عاشقِ رسول علامہ ڈاکٹر محمد اقبال

Allama Mohammad Iqbal

Allama Mohammad Iqbal

تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا
ہم آپ کو ڈھونڈتے ہیں اور آپ ہماری آنکھوں سے دور ہیں
نہیں یہ بات نہیں، آپ سامنے ہیں، مگر ہم اندھے ہیں
علامہ ڈاکٹر محمد اقبال سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ رسول مقبولۖ کا دیدار کیسے ہوسکتا ہے؟ آپ نے جواب دیا ”پہلے حضورۖ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرو اور اپنی زندگی کو اسی میں ڈھالو اور پھر اپنے آپ کو دیکھو۔ یہی ان کا دیدار ہے۔ کسی نے پوچھاکہ آپ کو اتنی بصیرت کیسے حاصل ہوئی۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا کہ اکثر اوقات رسول کریمۖ پر درود بھیجتا رہتا ہوں۔ اب تک ایک کروڑ مرتبہ درود شریف کا ورد کیا ہے۔!

آپ کے صاحبزادہ ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں کہ میں نے اماں جان کی موت پر بھی انہیں روتے نہیں دیکھا مگر قرآن سنتے وقت یا رسولِ اکرمۖ کا نام زبان پر آتے ہی ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے۔ 1933ء میں ایک نوجوان نے حکیم الامت سے اس بارے میں استفسار کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے آنحضرتۖ جب چلتے تھے تو درخت تعظیم سے جھک جاتے۔ اس کا کیا مفہوم ہے؟ کیونکہ یہ بات ماورائے فطرت معلوم ہوتی ہے۔؟ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے جواب دیا کہ تمہارا ذہن مختلف راستے پر منتقل ہوگیاہے۔ تم الجھ کر رہ گئے ہو۔ قدرت کے مظاہرے اور درختوں کے جھکنے میں بھائی یہ واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عشق بتاتا ہے۔ کہ ان کی آنکھ یہ دیکھتی ہے ”اگر تمہیں عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھ نصیب ہو تو تم بھی دیکھو گے کہ دنیا ان کے سامنے جھک رہی ہے” (ماہنامہ فکر ونظر مارچ 1979ء رسالت مآب اور اقبال… رحیم بخش شاہیں)

جو لو گ علامہ ڈاکٹر محمد قبال کو متنازہ شخصیت بنانے کے لئے دن رات سازشیں کررہے ہیں وہ سن لیں ۔ا قبال ڈے کی چھٹی ختم کرنے سے نہ ملک نے ترقی زیادہ کرنی ہے نہ تعلیم و تربیت میں فرق آنا ہے۔ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال مان لیتے ہیں کوئی فرشتہ نہیں انسان ہیں مگر آپ کی اعلیٰ بصیرت کو سمجھنے کے لئے حسد اور بغض کی عینک اتارنا ہوگئی ۔ انصاف کا تقاضہ ہے کہ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کی شخصیت کو اعلیٰ پائے کا وکیل شاعر ، مسلمانوں کا ترجمنان بلکہ اپنے وقت کے ولی اللہ ہے !

Father

Father

1938،اپریل 20، صبح ناشتے میں دلیے کے ساتھ چائے پی ـ میاں محمد شفیع سے اخبار پڑھوا کر سناـ حجام سے شیو بنوائی ـ شام:30 4. بجے بیرن جان وا لتھا ئیم ملنے آئے اُن کے ساتھ ڈیڑھ گھنٹے تک بات چیت کرتے رہے ـ شام کو اپنا پلنگ خوابگاہ سے اُٹھوا کر دالان میں بچھوایا ـ ایک گھنٹے بعد پلنگ گول کمرے میں لانے کو کہا ـ وہاں حسبِ عادت منیزہ اُن کے بستر میں گھس کر اُن سے لپٹ گئی ـ اُس رات معمول سے ہٹ کر زیادہ دیر اُن کے ساتھ رہی ـ جب اُس کو ہٹنے کے لیے کہا گیا تو وہ نہ ہٹی ـ اس پر انہوں نے انگریزی میں کہا اُسے اُس کی حِس آگاہ کر رہی ہے کہ شاید باپ سے یہ آخری ملاقات ہے!

اس کے وہاں سے چلے جانے کے بعد فاطمہ بیگم، پرنسپل اسلامیہ کالج برائے خواتین نے ملاقات کی ـ رات تقریباّ 8 بجے چودھری محمد حسین، سید نذیر نیازی، سید سلامت اللہ شاہ، حکیم محمد حسن قرشی اور راجہ حسن اختر آ گئے ـ ڈاکٹروں کے بورڈ نے اُن کا معائینہ کیا ـ اُس رات وہ زیادہ ہشاش بشاش نظر آ رہے تھے ـ 11 بجے رات انہیں نید آ گئی لیکن گھنٹہ بھر سونے کے بعد شانوں میں درد کے باعث جلد بیدار ہوگئے ـ ڈاکٹروں نے خواب آوار دوا دینے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ دوا میںنشہ کے اجزا ہیں اور مَیں بے ہوشی کے عالم میں مرنا نہیں چاہتا ـ رات 3 بجے کے قریب اُن کی حالت اچانک پھر خراب ہو گئی ـ انہوں نے اپنا پلنگ گول کمرے سے واپس خواب گاہ میں رکھوایا

1938ئ،اپریل 21، بروز جمعرات صبح ڈاکٹر عبدالقیوم اور میاں محمد شفیع فجر کی نماز ادا کرنے مسجد گئے ہوئے تھے تو انہیں پھر شدید درد ھوا جس پر انہوں نے اللہ اکبر کہا اور پھر…5 بجکر 14 منٹ پر … اللہ کو پیارے ہوگئے … انا للہ و انا الیہ راجعون ـ 5 بجے شام جاوید منزل سے جنازہ اُٹھایا گیا ـ اسلامیہ کالج کے گراونڈ میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی ـ سیالکوٹ سے شیخ عطا محمد رات نو بجے کے بعد لاھور پہنچے ـ پونے دس بجے رات سپردِ خاک کر دئیے گئے۔۔۔۔یہ تھی موت مرد قلند علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کی ۔  علامہ اقبال کے والد کو صوفیاء اور علماء کی محفلوں میں بیٹھنے کا شوق تھا۔ وہ شریعت اور طریقت کے رموز سے آگاہ تھے۔

Mother

Mother

علامہ اقبال کی والدہ محترمہ امام بی بی ان پڑھ ہونے کے باوجود ایک مدبر، نیک صفت اور معاملہ فہم خاتون تھیں۔ غریب پروری ان کی نتھو رام نامی شخص نے انگریزی زبان میں تاریخ اسلام کے نام سے کتاب لکھی اور اس میں حضور ۖ کی شان میں نا زیبا تبصرہ کیا۔مسلمانوں نے اس شاتم رسول کے خلاف قانونی چارہ جوئی کیا، مگر نتیجہ صفر رہا۔ ہزارہ کے ایک نوجوان عبد القیوم کو اس گستاخانہ مذبوحی حرکت کی خبر ملی، اس کی ایمانی غیرت وحمیت کے سمندر میں وہ جوش آیا کہ اس نے عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران ہی دھاردار چاقوسے اس گستاخ رسول پر حملہ کردیا اور موقع پر ہی اس کا قصہ تمام کردیا۔ عبد القیوم کو سزائے موت ہو گئی، مسلمانوں کے ایک وفد نے ان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرانے کے لیے ڈاکٹر علامہ اقبال سے در خواست کی اگر وہ اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کریں تو وائسرائے سے مل کران کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کراسکتے ہیں۔آپ نے وفد کی باتیں سن کر یہ دریافت کیا کہ کیا عبد القیوم کمزور پڑ گیا ہے؟۔

وفد کے ارکان نے کہا کہ عبد القیوم کمزور کیوں پڑتا، اس نے تو عدالت میں ہر بار اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے اور وہ علی الاعلان یہ کہتا ہے کہ میں نے شہادت اپنی زندگی کی قیمت پر خریدی ہے۔ یہ سن کر علامہ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور کہنے لگے:”جب وہ (عبد القیوم) کہہ رہا ہے کہ میں نے شہادت خریدی ہے تو میں اس کے اجر وثواب کی راہ میں کیسے حائل ہو سکتا ہوں؟ کیا تم یہ چاہتے ہوکہ میں ایسے مسلمان کے لیے وائسرائے کی خوشامد کروں جو ” زندہ رہا تو غازی ہے اور مر گیا تو شہید ہے۔”اور جب راج پال نامی شخص نے لاہور میں آپ ۖ کی شان اطہر میں بد زبانی کی۔ انگریزوں کی عدالت نے اس کو بھی قرار واقعی سزاکا مستحق نہیں گردانا۔ آخر غازی علم الدین شہیدکی غیرت ایمانی نے جوش مارا اور اس گستاخ رسول کو جہنم رسید کردیا۔ انھیں بھی عدالت نے سزائے موت دی۔ محبت رسول کی راہ میں پروانہ وار اپنی قیمتی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے ان شہیدوں کی قربانی نے علامہ کو بہت متأثر کیا اور ”لاہور اور کراچی” کے عنوان سے تین اشعار پر مشتمل قطعہ کہہ کر ان شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا:۔

ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدر وقیمت میں ہے خون جن کا حرم سے بڑھ کر
آخرمیں اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال سچے پکے عاشق ِ رسول اللہ ۖ تھے۔ جو لوگ علامہ اقبال سے بغض رکھتے ہیں ان کا یہ فتنہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا ”غالبا 1929ء کا واقعہ ہے کہ انجمن اسلامیہ سیالکوٹ کا سالانہ جلسہ تھا۔ علامہ اقبال اس جلسے کے صدر تھے۔ جلسے میں کسی خوش الحان نعت خواں نے مولانا احمد رضا صاحب کی ایک نظم شروع کردی۔ ایک مصرعہ یہ تھا۔ خدا کی رضا چاہتے ہیں دوعالم    خدا چاہتا ہے رضائے محمدۖ نظم کے بعد علامہ اقبال اپنی صدارتی تقریر کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور تجالاً ذیل کے دو شعر ارشاد فرمائے۔
تماشہ تو دیکھو کہ دوزخ کی آتش
لگائے خدا اور بجھائے محمدۖ

Dr Tasawar Hussain Mirza

Dr Tasawar Hussain Mirza

تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا