واشنگٹن (جیوڈیسک) عراقی فوج نے بتایا ہے کہ داعش کے شدت پسندوں سے نمرود شہر کا قبضہ خالی کرا لیا گیا ہے۔
مشترکہ کارروائی کی عراقی کمان نے کہا ہے کہ ”عراقی فوج کے 9ویں ڈویژن نے نمرود کو مکمل طور پر واگزار کرا لیا ہے اور دشمن کو بھاری جانی نقصان پہنچانے کے بعد، اُس کی عمارات پر عراقی پرچم بلند کیا گیا ہے”۔
نمرود قدیم شام کے دارالحکومت کے قریب واقع ہے، جس کے لیے حکومت عراق نے گذشتہ برس بتایا تھا کہ اُسے شدت پسندوں نے مسمار کر دیا ہے۔ فوری طور پر یہ معلوم نہیں ہو سکا آیا فوج نے آثار قدیمہ کے اس مقام کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔
اپریل، 2015ء میں داعش کے شدت پسندوں کی جانب سے مبینہ طور پر نمرود سے جاری کردہ وڈیو فوٹیج میں دکھایا گیا تھا کہ بجلی کی ڈرل مشینوں سے لوگ قدیم دیواروں کو گرا رہے ہیں، باقیات، مجسموں اور دیگر نادر نمونوں کو تباہ کیا جارہا ہے۔
نمرود 30 کلومیٹر پر محیط خطہ ہے جو موصل کے جنوب میں واقع ہے، جس پر کنٹرول کے حصول کے لیے عراقی فوج اور خصوصی افواج داعش کے ساتھ نبردآزما رہی ہیں۔
اس کارروائی کا مقصد شدت پسندوں کو موصل اور اُس کے ہمسایہ شہروں سے نکال باہر کرنا تھا، جن پر سنی گروپ قابض رہے ہیں۔ یہ کارروائی عراقی حکومت اور اتحادی افواج کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔
حالانکہ حکومت نے کم از کم 100000 فوج اکٹھی کر رکھی تھی، کمان نے بتایا تھا کہ یہ لڑائی کئی دِن طویل ہو سکتی ہے۔
برگیڈیئر علی عبداللہ نے کہا ہے کہ ”ہدبا کے لیے ہماری حکمت عملی دھیرج سے کام لینے والی اور محتاط رہے گی، تاکہ ہم اہل خانہ تک پہنچ سکیں اور اُنھیں داعش کے چنگل سے آزاد کرا سکیں”۔
ناروے کی پناہ گزینوں سے وابستہ تنظیم نے اتوار کے روز بتایا ہے کہ 50000 سے زائد افراد بے گھر ہو کر نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ کم از کم 700000 افراد کو پناہ، خوراک، پانی اور طبی امداد کی ضرورت پڑے گی۔