تحریر : شیخ خالد ذاہد ہم پاکستانیوں کی خصوصی اجتماعی عادات میں سے ایک یہ ہے کہ دوسرے کے معاملے پر قیاس آرائی کرنا یا تبصرہ کرنا اور بھرپور توجہ دینا اپنا معاشرتی یا اخلاقی حق سمجھتے ہیں۔ لفظ “دوسروں” کا تعین کرنے میں یقیناً آپ کو کوئی تکلیف نہیں اٹھانی پڑے گی، آپ اپنے محلے یا پھر اپنے گھر کا مشاہدہ کیجئے آپ کو “اپنے آپ” سمیت ہر فرد کسی نا کسی طرح اس عادت کی موجود کی گواہی دے گا اور اظہار کرتا سنائی دیگا۔ اب آپ سماجی میڈیا پر نظر ڈالتے جائیے ہر فرد انتاہی درجے کا مفکر اور فلسفی بنا ہوا ہے مگر صرف اور صرف دوسرے کی اصلاح کیلئے، کیونکہ مجھے تو اصلاح کی ضرورت ہی نہیں ہے اور سمجھا یہ جاتا ہے کہ سامنے والا سدھر جائے تو سمجھو سب ٹھیک ہوجائے گا۔
اب وہ دور شروع ہوچکا ہے جب دنیا میں بسنے والے اپنی اپنی خواہشات کی حدوں کو چھو رہے ہیں اور اپنے آپ کو عملی طور پر محدود کرنے کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ جسکے لئے کہا یہ جاتا ہے کہ ہم اتنی محنت اور بھاگ دوڑ اپنے سکون کیلئے کرتے ہیں اور اس سکون کی تلاش میں ساری زندگی گزاردیتے ہیں مگر سکون میسر نہیں آتا۔ بظاہر نظر یہ آرہا ہے کہ مریخ پر جانا ایک مخصوص طبقے کی پریشانی ہے ساری دنیا کو اس پریشانی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے اس بات کے تناظر میں یہ کہنا غلط نہیں کے کچھ لوگ ہمیں پریشان رکھنے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں ان میں سے کچھ یہ لوگ بھی ہیں جو مریخ پر زندگی کے آثار ڈھونڈ رہے ہیں۔ کیا نئی نسل کو ان معاملات میں کوئی دلچسپی ہے ؟ شائد جاننے کی حد تک۔ نئی نسل کے عزائم اس خواہش کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ نظر آتی ہے گوکہ ابھی تک اس نسل نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ اس نسل کی جانب سے رکاوٹ کے مواقع کم ہی نظر آ رہے ہیں کیونکہ اس نسل کو گھر میں بیٹھائے رکھنے کا مکمل انتظام کیا جاچکا ہے یہ ہر تبدیلی کیلئے “سماجی میڈیا” کو بہترین ذرائع سمجھتے ہوئے اس کو استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک طبقہ تو متعین شدہ ٹھنڈی حدیں پار کرنے کو تیار نہیں اور جو باہر نکل آتے ہیں وہ صعوبتیں جھیلنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔
Bartania
گزشتہ دنوں برطانیہ نے ایک انتہائی اہم قدم اٹھاتے ہوئے اپنے آپ کو یورپی یونین سے الگ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ فیصلہ کسی فردِ واحد کا نہیں ہے اور نا ہی اس فیصلے کا تعلق تاج برطانیہ سے ہے۔ رواں سال کے جون میں اس فیصلے کیلئے رائے عامہ جاننے کیلئے باقاعدہ ریفرینڈم کا انعقاد کیا گیا۔ اس کا انعقاد برطانیہ اور اس سے ملحقہ ممالک میں کیا گیا جو متحدہ کنگڈم کے ممالک میں شامل ہیں۔ جس کا مجموعی طور پر نتیجہ یہ رہا کہ باون 52٪ افراد نے برطانیہ کو یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرنے کے حق میں فیصلہ دیا۔ یہ فیصلہ برطانیہ کیلئے تاریخ رقم کرنے کے مترادف ہے اور یہ اہم ترین فیصلہ اس شرح پر کرنا کتنا مناسب ہوگا یہ آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے۔
