تحریر : ساجد حبیب میمن سندھ کے عظیم صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کی ولادت 18 نومبر 1689ء (1101ہجری) میں موجودہ ضلع مٹیاری کے قصبے ہالا میں ہوئی۔ آپ کے والد سید حبیب شاہ ہالا حویلی میں رہتے تھے اور موصوف کا شمار اس علاقے کی برگزیدہ ہستیوں میں تھا۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے آباؤ اجداد سادات کے ایک اہم خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کا سلسلۂ نسب حضرت علی رضی اللہ عنہ اور رسول خدا حضرت محمد مصطفی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچتا ہے۔
امیر تیمور کے زمانے میں ہرات کے ایک بزرگ سید میر علی بہت سی خوبیوں کے مالک تھے ۔ اور آپ کا شمار اس علاقے کے معزز ترین افراد میں ہوتا تھا۔ 1398ء ، 2ـ801ھ میں جب امیر تیمور ہرات آیا، تو سید صاحب نے اس کی اور اس کے ساتھیوں کی بڑی خاطر و تواضع کی، ساتھ ہی بڑی رقم بطور نذرانہ پیش کی۔ تیمور اس حسن سلوک سے متاثر ہوا۔ سید صاحب اور ان کے دو بیٹوں میر ابوبکر اور حیدرشاہ کو مصاحبین خاص میں شامل کر کے ہندوستان لے آیا۔ یہاں آنے کے بعد میر ابوبکر کو سندھ کے علاقے سیہون کا حاکم مقرر کیا۔ اور سید میر علی اور حیدر شاہ کو اپنے ساتھ رکھا۔ بعد میں سید حیدر شاہ بھی اپنے والد بزرگوار اور تیمور کی اجازت سے گھومتے پھرتے مستقل طور پر سندھ میں آ گئے اور ہالا کے علاقے میں شاھ محمد زمیندار کے مہمان ہوئے ۔ شاہ محمد نے آپ کی کچھ اس طرح خدمت کی کہ وقتی راہ و رسم پر خلوص محبت میں بدل گئی۔ کچھ دنوں بعد اس نے اپنی لڑکی فاطمہ کی شادی آپ سے کر دی۔
چونکہ آپ کی ماں کا نام بھی فاطمہ تھا ، اس لئے شادی کے بعد اس نام کو سلطانہ سے بدل دیا گیا۔سید حیدر شاہ قریب قریب تین سال تک ہالا میں رہے پھر اپنے والد کی وفات کی خبر سن کر ہرات گئے جہاں تین چار سال تک رہنے کے بعد وہیں وفات پا گئے ۔ کہتے ہیں جب سید صاحب ہرات روانہ ہوئے تو آپ کی اہلیہ حاملہ تھیں انھوں نے چلتے وقت یہ وصیت کی تھی کہ اگر میری عدم موجودگی میں بچہ پیدا ہوا تو لڑکا ہونے کی صورت میں اس کا نام میر علی اور لڑکی ہو تو فاطمہ رکھا جائے ۔ چنانچہ لڑکا پیدا ہوا اور وصیت کے مطابق اس کا نام میر علی رکھا گیا۔ میر علی کے خاندان میں بڑے بڑے صاحب کمال بزرگ پیدا ہوئے ، ان بزرگوں میں شاہ عبداللطیف بھٹائی کے علاوہ، شاہ عبدالکریم بلڑی وارو، سیدہاشم اور سید جلال خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
Shrine of Shah Abdul Latif Bhittai
