تحریر: میاں عبدالوحید ایڈووکیٹ میرٹ کی پاسداری ، قانون کی حکمرانی اور قوائد و ضوابط کی پاسداری دعوے جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ ضلع نیلم میں لاقانونیت کی انتہا کر دی گئی ہے۔ سپیکر اسمبلی عدالتی امکانات کو دانسہ طور پر پامال کر رہے ہیں۔ اور سیکرٹریٹ تعلیم کے آفیسران سپیکر اسمبلی کے ایماء پرغیر قانونی امکانات جاری کر کے عدالتی احکامات کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔ ریاست میں لاقانونیت کا راج اور قانون کی پاما لی کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیر اعظم ، چیف سیکرٹری اور وزیر تعلیم یا تو آئین اورقانون کی پاسداری کے دعوے چھوڑیں یا عدالتی فیصلوں کا احترام کریں۔ سپیکراسمبلی کو لگام نہ دی گئی تو مجبوراً انہیںروکنے کے لیے راست اقدام کرنا پڑے گا۔ سیکرٹریٹ تعلیم سپیکر اسمبلی کے ایجنٹ کے طور پر کام کرنا بند کرے ، عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرنے والے آفیسران کے خلاف کاروائی کریں گئے۔ احتساب بیورو ان آفیسران کے خلاف کاروائی کرے۔
محمد اشراف نسیم DEOنیلم مردانہ 03.06.2016کو تعینات ہوئے اس آفیسرنے بطور DEOتعیناتی کے تحفظ اور مزید تبادلہ نہ کیے جانے کے سلسلہ میں عدالت العالیہ میں رٹ پٹیشن دائر کر رکھی تھی۔ جس پر عدالت العالیہ نے مورخہ28.07.2016کو States quo(صورت موقع بحال رکھے جانے کا حکم) جاری کیا سیکرٹری تعلیم نے اس حکم کی علمیت کے باوجود نوٹیفکیشن نمبر9052-62 مورخہ09.09.2016کو مسٹر عبد السلام ڈار AEOکو تعینات کیا ۔ محمد اشرف نسیم نے اس حکم کو سروس ٹربیونل میں چیلنج کیا۔ سروس ٹربیونل نے مورخہ17.09.2016 کو نوٹیفکیشن مورخہ09.09.2016معطل کر دیا ۔ اسطرح محمد اشرف نسیم از خود بعد از DEOبحال ہوا۔ سپیکراسمبلی کے دبائو پر سیکرٹریٹ تعلیم نے بدنیتی سے سروس ٹربیونل کے متذکرہ حکم کو غیرموثر بنائے اور سپیکر اسمبلی کی مذموم خواہشات کی تکمیل میں سروس ٹربیونل کے فیصلہ کے محض دو دن بعد اشرف نسیم کو غیر حاضری کے الزام میںمعطل کر دیا اور عبدالسلام ڈار کو DEOآفس کا آفیسر زر برار مقرر کیا تاکہ وہ DEOآفس پر قابض رہے۔ ا نکوائری آفیسر نے اپنی رپورٹ میں قرار دیا کہ اشرف نسیم غیر حاضر نہیں تھا بلکہ فیلڈ وزٹ پر تھا۔ سیکرٹریٹ کے متذکرہ حکم 19.09.2016کو اشرف نے عدالت العالیہ میں چیلنج کیا۔ سیکرٹری تعلیم نے عدالت میں بیان جمع کروایا۔ ا نکوائری رپورٹ کی روشنی میں اشرف نسیم کو بحال کیا جا رہا ہے۔ عدالت نے بروئے حکم مصدرہ 28.10.2016نوٹیفکیشن معطلی محمد اشرف نسیم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انکوئرای رپورٹ کی روشنی میں15ایام کے اندر مزید کاروائی کی ہدایت کی سیکرٹریٹ تعلیم اس عدالتی حکم کی رو سے محمد اشرف نسیم کو صرف ملازمت پر بحال کر سکتے تھے۔
Suspension Notification
بلکہ انہیں لازم تھا کہ نوٹیفکیشن معطلی فیصلہ مورخہ 19.09.2016 کو منسوخ کرتے لیکن انہوں نے ایک بار پھر سپیکر اسمبلی کی خوشنودی کے لیے نوٹیفکیشن مورخہ19.09.2016کے بجائے اشرف نسیم کو بحال کرتے ہو ئے بروئے نوٹیفکیشن 04.11.2016ہائی سکول سرگن تبدیل کیا۔ واضح رہے کہ سیکرٹری تعلیم کے خلاف ابتدائی حکم تعیناتی عبد السلام ڈار طور DEOجاری کرنے پر عدالت العالیہ میں ہی توہین عدالت کی کاروائی بھی جاری ہے۔ لیکن چونکہ اس درخواست عدالت العالیہ نے کوئی ٹھوس کاروائی نہں کی اس لیے اس صورتحال سے حوصلہ پاتے ہوئے سیکرٹری تعلیم سکولز نے ایک بار پھر عدالت العالیہ کے states quoمورخہ28.07.2016 سروس ٹربیونل کے حکم مورخہ17.09.2016اور عدالت العالیہ کے آخری حکم مورخہ28.10. 2016 کو دانستہ طور پر پامال کرتے ہوئے سپیکر اسمبلی کے ناجائز خواہشات کی تکمیل میں مورخہ04.11. 2016 کو محمد اشرف نسیم کو تبدیل کر دیا۔
