تحریر : انجینئر افتخار چودھری اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ہم اپنے محسنوں کے ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں جس کے وہ مستحق نہیں ہوتے کبھی دل میں آیا تھا کہ اس عظیم دن کی تعطیل کا مطالبہ کروں پھر اس گناہ گار آنکھوں نے اس بار دیکھا کہ حکیم الامت علامہ اقبال کی کے یوم پیدائش پر برس ہا برس سے کی جانے والی چھٹی منسوخ کر دی گئی اور تو اور اقبال کی باقیات کی سر عام ٹھکائی نے تو مزید پیچھے دھکیل دیا۔جوہم سوچتے تھے اس کا ازالہ اس مسلم لیگ کی حکومت نے کر دیا۔ان لوگوں سے کیا مطالبہ کریں جنہیں یہ بھی احساس نہیں کہ اس ملک کی تخلیق کس بنیاد پر ہوئی تھی۔ مسلم لیگ کے وارثوں سے اس قسم کی حرکت باعث حیرت ہی نہیں ان کے لئے باعث ندامت بھی ہے۔یہ اپنے لیڈر علامہ اقبال جو امت مسلمہ کے لیڈر ہیں کہ دن کو نہیں منا سکے باوجودیکہ وہ کشمیری بھراء تھے۔ان سے چودھری صاحب کا دن اور ان کے جسد خالی کی پاکستان منتقلی کا مطالبہ کرنا ایک اندھی دیوار سے ٹکر مارنے کے مترادف ہے۔
پتہ نہیں ولید اقبال کے تحریک انصاف میں ہونے کی وجہ سے میاں صاحبان نے یہ چھٹی منسوخ کر دی ہے ورنہ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو اقبال کشمیری تھے اور کوئی کشمیری میاں صاحبان کو کہیں سے بھی مل جائے ان کے حلقہ ء ارادت میں شامل ہو جاتا ہے۔چودھری رحمت علی اس نومبر کی ١٦ تاریخ کو ١٨٩٧ پیدا ہوئے تھے ان کے والد صاحب کا نام چودھری شاہ محمد گجر تھاایک ایسا شخص جو جو صدیوں میں پیداہوتا ہے اور نہ صرف قبیلے کے لئے بلکہ قو م کے لئے باعث فخر ہوتا ہے۔ماہر محقق مجیب الرحمن شامی اور دنیائے اردو ادب سے ایک بار بات ہو رہی تھی انہوں نے کہا کہ فقیری میں چند لوگ بادشاہی کرتے ہیں اور چودھری رحمت علی تو تحریک پاکستان کے ابو ذر غفاری کی مثل تھے اور کہا کہ ایک بڑے میڈیا کے چیف انہیں پاکستان کا لیڈر تسلیم کریں نہ کریں تحریک پاکستان کی جو سند ہے وہ چودھری رحمت علی کو لیڈر مانتی ہے۔ان کی مراد جناب حمید نظامی سے تھی۔چودھری صاحب نے کون سا ایساکارنامہ انجام دیا ہے کہ اس وقت کے تین برے نام جناب مجیب شامی،الطاف قریشی اور ضیاء شاہد ان کے مداح ہیں آپ نے بنیادی تعلیم اپنے گائوں میں حاصل کی اور پھر مزید پڑھنے لاہور آ گئے۔
اس وقت کا لاہور بر صغیر کا ایک اہم شہر تھا اسلامیہ کالج لاہور سے گریجوایشن کی۔چودھری صاحب ایک تھنکر تھے انہیں اسلامیان ہند کی مجبوریوں کا احساس تھے وہ ایک مفکر تھے انہوں نے ١٩١٥ میں سوچ لیا تھا کہ بر صغیر کے مسلمانوں کی نجات اسی میں ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہندوئوں سے مکمل طور پر الگ کر لیں وہ مذہب کے نام پر ہندوستان کی تقسیم چاہتے تھے اور یہی وجہ ہے انہوں نے جہاں جہاں مسلم اکثریت میں تھے الگ سے آزاد اور خود مختار ممالک کا مطالبہ کیا۔