واشنگٹن (جیوڈیسک) نیٹو کے سکریٹری جنرل، ژاں اسٹولٹنبرگ نے کہا ہے کہ دفاعی اور سکیورٹی معاملات میں اکیلا رہنا امریکہ یا یورپ کسی کے لیے بھی مناسب راستہ نہیں ہے۔
انھوں نے یہ بات اتوار کے روز شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہی ہے۔ امریکی صدارتی انتخابی مہم کے دوران، نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر یورپ کے امریکہ کے اتحادی دفاع پر ضروری اخراجات میں ہاتھ نہیں بٹائیں گے تو اُنھیں چھوڑ دیا جائے گا۔
اسٹولٹنبرگ نے اخبار میں چھپنے والے مضمون میں کہا ہے کہ ”ہمیں اس نسل کا سکیورٹی کا سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے۔ یہ وقت نہیں کہ ہم یورپ اور امریکہ کے مابین ساجھے داری کی افادیت پر سوال کھڑے کریں”۔
اُنھوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ 11 ستمبر 2001ء میں امریکہ پر ہونے والے حملوں کے بعد ایک ہی دفعہ نیٹو کی اِس شق کی یاددہانی کی گئی تھی کہ کسی ایک رُکن ملک پر حملہ سبھی پر حملے کے مترادف ہے۔
شمالی بحرہ اوقیانوس کی دفاعی تنظم (نیٹو) کے کئی رُکن ممالک اپنے دفاعی اخراجات میں پیچھے ہیں، اور اس عہد پر پورے نہیں اترتے کہ وہ مجموعی قومی پیداوار کا 2 فی صد دفاع پر خرچ کریں۔ اور اسٹولٹنبرگ نے کہا کہ امریکہ کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ ارکان زیادہ اور مساوی حصہ ڈالیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ”ہمیں میسر ‘آزادی، سلامتی اور خوشحالی کو اہمیت نہ دینا آسان بات لگتی ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ اِن غیر یقینی حالات میں ہمیں مضبوط امریکی قیادت کی ضرورت ہے، اور چاہیئے یہ کہ یورپی ملک ذمہ داری پوری کرنے کے لیے، اپنا حصہ ڈالیں”۔
اُنھوں نے کہا کہ یورپ اور امریکہ کے درمیان ساجھے داری کی اہمیت ”ناگزیر” نوعیت کی ہے۔
بقول اُن کے، ”اپنے اختلافات کو بڑھانے کی جگہ، ضرورت اس بات کی ہے ہم اُن باتوں کو تقویت دیں جو ہمارے اتحاد کو مضبوط کرتی ہیں، اور مشترکہ حل کی جانب مل جل کر کام کرنے کے لیے درکار دانش مندی اور دوراندیشی تلاش کی جائے۔ اکیلا رہ کر عمل کرنا بہتر راستہ نہ ہوگا، نا یورپ کے لیے ناہی امریکہ کے لیے”۔