تحریر : سید توقیر زیدی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان خاندانی فوجی ہیں کہ ان کے بھائی اور دادا بھی فوجی تھے اور اب بھی متعدد عزیز و اقارب فوج میں ہیں۔ اس لئے ان کو قریبی شخصیت ہی گردانا جاتا ہے۔ یوں بھی وہ لئے دیئے رہتے ہیں اور تکلف سے کام لیتے ہیں، اسلام آباد راولپنڈی کے میڈیا سے ان کے تعلقات اچھے سمجھے جاتے ہیں۔ دوسرے شہروں میں وہ میڈیا کو وقت ہی کم دیتے ہیں اپنے تعلقات دوستی، دشمنی،موافقت اور مخالفت میں بھی سخت گیر ہیں۔
پیپلزپارٹی کے حوالے سے انہوں نے اپنے نظریات کو کبھی چھپایا نہیں۔ حتیٰ کہ چودھری اعتزاز احسن سے بھی ٹکر لی اور اب انہوں نے براہ راست بلاول بھٹو زرداری کو بچہ اور ناسمجھ قرار دیتے ہوئے یہ بھی انکشاف کیا کہ وہ اس پارٹی کے ان لوگوں کو جانتے ہیں جو بلاول کو ایسے سبق دیتے ہیں جن کی وجہ سے وہ اپنے سے بڑے اور والد کی عمر جتنے رہنماؤں کا مذاق اڑاتے ہیں، جواب میں سینیٹر سعید غنی نے تو جو کہا سو کہا بختاور بھٹو نے بھی ٹوئٹ کر دیا اور وہ ویسا ہے جس پر چودھری صاحب کو غصہ آیا اب انہوں نے پیپلزپارٹی کے خلاف ایک مکمل پریس کانفرنس کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یوں یہ ایک نئی محاذ آرائی شروع ہو گئی ہے۔
ہم نے بلاول کی بعض باتوں پر خود بھی اعتراض کیا تھا لیکن چودھری نثار کو بھی تو خود پر کنٹرول رکھنے کی ضرورت ہے۔ روزنامہ ڈان میں سرل المیڈا کی خبر نے کافی ہنگامہ پیدا کیا اور اس کی تحقیق کے لئے ایک کمیشن بھی بنانا پڑا ہے۔ اب کمیشن نے اپنا کام شروع کیا ہے تو چودھری نثار نے بھی پریس کانفرنس میں کچھ کہا بلکہ انہوں نے تو کمیشن سے پہلے فیصلہ ہی سنا دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں ”یہ خبر سیکیورٹی لیک نہیں، خبر بنائی گئی ہے” ان کے ان الفاظ کا مفہوم تو براہ راست سرل المیڈا اور مذکورہ اخبار کو ذمہ دار ٹھہرانا ہے۔
اگر یہ بات ہے تو پھر اس کمیشن کی کیا ضرورت تھی؟ جس کی مخالفت سی پی این ای نے کسی حوالے سے ظاہر کی اور پریس کونسل آف پاکستان کے جنرل اجلاس میں بھی یہ قرار دیا گیا ہے کہ یہ معاملہ پریس کونسل کو بھیجاجانا چاہیے تھا کہ پریس کونسل کا قیام کس مقصد کے لئے ہے؟ اسی اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا کہ رپورٹر اور اخبار سے خبر کا سورس نہیں پوچھا جا سکتا۔ چودھری نثار کے مذکورہ بیان سے میڈیا کے حلقوں میں ایک نیا اضطراب اور نئی بحث شروع ہو گئی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اگر وزیر داخلہ ہی کا موقف درست ہے تو پھر کمیشن بنانے کا مقصد کیا ہے۔ سیدھا سادا رپورٹر کو پکڑ کر جیل میں ڈالتے پولیس کے حوالے کرتے اور وہ خود ہی اس سے قبول کرا لیتی کہ یہ خبر اس نے خود بنائی یا اس سے کسی نے بنوائی۔ چودھری صاحب کہتے ہیں۔
Media Reporter
سرل المیڈا کو کمیشن کے سامنے پیش ہونا ہے وہ آ جائے گا، ہمارا بھی خیال ہے کہ وہ آئے گا کہ وہ امریکی صدارتی انتخابات کی کوریج کے لئے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ گیا اور یہ کہہ کر گیا تھا کہ میں 27نومبر کو واپس آؤں گا۔ وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس سے اچھا تاثر نہیں بنا، وہ خود یہ سب کہہ کر علاج کے لئے ملک سے باہر جا رہے ہیں ان کے امراض کا علاج بھی پاکستان میں نہیں ہو سکتا کہ وہ بھی اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں، آنکھوں کے بہترین ہسپتال پاکستان میں ہیں تو ماہر سرجنوں کی بھی کمی نہیں، اگر پمز پر اعتماد نہیں تو پاک فوج کے ہسپتال حاضر ہیں، انہیں یہاں علاج کروانے سے کس نے روکا ہے لیکن کیا کیا جائے۔ ملک میں تو ہم غریب غربا ہی علاج کرواتے ہیں حالانکہ ہم جیسے لوگوں کو ہسپتالوں میں بھی دھکے ہی ملتے ہیں۔
یہ غیر متعلقہ بات ہی سہی، اصل بات تو یہ ہے کہ آج کے حالات میں ملک میں استحکام، رواداری، برداشت اور جمہوری کلچر کی بات کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان تنقید کی زد میں ہیں تو ہم نے بلاول بھٹو کے بعض کلمات پر بھی گرفت کی اور کہا کہ ان کو بھی اپنی شخصیت کو ایک مہذب انسان والی بنانا چاہیے۔ ہمارے نزدیک وزیرداخلہ کو بھی محاذ آرائی بڑھانے سے گریز کرنا چاہیے کہ یہ محاذ آرائی خود حکومت کی حق میں بہتر نہیں۔
جہاں تک ڈان کی خبر کا تعلق ہے تو ہم خود اس حق میں ہیں کہ قومی امور میں خبر اور تجزیہ یا مضمون احتیاط کا متقاضی ہے اور لکھنے والے کو احتیاط کرنا ہوگی تاہم اگر سارا ملبہ صحافی اور میڈیا آرگنائزیشن پر ڈالا جائے گا تو پھر گفتنی ناگفتنی بھی ہوگی اور احتجاج بھی ہوگا، یوں بھی اب تک اس حوالے سے جو کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے وہ تو اس خبر سے کہیں زیادہ ہے۔
کیا وزیر داخلہ ان سب کے خلاف کارروائی کریں گے؟ دوسروں کو مشورہ دینے سے قبل خود کو بھی سنبھل کر چلنے کی ضرورت ہے، وزیراعظم محمد نوازشریف کو اب خود بھی مداخلت کرنا اور حالات کو سازگار بنانا چاہیے ورنہ یہ کہا جائے گا کہ سید خورشید شاہ ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ عمران خان نے حکومت کو زیادہ مضبوط کیا وہ اب کسی کی پروا نہیں کرے گی۔