تحریر: حاجی زاہد حسین خان دوسری عالمی جنگ میں ایک ہندوستانی بیوہ ماں کا بیٹا بھی اپنے ہزاروں ہموطنوں کے ساتھ انگریزی افواج کی طرف سے جرمن محاذ پر لڑ رہا تھا۔ کسی نے اس بیوہ ماں سے پوچھا اماں اماں جنگ زوروں پر ہے۔ اس کا کیا بنے گا۔ اس سادی ان پڑھ ماں نے جواب دیا بھیا جرمن بھی ڈاہڈا ہے۔ اور میرا بیٹا بھی بڑا سخت۔ مقابلہ جوڑ کا ہے اللہ خیر کرے پتہ نہیں کیا ہو گا۔ قارئین موجودہ عمران نواز شریف جنگ بھی عروج پر ہے۔ عمران خان حددرجے ضدی مگر نواز شریف بھی صدی میں کہیں کم نہیں۔ سابقہ الیکشن کے فوراً بعد اگر متنازعہ چار حلقے کھول دیئے جاتے ری کائونٹنگ ہو جاتی تو شائد یہ معاملہ وہیں ختم ہو جاتا رک جاتا مگر موجودہ حکومت نے بھی اپنی ضد قائم رکھی سوئی وہیں پر اٹکی رہی تب پھر دھرنے جلسے جلوس سڑکوں پر احتجاج آوے ہی آوے جاوے ہی جاوے دونوں کی لڑائی میں کاروبار بند ادارے بند کیپیٹل کبھی سیل کبھی بند لوگ پریشان فوج پریشان مقدمہ عدالت میں گیا دھاندلی کا مگر اللہ غارت کرے پھر کہیں سے وکی لیکس کی طرح پانامہ لیکس آگئی۔ نواز شریف خاندان کے ساتھ کئی دوسرے خاندانوں کے کاروبار فیکٹریاں اور فلیٹ باہر ظاہر ہو گئے۔
ہمارے سیاستدانوں کو ایک اور ایشو کھیل مل گیا تب سے موقع کی تلاش میں عمران خان صاحب کو شیخ رشید اور مولنا طاہر القادری کو ایک نیا نعرہ مل گیا تب سے پھر وہ سڑکوں پر دھرنے جلسے جلوس کبھی مبارک ہو اب اس حکومت سے جان چھوٹنے والی ہے اور کبھی یوم تشکر اور یوم نجات کبھی جشن بہاراں قوم پریشان نہ جانے یہ نادان جشن بہاراں اور یوم تشکر کیوں منا رہے ہیں۔ کیا اس لئے کہ دشمن نے لاکھوں کی افواج سرحدوں پر لگا رکھی ہے۔ آئے دن مقامی لوگ شہید کئے جا رہے ہیں۔ کراچی میں مار دھاڑ ہے کہ رکتی ہی نہیں بلوچستان میں دشمن کے کارندے آئے روز قیامت صغرا بپا کئے ہوئے ہیں۔ ابھی کل ہی خانقاہ نورانی میں سو کے قریب معصوم مار دیئے گئے۔ درجنوں زخمی افغان سرحد پر شب خون جاری ہے۔ اوپر سے گڈانی جہاز کا آگ لگنے کا حادثہ۔
Quetta Incident
لاہور ٹرین حادثہ ۔ کوئٹہ کا حادثہ ۔ سینکڑوں خاندانوں پر قیامت ٹوٹی ہوئی ہے۔ اور یہ ہیں کہ یوم تشکر منائے جا رہے ہیں۔ سڑکیں بند کاروبار بند کر وارہے ہیں۔ کیسے یہ حکمران اورکیسے یہ سیاستدان ہیں انہیں اٹکلیاں سوجی ہیں اور ہم عوا م بیزار بیٹھے ہیں۔ ابھی دو سال موجودہ حکومت کو باقی ہیں مگر یہ ابھی سے تم ہٹو ہماری باری ہے۔ دونوں فریق ہٹ دہرمی پر اتر آئے ہیں۔ نہ جانے اس آنا کی جنگ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ ملک نازک دورسے گزر رہا ہے۔ دشمن ہماری سرحدوں پر تیار کھڑا ہے۔ ان دیکھا دشمن وار پر وار کر رہا ہے۔ ایک سی پیک منصوبے سے عوام کو ملک کی ترقی کی جھلک نظر آئی تھی مگر یہاں تو اپنوں نے داخلی سیاسی اور میڈیائی جنگ شروع کر رکھی ہے۔ عوام نے تو انہیں حق نمائندگی دے کر اسمبلیوں میں بھیجا تھا۔ کہ یہ ہماری اور ہمارے ملک کے حقوق کی جنگ لڑیں گے۔ نئے نئے قوانین بنائیں گے۔ ملک بنائیں گے۔ بچائیں گے۔ مگر یہ تو اس نازک وقت میں ملک میں نتشاری اور احتجاجی دھرنوں کی سیاست کر کے ملک توڑنے میں لگے ہیں۔ اوپر سے ان دھرنوں کی لعنت کا رواج کبھی نرسیں سڑکوں پر کبھی ڈاکٹر سڑکوں پر کبھی تاجر سڑکوں پر کبھی کلرک سڑکوں پر خدا کی پناہ ہماری انتظامیہ اور حکمرانوں کے فیصلے تب سامنے آتے ہیں۔