متذکرہ بالا صورتحال سے بالا شک و شبہ واضح ہے کہ حکومت میرٹ ، رول، انصاف قانون کی حکمرانی کے جھوٹے دعوے کر رہی ہے۔ یا پھر وزیر اعظم آزاد کشمیر کو صورتحال سے لاعلم رکھا جا رہاہے۔ سیکرٹریٹ تعلیم کا فرض ہے کہ قانون اور ضا بطہ کے مطابق تجاوز کو پراسس کرے۔ کوئی بھی تجویز جو وزیر اعظم اور وزیر اتعلیم کی جانب سے بھی آئے تحت ضابطہ متعلقہ دفاتر سے پراسس ہوئے چاہئے ۔ اس کے بعد احکامات جاری ہو سکتے ہیں۔ لیکن سیکرٹریٹ تعلیم لاقانونیت کا گڑھ بن چکا ہے۔ ممبران اسمبلی کی چٹوں پر آفیسران کے تبادے جاری ہو رہے ہیں۔ سیکرٹریٹ سے جاری ہونے والے جملہ احکامات مروجہ طریقہ کار کے مغائر ،ممبران اسمبلی کے براہ راست احکامات کے تحت جاری ہو رہے ہیں۔ جو غیر قانونی ہیں سیکرٹریٹ کے آفیسران اس لاقانیت پر سخت تادیبی کاروائی کے مستحق ہیں۔
Violation
حکومت کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اپنی پسندگی ٹیم مستحب کرنے کا حق ہے لیکن عدالتی احکامات پامالی اور قانون کی خلاف ورزی کا استحقاق نہیں ہے۔حکومت مسلسل عدالتی احکامات کو پانے حقارت سے ٹھکرار رہی ہے۔ محمد اشرف نسیم کا اس کی واضح مثال ہے۔ اشرف نسیم نے محکمہ تعلیم کی لاقانیت کے خلاف سروس ٹربیونل اور عدالت العالیہ سے رجوع کر رکھا ہے۔اور عدالتوں نے احکامات بھی دے رکھے ہیں لیکن سیکرٹریٹ تعلیم کے آفیسران سب فیصلوں اور قانون سے بالاتر مخلوق ہیں جو ہر دوسرے دن عدالتی فیصلہ جات کی تحقیر کرتے ہیں اور تذلیل کرتے نظر آتے ہیں۔ اس صورت حا ل پر جناب وزیر اعظم ، وزیر تعلیم ااور چیف سیکرٹری سے نوٹس لینے کا مطالبہ کرتا ہوں کہ ہم کسی ملازم یا آفیسر کو اسکی پسند کی جگہ پر جبراً قابض رکھنے کے حق میں نہیں ہیں لیکن دھونس د ھاندلی کی اجازت بھی نہیں دے سکتے اور نہ عدالتی احکامات ، قانون اور قواعد کی خلاف وورزی کی اجازت دی گئی اور نوٹیفکیشن مورخہ04.11.2016کو فوری طور پر منسوخ کیا جائے۔ اور اشرف نسیم کو DEOکی اسامی پر بحال کیا جائے۔ عدالت العالیہ اور سروس ٹربیونل کی جا نب سے ا س معا ملہ میں جو بھی حتمی فیصلہ ہو اس پر عمل کیا جائے۔
واضح رہے کہ مورخہ 19.09.2016سے عبد السلام ڈارDEOنہیں رہے یا رہے اسکے باوجود وہ بطور DEOکا م کر رہے ہیں جو واضح خود پر بدمعاشی ا و رغنڈہ گردی اور عدالتی احکامات کی تذلیل کے مترادف ہے عبد السلام ڈار19.09.2016سے اپنی جائے تعیناتی پرنسپل ہائر سیکنڈری سکول لوات سے غیر حاضر ہے۔ اس کے خلاف انضباطی کاروائی کی جائے، کیونکہ اس کی بطور DEO تعیناتی کا حکم سروس ٹربیونل سے معطل ہے۔ اور مورخہ 20 .09. 2016 سے اپنی اصل جائے تعیناتی پر حاضر ہونا چاہئے تھا۔ فیلڈ آفیسران عبد السلام ڈار کے احکامات کی تعمیل نہ کریں کیونکہ ان کے تمام احکامات کا نوٹس جائے گا۔ سیکرٹریٹ تعلیم کے افیسران با لخصوص سیکرٹری تعلیم، ایڈیشنل سیکرٹری تعلیم اور ڈپٹی سیکرٹری تعلیم کے غیر قانونی احکامات اور اقدامات کا چیف سیکرٹری نوٹس لیں اور ان کے خلاف انضباطی کاروائی کریں اور احتساب بیورو بطور پبلک آفس ہولڈر متذکرہ آفیسران کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال کا پاداش میں کاروائی کرنے ،عدالت العالیہ ان آفیسران کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کرے اگر کوئی ادارہ یا حکومت اس لاقانونیت کا نوٹس نہیں لیتی تو ہم خود راست اقدام پر مجبور ہو نگے ایسی صورت میں حالات کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر ہو گی۔
Mian Abdul Waheed Advocate
تحریر: میاں عبدالوحید ایڈووکیٹ سابق وزیر تعلیم سکولز