا ء کے لیے راہیں ہموار کر رہے ہیں۔
فلم اور ڈرامے کا مقصد تفریح اور سماجی برائیوں کو آشکارہ کرنا ہوتا ہے ۔جب انسان معمول کے کام کاج سے تھک جا تا تو وہ آرام کے غرض سے چند گھڑیوں کے لیے بلیک اینڈ وائٹ اسکرین کے سامنے بیٹھ جاتا ۔اور مقتدر لوگ ڈراموں اور فلموں میں دکھائی گئے معاشرتی ناہمواریوں کے سد باب کے لیے کچھ کر تے۔ اب وہ وقت نہ رہالیکن اس کے آڑ میں ایسے اخلاق باختہ اور فحش فلمیں اور ڈرامے بن رہے کہ تفریح کے نام پر ایک سیاہ دھبہ ہے۔پیسے کی دوڑ ،نام نہاد آزادی اور مقابلے کی فضا ء نے ایسا ماحول تشکیل دیا ہے کہ یہاں ہر کو ئی فلم اور ڈرامہ بنا سکتا ہے۔نہ کہانی کو دیکھا جا تا ہے،نہ کردار کواور نہ معیار کو۔
Pashto Films Shooting
یہاں سی ڈیز ڈرموں اور فلموں میں ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہاں کے بسنے والے لوگ شراب کے پیالوں ،چرس کے سوٹوں اور سگریٹ کے مرغولوں میں سکھ کے لمحات ڈھونڈتے ہیں۔شراب یہاں پانی کے طرح بہا یا جاتا ہے۔کلاشنکوف ،بندوق،مرنے مارے،لڑائی جھگڑے اور خون بہانے کا رواج عام ہے۔یہاں کے لوگوں کو ہر طرح کی آزادی ہے۔سمگلنگ کا کاروبار عروج پر ہے ۔یہاں پردے کا کوئی تصور نہیں ،یہاں کی عورتیں محبوب کے لیے پیا ر و محبت کے گیت کھبی سرسوں کے کھیتوں تو کھبی پارکوں اور دریا کے کناروں پر گاتیں نظر آتی ہیں۔ ان سب کا ہمارے کلچر،ریت وروایات اور اقدار سے دور کا واسطہ نہیں پھر کیوں دنیا کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ ہم قدامت پسند نہیں ،ہماری عورتیں پیار کرنا جانتی ہیں۔مے نوشی کو برا خیال نہیں کیا جا تا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش کی تحت ایسا ہورہا ہے۔ پروڈیوسر حضرات فلم میں عورتوں کو نیم عریاںانداز میں پیش کرتے ہیں۔فلم اور ڈرامے کو لاکھوں کی تعداد میںبکنے اور زیادہ سے زیادہ نمبر لینے کی چکر میں کھبی چست لباس کا سہا رہ لیا جاتاہے۔کھبی جسم کے خد وخال کو نمایاں کر نے میںاور کھبی فحش مناظر کے ذریعے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ فلم میں سارے کردار نا محرم ہو تے ہیں اور یہ نامحرم (ہیرو) ہیروئن کے سا تھ کیا کچھ نہیں کرتا۔کہاں کہاں ہاتھ بدن پر نہیں پھیرتا۔ہاتھوں اور ہونٹوں سے بدن کے مختلف حصوں کو چھو رہاہوتا ہے۔ اگر ہم دوسری قوموں کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے اور بھی میدان سجے ہیں فحاشی اور عریانی کا کیوں؟ ان فلموں کے اثرات ہمارے معاشرتی زندگی پر پڑ چکے ہیں۔بچے بڑوں کی عزت کر نا بھول چکے ہیں لباس میں نت نئے ڈیزائن ترتیب دینے لگے ہیں۔اذان کے وقت گا بج رہا ہوتا ہے۔موبائیل پر پیار ومحبت کا عمل جاری ہیں۔آئے روز کوئی نہ کوئی واقعہ ضرور ہوتا ہے جس میں لڑکی آشنا سمت بھاگ جاتی ہے۔یا آشنا سمت قتل کردی جاتی ہے۔
یہاں پر سنسر بورڈ قائم ہے تنخواہ اور مراعات لیتے ہیں۔اس سے باقاعدہ فلم پاس ہوتی ہے ۔ان کا کام ہے کہ فلم کہیں ہمارے اقدار کے پرخلاف تونہیں۔اس میں بیہودہ مناظر تو فلمائے نہیں گئے۔اس کا نام تو دہشت پھیلانے والا نہیں ۔لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ فلم میں سارے مناظر بیہودہ بھی ہوتے ہیںاور سنسر بورڈ سے پاس بھی ہوئے ہیں۔ خیبر پختونخواہ کی مخلوط اور مجہول حکومت شاید اسے بڑی تبدیلی کے زمرے میں حساب کرتی ہے ۔اگر ان فلموں اور ڈراموں کے نام پر فحاشی پھیلانے والوں کے خلاف کچھ نہ کیا گیا تو معاشرہ ہر لحاظ سے تباہ ہو جائے گا ،اخلاقی لحاظ سے،کردار کے لحاظ سے اور امن کے لحا ظ سے۔چوری چکاری،بدکاری اور قتل عام لوگوں کے لیے ایک تفریح کا ذریعہ بن جا ئے گا۔ بے وجہ تو نہیںہیں چمن کی تبائیاں کچھ باغباں برق وشرر سے ملے ہوئے