جب کاروبار بند سڑکیں بند اور درجن بھر بے گناہ لاشے سڑکوںپر یا ہسپتالوں سے نہ نکلیں ۔ خدا کی پناہ عدالتیں خاموش ہیں۔ وہ غیر جانبداری فیصلے نہیں کرتیں اگر کریں بھی تو ان پر عمل درآمد کرانے کون آگے آئے۔ اور نہہی ہمارے حکمرانوں سیاستدانوں کو انکے فیصلے پسند ہیں۔ اب خدا خدا کر کے موجودہ پانامہ لیکس بھی عدالتوں میں جا چکا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو۔ اگر ثبوت نواز شریف کے خلاف ملتے ہیں تو انکی نا اہلی کے ساتھ ساتھ عمران خان اور انکے ساتھیوں کو بھی ملک کا امن برباد کرنے افراتفری کی سیاست کرنا اور اسمبلیوں سے مسلسل غیر حاضری کو بنیاد بنا کر نااہل قرار دیا جائے۔ تاکہ دونوں فریقوں سے عوام اور ملک کی جان چھوٹ جائے۔ مگر تیسری قوت کی نوجوان قیادت بھی موقع کی تلا شمیں ہاتھ پائوں مار رہتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو بھٹو اور بے نظیر بھٹو کا وارث بنا کر مظلوم بنا کر پھر تخت پاکستان کے وارث بننا چاہتے ہیں۔
Revolution
مگر وہ بھی یاد رکھیں عوام اتنے سادے نہیں سیاسی اور مالی وراثتیں باپ دادا سے چلتی ہیں۔ نہ کہ نانانانی کی طرف سے وہ بلاول زرداری تو بن سکتے ہیں۔ مگر بلاول بھٹو کبھی نہیں بن سکتے ۔ عوام ان سب زرداریوں کو بھی بھگت چکے ہیں۔ اب خدا کے لئے یہ سب جان چھوڑیں ملک کو چلنے دیں قارئین ایک نواز شریف اور ان کے خاندان کی کرپشن ظاہر ہونے سے یہاں انقلاب نہیں آجائے گا۔ اگر انقلاب لانا ہے تو گزشتہ دو عشروں سے ملک پر مسلط تمام بڑے بڑے مگر مچھوں کو بھی گرت میں لایا جا ئے اور ملک میں اربو کی جائیداد وں کے وارثوں اور ملک سے دولت باہر لے جانے والوں کو بھی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر کے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کیا جائے اب عوام اپنی عدلیہ سے یہی توقع رکھتی ہے۔
ورنہ پانامہ لیکس سکینڈل بھی وکی لیکس اور ماموں گیٹ اور سوئیزر لینڈ میں پڑی کروڑوں ڈالر کی دولت تحقیقات مقدمات سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو کر عوام کا منہ چڑھاتی رہیں گی۔ اب عوام اپنی عدالتوں سے توقعات رکھتے ہیں کہ اس بار سیاسی سفارتی اور جانبداری مصلحتوں کو پس پشت ڈالکر اپنے تمام فیصلے ملک و عوام کے مفاد میں حقائق کی بنیاد لپر کرینگے ۔ اور ملک سے لوٹی گئی پائی پائی واپس لا کر ان کرپشن اور لوٹ مار کے سودا گروں کو عبرت کا مقام بنائیں گئے۔ تاکہ آئندہ کسی سیاسی فوجی اور حکومتی اداروں کے ذمہ داروں کو ملک و قوم کو لوٹنے کی ہمت و جرات نہ ہو سکے۔ اب ملک کو بچانے بنانے کا صرف واحد یہی حل ہے۔ کرپشن سے پاک ملک اور کرپشن سے پاک تمام ادارے۔ ورنہ جھتے دی کھوتی اتھے کھلوتی
انہیں اٹکلیاں سوجی ہیں عوام بیزار بیٹھے ہیں۔ غیروں سے کیا گلہ اپنی ہی خریدار بنے بیٹھے ہیں۔
Haji Zahid Hussain Khan
تحریر: حاجی زاہد حسین خان پلندری سدہنوتی آزاد کشمیر hajizahid.palandri@gmail.com