تحریر : سلطان حسین پوری دنیا جس طرح نائن الیون کے واقعے سے سکتے ہیں آگئی تھی آج سولہ سال بعد پھر ایٹ الیون سے دنیا سکتے میں آگئی ہے امریکہ میں ٹرمپ کی غیر متوقع کامیابی نے امریکہ سمیت پوری دنیا کے میڈیا اور اس کے ماہرین کی رائے اورتجزیہ نگاروں کے تجزئیے غلط ثابت کردئیے ۔اپنے من پسند یا اسے نام نہاد تجزئیے کہہ لیں کے درست ثابت نہ ہونے اب یہ سب دانتوں میں انگلی دبائے حیرت اور تعجب میں مبتلا ہیںان خوش کن تجزیوں کے درست ثابت نہ ہونے پر امریکیوں کے تو آنسو تک نکل آئے جبکہ امریکہ کے اتحادیوں کے علاوہ اسلامی دنیا اس غیر متوقع نتائج سے اگر ایک طرف پریشان ہے تو دوسری طرف وہ خوف میں بھی مبتلا ہیں امریکہ میں تو کسی کو یقین ہی نہیں تھا کہ ٹرمپ کامیاب ہوں گے اسی لیے کچھ مشہور شخصیات نے تو جوش میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر ٹرمپ صدر بن گئے تو وہ امریکا چھوڑ کر کینیڈا منتقل ہو جائیں گے۔
ان میں مشہور سیریز بریکنگ بیڈ کے اداکار برائن کرینسٹ’ چیلسی ہینڈلر ‘معروف مصنف اسٹیفن کنگ ‘مشہور اداکار، لکھاری اور کامیڈین کیگن-مائیکل ‘اداکارہ و ہدایت کارہ لینا ڈنہیم’اورگلوکار نی یو بھی شامل ہیں فل حال ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ شخصیات امریکہ چھوڑ جائیں گی یا نہیں یہ تواگلے چند دنوں میں پتہ چلے گا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹرمپ کی کامیابی کے اعلان کے بعد صرف چند گھنٹوں میں ہی امریکیوں نے کینیڈا جانے کے لیے پرتولنے شروع کردئیے اور کینیڈاکی امرمیگریشن ویب سائٹ پراپنی رجسٹریشن شروع کر دی اس ویب سائٹ پر رجسٹریشن کی بھرمار نے سے کینیڈا کی امیگریشن ویب سائٹ ہی کریش ہوگئی۔
جبکہ نیوزی لینڈ کی ویب سائٹ پر رش کہیں زیادہ بڑھ گیا، منگل کی رات کو ہی جیسے جیسے امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج سامنے آتے گئے، کینیڈا کی امیگریشن ویب سائٹ پر رش بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ ٹریفک کے بوجھ سے کئی مرتبہ ویب سائٹ بند ہوگئی۔ دوسری جانب نیوزی لینڈ کے امیگریشن حکام کا کہنا ہے کہ رہائش اور تعلیم کے ویزوں پر کام کرنے والی سرکاری ویب سائٹ یوزی لینڈ ناو پر اب تک1593نئے افراد امریکا سے رجسٹر ہوئے ہیں جو عام رجسٹریشنز سے پچاس گنا زیادہ ہیں۔ صدارتی انتخابات سے پہلے کئی مشہور امریکی شخصیات نے ازراہ مذاق کہا تھا کہ اگر ٹرمپ جیتے تو وہ کینیڈا منتقل ہو جائیں گے اب لگتا ہے کہ امریکیوں نے اس مذاق کو کافی سنجیدہ لے لیا ہے۔
American Election
امریکی انتخابات پر بڑی طاقتوں کے ساتھ ہی ساتھ پوری دنیا کی نظر بھی ہوتی ہے کیونکہ ان انتخابات سے نہ صرف امریکہ کے اتحادی ‘بڑی عالمی قوتیں اور پوری دنیا متاثر ہوتی ہے اسی لیے بعض ممالک امریکی صدراتی امیدواروں کوسپورٹ بھی کرتے ہیں اور انہیں فنڈ بھی دیتے ہیں تاکہ منتخب ہونے کی صورت میں وہ اپنے ہمددر اور ڈونر ممالک کا خیال رکھیںجہاں تک امریکہ کے اتحادیوں کا تعلق ہے تو وہ بھی ابھی تک اس صدمے سے باہر نہیں نکلے خود کو مہذب اور ترقی یافتہ اور خواتین کو برابری کی بنیاد پر حقوق دینے کا دعویٰ کرنے والی امریکی قوم نے ان انتخابات میں کم از کم اپنی رجعت پسندی بھی ثابت کردی اور ایک عورت کی حکمرانی کوواضح طور پر مسترد کردیاان انتخابات میں ٹرمپ نے ایک نیا کارڈ کھیلا اور وہ کارڈ نئی نسل کا تھا۔ ٹرمپ نے وہ مسائل اٹھائے جس پر امریکہ کی نئی نسل کا اپنا ایک ویو پوائنٹ ہے۔
نئی نسل ڈیموکرٹیک کے آٹھ سالہ دور سے مایوس ہوچکے تھے انہیں اس سے غرض نہیں کہ ان کا ملک دنیا میں کیا کررہا ہے۔ بلکہ وہ ملک میں جاری مسائل کا حل چاہتے تھے اگر تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی آبادی سے وہ خوفزدہ تھے اور ان کے امریکہ پر چھاجانے کے خوف میں مبتلاتھے تو بے روزگار اور روز بروز بدتر ہوتی ہوئی معاشی حالات سے بھی پریشان تھے اور ٹرمپ نے نئی نسل کے اس ویوپوائنٹ کو کامیابی سے کیش کیا ساتھ ہی ساتھ ٹرمپ نے میڈیا کو بھی بڑی کامیابی سے استعمال کیا۔
اوبامہ سے سیاہ فاموں کو بہت سی توقعات تھیں وہ امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر تھے ان کی کامیابی کے لیے سیاہ فاموں نے بڑی مہم چلائی تھی لیکن اوبامہ نے انہیں بھی مایوس کردیا تھا جس کی وجہ سے سیاہ فام نسل نے ان کی حمایت یافتہ امیدوار ہیلری کلنٹن کی بجائے ان کے مخالف امیدوار کے حق میں فیصلہ دیا اور یوں بھاری بھر کم ہاتھی کے مقابلے میں گدھا کامیاب ہوگیا۔ امریکی انتخابات سے دو باتیں سامنے آتی ہیںایک تو یہ کہ امریکہ کی نئی نسل بھی جہاں وہ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیںوہاں ان میں ”شدت پسندی”بھی پیدا ہورہی ہے اور دوسری یہ کہ اگر نئی نسل کو ساتھ لے کر چلا جائے تو بہت کچھ ممکن ہو سکتا ہے۔
Imran Khan
جس طرح پاکستان میں عمران خان اولڈ ایج کے ہوتے ہوئے نئی نسل کے نمائندئے بن چکے ہیں بالکل اسی طرح ستر سالہ ٹرمپ بھی بڑی عمر کے ہوتے ہوئے نوجوانوں کے دل کی آواز بن گئے اس سے ایک یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ نئی نسل کے سامنے عمر کی کوئی اہمیت نہیں وہ صرف اپنے خوابوں کی تعبیر چاہتے ہیںجو پاکستانی سیاستدانوں کے لیے بھی ایک سبق ہے امریکی انتخابات میں ٹرمپ کامیاب تو ہوگئے لیکن صدارت کی کرسی پر بیٹھنے کے لیے اسے ابھی کچھ انتظار کرنا پڑے گا وہ اگلے سال جنوری کی20 تاریخ کو ہی حلف اٹھاسکیں گے جس کے بعد ہی وہ وائٹ ہاوس میں رہنے کے خواب کی تعبیر پائیں گے حلف اٹھانے تک انہیں مختلف امور کے بارے میں بریفنگ دی جائے گی صدارت کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد وہ کیا پالیسی اپناتے ہیں اور دنیا کو کس طرح اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ اس کے بارے میں اس وقت تک صرف اندازے ہی لگائے جاسکتے ہیں۔
تاہم ایک بات طے ہے کہ امریکہ میں پالیسیاں ادارے بناتی ہیں شخصیات نہیں اور منتخب صدر کو بھی ان پر چلنا پڑتا ہے البتہ نیا صدر اس میں اپنی نظریات کے مطابق کچھ تبدیلیاں ضرور کرتے ہیں اب ٹرمپ اس میں کیا تبدیلیاں کرتے ہیں یہ تو ان کے وائٹ ہاؤس میں آنے کے بعد ہی پتہ چلے گا کیونکہ انتخابات میں لگائے جانے والے جذباتی نعروں اور حقیقی پالیسیوں میں بڑا فرق ہوتا ہے ہمیں دنیا کے ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے بارے میں بھی ان کی تبدیلیوں کا انتظار کرنا پڑے گا۔
کسی خوش فہمی یا خوف میں مبتلا ہونے کی بجائے حقیقت کا ادراک کرکے پہلے سے ہی خود کواس کے لیے تیار کرناہوگا اور اس حوالے سے اپنی پالیسیاں مرتب کرنی ہوں گی بلکہ اس حوالے سے اب تک پالیسیاں مرتب ہو جانی چاہئیں تھیںکیونکہ ہیلری منتخب ہوتی یااگر اب ٹرمپ منتخب ہوگئے دونوں سے پاکستان کو کوئی بڑی امیدیں نہیں تھیں۔نائن الیون کے بعد اب ایٹ الیون کے دنیاپر اور پاکستان پر اورخود امریکہ پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس کی گریں اگلے سال بیس جنوری کے بعد ہی آہستہ آہستہ کھلیں گی۔