تحریر: احمد نثار کائنات اللہ کی ایک ادنی تخلیق ہے۔ اسی کائنات کو یونیورس بھی کہا جاتا ہے۔ کچھ وسیع پیمانے پر نظر رکھنے والے علمی متوالے اس کائنات کو اس مکمل ہیئتِ کائنات تصور کرتے ہیں۔ اس عظیم کائنات میںلاکھوں گیلکسیز اور دودھیا راستے ہیں۔ ایک گیلکسی میں عربوں ستارے ہیں۔ ہمارا سورج بھی ایک ستارہ ہے۔ اس گیلکسی کے وسیع حلقہ میں ہمارے سورج کا خاندان یا نظام شمسی ایک ادنیٰ سا نقطہ برابر مقام ہے۔ نظامِ شمسی کو یوں تصور کرلیجے کہ یہ ایک فُٹ بال گرائونڈ برابر کا علاقہ ہے، جس کے بالکل درمیان میں ایک فٹ بال رکھا ہوا ہے، اس فٹ بال کو سورج سمجھ لیں۔ اس فٹ بال کے گرد ایک مکھی گھوم رہی ہے، وہ مکھی ہماری زمین ہے۔
اب پھر سے آئیں گے نظام شمسی کی طرف، سورج اور اسکے اطراف گھومنے والے سیارے، ذیلی سیارے، سیارچے، بونے سیارے، دُمدار تارے (حقیقت میں تارہ نہیں، ایک فلکیاتی جسم جو نظام شمسی کا رکن ہے اور اس کی لمبی دُم جو دھویں اور پانی کی رطوبت سے بنی ہے)، آسٹیرائڈ اور پلانٹائڈ بیلٹ، کوپر بیلٹ اور سکیٹرڈ (پھیلا ہوا یا پھینکا ہوا بیلٹ) وغیرہ کو ملا کر نظام شمسی یا سولار سسٹم کہتے ہیں۔
Planets
سورج کے اطراف گھومنے والے سیاروں کی تعداد ٩ تھی، مگر پلوٹو کو خارج کر اس عدد کو ٨ بنادیا گیا۔ وجہ یہ ہے کہ پلوٹو میں وہ تمام خواص نہیں ہیں جو ایک سیارے میں ہونی چاہئے۔ اس لیے اس کو بونے سیاروں کی فہرست میں ڈالا گیا، جس میں اس کا نمبر دوسرا ہے۔ یہ باتیں صرف وضاحت کے لیے تھیں اس بات کی طرف متوجہ ہونے کے لیے کہ ان سیاروں کی مداری گردشوں کی مدتیں کیا ہیں۔ اب آئیے یہ دیکھیں کہ ان سیاروں (پلوٹو کو بھی گنا گیا ہے تاکہ یہ بھی کبھی سیارہ کہلاتا تھا) کی مداری گردشوں کی مدت کیا ہے۔ سورج کے اطراف فلکیاتی اجسام کی، کی جانے والے گردش کو مداری گردش کہتے ہیں۔ مثلاً زمین سورج کے اطراف گردش کرنے کو مداری گردش کہتے ہیں، اس مداری گردش کے لیے زمین کو ایک سال یعنی ٢٥٦.٣٦٥ دن لگتے ہیں۔ یہ سارا حساب زمین کو اساس بنا کر کیا جاتا ہے۔
آئیے اب یہ دیکھیں کہ دیگر فلکیاتی اجسام بالخصوص سیاروں کو مداری گردش کے لیے درکار مدت کیا ہوتی ہے۔ بالا جدول کو درج کرنے کا اہم مقصد یہ ہے کہ ہم یہ جانیں کہ انسان کی عمر اور اِن فلکیاتی اجسام کی مداری گردشوں کا توازنہ کریں اور یہ دیکھیں کہ کائنات میں اِن فلکیاتی اجسام کی مدت مداری گردش کیا ہے اور انسان کی مدت حیات کیا ہے۔
Planets Revolution
٭ فرض کیجئے کہ انسان دنیا میں پچاس سال کی عمر پایا ہے۔ اس کا مطلب یوں نکالیں کہ اس انسان کی عمر کے دوران زمین سورج کے اطراف اپنی ٥٠ مداری گردشیں مکمل کیں، یعنی ٥٠ مرتبہ سورج کے اطراف گردش کرتی ہے۔ ) عجیب بات یہ ہے کہ، فرض کیجئے ایک انسان ٨٤ سال کی عمر پائی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مدت میں زمین سورج کے اطراف ٨٤ مرتبہ گردش کی اور یورینس نے سورج کے اطراف ایک گردش مکمل کی۔ مزے کی بات کی طرف جائیں تو انسان کی زندگی کا طول سمجھ میں آئے گا تعجب بھی ہوگا اورعبرت بھری لمبی سانس بھی لیں گے کہ آخر انسان کی عمر کا طول کیا ہے۔ ٭ فرض کیجئے کہ ایک انسان ٨٢ سال کی عمر پائی، اس مدت میں نپچون اپنی مداری گردش صرف آدھی مکمل کرتا ہے۔ ٭ اگر کوئی انسان ٦٢ سال کی عمر پائی تو اس مدت میں پلوٹو صرف ایک چوتھائی مداری گردش پوری کرتا ہے۔ ٭ اگر کوئی انسان اپنی عمر ٥٦ سال کی پائی تو اس مدت میں 136199 ایرس اپنی ایک دہائی 1/10مداری گردش ہی پوری کرتا ہے۔ ٭ سورج سے دور ایک فلکیاتی جسم 90377سیڈنا، اپنی مداری گردش 12050میں پوری کرتا ہے۔ یعنی اگر کوئی انسان ٦٠ سال کی عمر پایا تو اس مدت میں یہ سیڈنا اپنی مدار کا ٢سوواں حصہ ہی طے کرے گا۔ فرض کیجئے کہ حضرت ابراہیم آج سے چار ہزار سال قبل دنیا میں تشریف لائے، تو اس مدت میں یہ سیڈنا اپنی مدار کا ایک تہائی حصہ ہی پورا کیا۔ نہ جانے یہ سیڈنا اس کی تخلیق سے لے کر آج تک اپنی کتنی لاکھوں مداری گردشیں پوری کرچکا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
یہ ہیں فلکیاتی اجسام۔ انسانی عمر اور ان فلکیاتی اجسام کی مداری گردشوں کا توازنہ کریں تو انسان کی زندگی کتنی قلیل لگتی ہے!!! گویا کہ مغلیہ سلطنت کے بابر سے لے کر اورنگزیب کی حکمرانی کا دور وہ دور ہے جس میں پلوٹو اپنی ایک مداری گردش پوری کر لیتا ہے!!! ہمارا نظام شمسی اللہ پاک کی تخلیق کردہ کائنات کا ادنیٰ سا حصہ ہے۔گویا یوں لگتا ہے،
عمرِ قلیل مانگ کے لائے تھے ایک دن اِک صبح دیکھنے میں یونہی شام ہوگئی
Ahmed Nisar
تحریر: احمد نثار مہاراشٹرا، انڈیا E-mail : ahmadnisarsayeedi@yahoo.co.in