یاد رہے یہ ١٩١٥ ہے اور اس وقت مسلمانوں کی قیادت کرنے والی مسلم لیگ محدود آزادی بھی نہیں مانگ رہی تھی بلکہ ہندومسلم بھائی بھائی کا نعرہ لگا رہی تھے۔میں کہنا چاہتا ہوں کہ دو قومی نظریے کے اولین خالق چودھری رحمت علی تھے۔اور جب میں یہ لکھتا ہوں تو اس سے حضرت اقبال کی دانش ان کی شاعری اور فلسفہ خودی سے ہر گز انکاری نہیں ہوں مگر حق دار را حق رسید ہونا چاہئے۔اگر یہ اگر مکمل طور پر نہ مانا جائے تو میرا مطالبہ ہے انہیں شریک مصور پاکستان مان لیا جائے۔ آج سے چالیس سال پہلے پاکستان کے قومی جرائد میں حضرت چودھری رحمت علی کے بارے میں ضمیمے نکلتے تھے اور وہ قومی ہیرو گردانے جاتے تھے۔مرور ایام نے اس قومی ہیرو کو دھکیل کے پیچھے رکھ دیا۔چودھری رحمت علی ایک آزاد پا وہ اسے آزاد مسلم ریاست کی شکل میں دیکھنا چاہتے تھے جس کا نام بنگلستان تجویز کیا تھا۔ انہیں احساس تھا کہ یہ ایک غیر فطری مطالبہ ہو گا لہذہ ان کا پاکستان ہجوں میں پ سے پنجاب سے الف افغانہ صوبہ سرحد سے ک کشمیر س سندھ اور تان بلوچستان سے تھا۔وہ حیدر آباد کو الگ اسٹیٹ دیکھنا چاہتے تھے جس کا نام عثمانستان تجویز کیا تھا۔
Chaudhry Rehmat Ali
چودھری رحمت علی کشمیر کی اہمیت کو سمجھتے تھے۔انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان نیشنل موومنٹ اس پاکستان کا مطالبہ کرتی ہے کہ جس میں کشمیر مکمل طور پر شامل ہو انہوں نے اپنے خطبات میں لکھا ہے کہ کشمیر کے سارے دریا پاک دھرتی کی طرف بہتے ہیں ہمیں ایسا پاکستان دیا جائے جو دریائوں کے سوتے کے ساتھ ہو۔ان کی مراد مکمل کشمیر کی تھی۔حالات ہمارے خلاف چلے گئے جنرل گریسی لارڈ مائونت بینٹن کے رپورٹ کرنے کے بہانے قاید اعظم کے حکم کو ٹال گیا اور ادھر بائونڈری کمیشن میں سر ظفراللہ خان چودھری جو ڈسکہ سیالکوٹ کا ساہی جاٹ اور قادیانی تھا اس نے گرداس پور کو آخری رات میںانڈیا کی جھولی میں ڈال کر پاکستان کی قسمت میں مسلسل لڑائی لکھ دی۔اگر گرداس پور ہندوستان کو نہ جاتا تو بھارت کے پاس کشمیر میں پہنچنے کے لئے کوئی راستہ نہ تھا انتہا پسند وزیر داخلہ ولبھ بھائی پٹیل نے نہرو سے بالا بالا سری نگر میں فوجیں اتار دیں۔نہرو جو اقوام متحدہ میںخود مختاری کی قرارداد لے کر گیا تھا ۔یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ برہمن پوپلے پر اگر تندوتیز گجر فائق ہو گیا تھا تو کانگریس اپنے پچاس سالہ اقتدار میں اس کا ازالہ کیوں نہیں کر سکی۔یہ وہ دور تھا جب حصول پاکستان کے بعد تڑپتے مچلتے چودھری رحمت علی انگلینڈ میں سراپہ ء ا حتجاج تھے ