تحریر : صباء نعیم بھارتی فوج نے گزشتہ روز لائن اف کنٹرول کے مختلف سیکٹرز میں ایک بار پھر بلااشتعال فائرنگ کی۔ جس کا پاک فوج نے منہ توڑ جواب دیا۔ ورکنگ بائونڈری اور کنٹرول لائن پر بھارتی فائرنگ اور شیلنگ کا سلسلہ گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے’ جس سے اب تک 26 پاکستانی شہید اور 107 زخمی ہو چکے ہیں؛ چنانچہ بگڑتی ہوئی صورت حال اور برصغیر کے امن کو لاحق خطرات کا ادراک کرتے ہوئے گزشتہ روز سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان، امریکہ، چین، روس، برطانیہ اور فرانس کے سفیرورں سے دفتر خارجہ میں ملاقات کی اور انہیں بھارتی فورسز کی مسلسل جارحیت اور جنگ بندی معاہدہ کی خلاف ورزیوں پر بریفنگ دی۔
بھارتی فائرنگ اور شیلنگ عالمی قوانین اور 2003ء کے جنگ بندی معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ بھارت پہلے تو شیلنگ کے لیے ہلکے ہتھیار استعمال کر رہا تھا اور اب وہ توپ خانے بھی لے آیا ہے۔ بھارتی فوج نے چار پانچ دن پہلے 9نومبر کو کنٹرول لائن کے شاہ کوٹ اور جوڑا سیکٹرز میں بھاری ہتھیار استعمال کیے، تاہم پاکستان نے انتہائی صبر سے کام لیتے ہوئے، مجبوراً اس جارحیت کا جواب دیا۔
سیکرٹری خارجہ کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک کے سفیروں سے ملاقات کا مقصود، عالمی برادری کی توجہ، صورت حال کی سنگینی کی طرف دلانا تھا۔ بھارت ان دنوں بعض سفارتی کامیابیوں اور امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ری پبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی مکے بعد اونچی ہوائوں میں ہے۔ وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ وہ جو بھی کر گزرے گا، عالمی رائے عامہ اس کی گرفت نہیں کرے گی؛ تاہم عالمی برادری کو دونوں ملکوں کی سرحدوں پر مسلسل کشیدگی اور محاذ آرائی کا ازخود نوٹس لینا چاہیے’ کسی ایک کی بڑی غلطی، برصغیر کے امن کو تباہ کر سکتی ہے۔
اس ضمن میں سرحدوں پر تعینات اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہیں عالمی ادارے اور سلامتی کونسل کو صحیح صورت حال سے آگاہ کرتے رہنا چاہیے۔ فوجی مبصرین کو کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر قیام امن کا مکمل مینڈیٹ حاصل ہے۔ بھارت کسی خوش فہمی کے نتیجے میں کسی بڑی غلطی کا ارتکاب کر بیٹھا تو بڑی تباہی ا?ئے گی۔ تباہی کا دائرہ برصغیر سے بڑھ کر عالمی امن کو بھی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ اس ساری صورت حال کا بنیادی سبب مسئلہ کشمیر ہے جو بھارت کا ہی پیدا کیا ہوا ہے۔ اس پر تین جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔
Kashmir Issue
اگر بھارت تقسیم کے فارمولے اور ریاستوں کے الحاق کی شرائط کی پابندی کرتا تو یہ مسئلہ پیدا ہی نہ ہوتا۔ پھر بھارت خود اس تنازع کو لے کر اقوام متحدہ گیا’ جہاں اس نے عالمی برادری سے وعدہ کیا کہ وہ کشمیریوں کو حق خودارادیت یعنی یہ فیصلہ کرنے کا حق دے گا، کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔ پاکستان نے عالمی اداروں کے فیصلوں کی ہمیشہ پابندی کی۔ پاکستان کا یہ مطالبہ ہی نہیں کہ کشمیر ہمارے حوالے کردو، بلکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ بھارت اپنے اس وعدے کی پابندی کرے، جو اس نے عالمی اداروں سے کر رکھا ہے یعنی کشمیریوں کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے انہیں حق خودارادیت دے۔
بھارت آخر اس حقیقت پر غور کرنے کو کیوں تیار نہیں ہوتا کہ اگر کشمیری اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو انہیں سات لاکھ فوج کے ذریعے ساتھ رکھنے کی کوشش نہ کی جائے۔ پاکستان تقسیم ہند کے فارمولہ اور عالمی اداروں کی قراردادوں کے مطابق تنازع کشمیر کا ایک فریق ہے۔ اور وہ پابند ہے کہ کشمیریوں کی حق خود ارادیت کے حصول میں ان کے ساتھ کھڑا ہو۔ بھارت پاکستان کواس ”گناہ” کی سزا اس طرح دے رہا ہے۔ کہ بلوچستان میں مٹھی بھر علیحدگی پسندوں کو ”را” کے ذریعے اسلحہ، پیسہ اور تربیت فراہم کر رہا ہے۔ اسی طرح کراچی کے حالات کو خراب کرنے میں بھی ”را” کے نیٹ ورک کا ہاتھ ہے۔ بھارت سمجھتا ہے کہ جس طرح اس نے حیدر آباد دکن، راجپوتا نے کی کئی ریاستوں، جونا گڑھ اور مناودر کو فوج کشی کرکے بھارت میں شامل کرلیا تھا۔ اسی طرح وہ کشمیریوں کو بھی زیر کرلے گا لیکن یہ اس کی خام خیالی ہے۔
بھارت کو حق و انصاف کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ فوجی قوت سے کسی قوم کی آزادی کو سلب نہیں کیا جاسکتا، جبکہ کشمیر تاریخی، جغرافیائی، لسانی و ثقافتی اعتبار سے کسی طور بھی بھارت کا حصہ نہیں۔ خطے میں امن کی کلید بھارت کے ہاتھ میں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بھارت کے پاس زرمبادلہ کے ڈھیر ہوں’ صنعت و تجارت میں وہ بہت آگے نکل گیا ہو۔ لیکن خطے میں امن کے بغیر بھارت کی ایک ارب سے زائد آبادی کو تعلیم’ صحت’ رہائش کی سہولتیں اور خوشحالی نہیں فراہم کی جا سکتی۔