شاہ صاحب کی پیدائش کے متعلق مشہور ہے کہ سید حبیب شاہ نے یکے بعد دیگرے تین شادیاں کیں لیکن اولاد سے محروم رہے ۔ آپ نے اپنی اس محرومی کا ذکر ایک درویش کامل سے کیا، جن کا اسم گرامی عبداللطیف بتایا جاتا ہے۔ موصوف نے دعا کرتے ہوئے کہا کہ انشاء اللہ آپ کی مراد بر آئے گی۔ میری خواہش ہے کہ آپ اپنے بیٹے کا نام میرے نام پر عبداللطیف رکھیں۔ خدا نے چاہا تو وہ اپنی خصوصیات کے لحاظ سے یکتائے روزگار ہو گا۔ سید حبیب شاہ کی پہلی بیوی سے ایک بچہ پیدا ہوا۔ درویش کی خواہش کے مطابق اس کا نام عبداللطیف رکھا گیا۔ لیکن وہ بچپن میں ہی فوت ہو گیا۔ پھر اسی بیوی سے جب دوسرا لڑکا پیدا ہوا تو اس کا نام پھر عبداللطیف رکھا گیا۔ یہی لڑکا آگے چل کر درویش کی پیشن گوئی کے مطابق واقِعی یگانہ روزگار ہوا۔ یہ زمانہ سندھی ادب کا سنہری دور تھا۔ شاہ عبد اللطیف رحمةُاﷲعلیہ نے ابتدائی تعلیم نُورمحمد بھٹی سے حاصل کی جو بھٹ شاہ بارہ میل دور گاؤں وائی کے رہنے والے اور مشہور مُدرس تھے۔ آپ نے اپنے والد شاہ حبیب رحمةُاﷲعلیہ سے دینی تعلیم حاصل کی ـشاہ عبداللطیف بھٹائی کو عربی، فارسی، قرآن اور حدیث پر مکمل عبور حاصل تھا۔
مولانا جلال الدین رومی کی مثنوری اور شاہ کریم کی نظمیں ان کی مستقل ساتھی تھیں جن کا حوالہ ان کی ‘شاہ جو رسالو ” سے ملتا ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام کو ”شاہ جو رسالو” کا نام دیا گیا ہے۔ شاہ جو رسالو کے مختلف چیپٹرز ہیں جنہیں سُر کہا جاتا ہے۔ ان سُروں کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔ سر کلیان، اس سر میں رب تعالیٰ کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے ۔ سر یمن کلیان، اس سر میں رب تعالیٰ کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے ۔سر کھنبھاٹ، سر سریراگ، سر سامونڈی، اس سر میں ملاحوں کی ہمت و حوصلا بیان کیا گیا ہے ۔ سر سھنی ، اس سر میں سھنی میھار کا قصا بیان کیا گیا ہے ۔ سر سسئی آبری، اس سر میں سسئی پُنوں کا قصہ بیان کیا گیا ہے ۔سر معذوری، سر دیسی، سر کوہیاری ،سر حسینی، اس سر میں حضرت حسین کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔
سر لیلا چنیسر، اس سر میں لیلا چنیسر کا قصہ بیان کیا گیا ہے ۔سر مومل رانو، اس سر میں مومل رانو کا قصہ بیان کیا گیا ہے ۔سر مارئی، اس سر میں عمر مارئی (ماروی) کا قصہ بیان کیا گیا ہے ۔ سر کاموڈ،سرگھاتو، اس سر میں ملاحوں کی ہمت حوصلے کا قصہ بیان کیا گیا ہے ۔سر سورٹھ، اس سر میں سورٹھ اور بادشاھ رائے ڈیاچ کا قصہ بیان کیا گیا ہے ۔ سرآسا، سر رپ، سر کھاھوڑی، سر بروو سندھی،سر رامکلی، اس سر میں جوگی فقراء کا قصہ بیان کیا گیا ہے ۔ سر کاپائتی، سر پورب، سر کارایل، سر پربھاتی،سر ڈھر اور سربلاول۔ شاہ عبداللطیف اپنی نظموں میں سندھ ، اس کے قرب و جوار اور دور دراز علاقوں کے بارے میں لکھتے ہیں۔ وہ استنبول اور سمرقند بارے لکھتے ہیں، سندھی ملاحوں کی ہنرمندی، حوصلے اور سفر کی داستانیں رقم کرتے ہیں۔ وہ اکثر اپنا وقت تنہائی میں گزارتے اور انسان کے وجود کی تخلیق، اس کے مقصد، خالق کے ساتھ تعلق اور انسان کی آخری منزل بارے سوچتے رہتے۔ ان کی اسی سوچ نے انہیں متقی اور پرہیزگار بنائے رکھا اور ان کی شاعری میں قدرت اور انسان کے تعلق کا رشتہ جوڑے رکھا۔ انہوں نے سچ کی جستجو میں سندھ کے بیشتر علاقوں کا سفر کیا ، جوگیوں اور سنیاسیوں سے ملے، میدانوں، صحرائوں اور پہاڑوں کی خاک کو چھانا اور آخر کار سچ تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اور اس سچ کا عکس ان کی شاعری میں پیار ، محبت، اپنے خالق سے لگائو، تقویٰ و پرہیزگاری اور اس کی کامل بندگی کی صورت میں نظر آتا ہے۔