یہ فیصلہ آنے والے وقت میں برطانوی پالیسیوں پر بھی اثر انداز ہوگا خصوصی طور پر خارجہ پالیسی پر۔ اس فیصلے پر یورپی یونین کے دیگر کتنے ممالک درپردہ برطانیہ کی حمایت میں ہیں یہ بھی آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے اور یورپی یونین میں کسی نئے بلاک کی داغ بیل ڈالی جاچکی ہے اور کیا آنے والے وقت میں یورپی یونین اپنی اہمیت کھوتی چلے جائے گی ، کیا کچھ اور ممالک بھی یونان اور برطانیہ کی طرح الگ ہوجائنگے۔ برطانیہ یورپی یونین کا انتہائی اہم رکن تھا۔ شائد برطانیہ کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اس کی انفرادی حیثیت میں کمی آتی جا رہی ہے اور یورپی یونین مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ بہر حال آنے والے وقت میں ان تمام سوالوں کے جواب پوشیدہ ہیں۔
US and UK
آمریکہ پر برطانیہ کا یورپی یونین سے علیحدہ ہونا کتنی اہمیت رکھتا ہے، دیکھنے میں تو ایسا لگتا ہے کہ آمریکی عوام نے بھی آمریکی انتخابات کو برطانوی طرز کا ریفرئنڈم سمجھ کر دنیا پریستی چھوڑ کر اپنی داخلی صورتحال کو بہترین بنانے اور امریکیوں پر تمام تر توجہ کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ کیا آمریکہ اور امریکی برطانوی طرز پر اپنی خودمختاری کیلئے ایک ایسے صدر کو منتخب کروا لائے ہیں جو زبان سے تو امریکیوں کے لئے بہت کچھ کہہ چکے ہیں مگر اب عملی اقدامات کی جانب توجہ کی ضرورت ہے۔ کیا آمریکہ کے نو منتخب صدر اب بھی اپنی تھیکی زبان استعمال کرینگے جیسی کی وہ دورانِ انتخابات کیا کرتے تھے۔ ڈولڈ ٹرمپ کو انکے تیز و طرار لہجے کی بنیاد پر صدر منتخب کرنے والے اب ان سے اپنے حقوق کیلئے اٹھ کھڑے ہو جائینگے۔ ابھی یہ بھی واضح ہونا باقی ہے کہ انتخابات والے دن تک ساری نہیں تو آدھی سے زیادہ دنیا اس بات پر یقین کئے بیٹھی تھی کہ آمریکہ کی نئی صدر ہیلری کلنٹن ہونگی اور یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ہیلری کو بھی اس بات کا یقین ہوگا۔
اس ساری صورتحال میں برطانیہ اور امریکہ کے تنہا ہونے کا بھی کوئی امکان ہوسکتا ہے اور کسی نئی طاقت کا سامنے آنے کا گمان کیا جاسکتا ہے؟ امریکہ کی انفرادی اہمیت بھی درپردہ اتحادیوں کی حمایت میں پوشیدہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آمریکہ صرف اپنے ملک سے خارجیوں کو خارج کرنے کی حکمتِ عملی پر عمل درآمد کرتا ہے یا پھر جہاں جہاں خود دراندازی کیئے بیٹھا ہے وہاں وہاں سے بھی واپس اپنے ملک والوں کو بلا لیتا ہے خصوصی طور پر اپنی امن قائم کرنے اور جمہوریت بحال کرنے والی فوجیں۔ برطانیہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے آمریکہ دنیا جہان کے فسادوں اور لڑائی جھگڑوں سےاپنے آپ کو الگ کر لےگا اور اپنے داخلی معاملات پر بھرپور توجہ دے گا پھر چاہے یہ تمام خارجیوں کو خارج کردے مگر دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی اور دراندازی روک دے۔ دنیا میں کسی حد تک سکون کی بھی توقع کی جاسکتی ہے۔ انتظار اب اس بات کا شروع ہوا ہے کہ امریکہ اپنے بدلے ہوئے صدر کی طرح اپنا مزاج کب تبدیل کرے گا اور دنیا میں اس کے مثبت اثرات کب نمایاں ہونے شروع ہونگے۔