Shah Abdul Latif Bhittai Poetry
شاہ لطیف کی شاعری عشق حقیقی کا مظہر اور معرفت الٰہی کا بہترین نمونہ ہے۔ آپ نے اپنی شاعری میں وحدانیت و محبت کا عظیم درس دیا ہے۔شاہ لطیف کا ’’سرسری راگ‘‘ سندھ کی سیاست پر مبنی اس وقت کے اور آج کے سیاسی حالات کا حقیقی منظر نامہ پیش کرتا ہے ، شاہ لطیف اپنے عہد میں انگریزوں کی آمد اور ان کے خطرناک عزائم کی نشاندہی اپنی شاعری میں بیان کرتے رہے ،انہوں نے اپنی شاعری میں سندھ کی دھرتی کو کشتی سے تشبیہہ دی ہے ، سندھ کے حکمرانوں کو اپنے استعارے کی زبان میں اس بات کی تلقین کی ہے کہ اگر سمندر کی موجوں سے اس کشتی کو محفوظ رکھنا اور بچانا ہے تو ان باتوں کا خیال ضرور رکھنا کہ یہ کشتی پرانی ہو چکی ہے ، سمندر کی تیز و تند موجوں کا اب یہ کشتی مقابلہ نہیں کر سکتی، کشتی کی پچھلی طرف سے چور داخل ہو رہے ہیں لہٰذا غفلت کی نیند سے جاگنا اور کشتی کو بچانا ضروری ہے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کو “ست سورمیون کا شاعر” بھی کہا جاتا ہے یعنی سات شہزادیوں کی داستانیں بیان کرنے والا شاعر۔ اور ان کو سندھ کا مولانا روم بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی شاعری انسان کے بنیادی وجودی سوالات کا جواب دینے کے علاوہ سندھی معاشرت کو برداشت، امن اور پرامن بقائے باہمی کا گہوارہ بنانے کا بھی باعث ہے ۔ سندھی جبروابتلاء کے ہر دور میں شاہ جو رسالو کی ابیات گنگناتے اپنی دھرتی اور انسان سے محبت کا پیغام پھیلاتے رہے ہیں۔شاہ عبداللطیف کی شاعری میں اسلامی تعلیمات پر مبنی امن و محبت اور انسان دوستی کا لازوال آفاقی پیغام پایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آپ کی شاعری ’’قومی ورثہ‘‘ کا درجہ رکھتی ہے ، آپ کے عارفانہ اور صوفیانہ طرز کلام میں انسانوں خصوصاً سندھ کی عوام کے لیے امن و سلامتی، بہادری، جرأت اور انسان دوستی کا وہ واضح پیغام ہے جس نے شاہ صاحب کو نہ صرف سندھ بلکہ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے زندہ جاوید کر دیا ہے۔ آپ 1165ھ بمطابق 1755 عیسویں 63 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ، ہر سال 14 صفر کو بھٹ شاہ میں آپ کا سالانہ عرس بڑی عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے ۔ اس موقع پر سندھ بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے ۔اس سال بھی سندھ حکومت نے 15 نومبر کو شاہ عبداللطیف بھٹائی کے عرس کے موقع پر صوبہ میں عام تعطیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔
Sajid Habib Memon
تحریر: ساجد حبیب میمن موبائل: 0321-9292108 ای میل: sadae.haq77@gmail.com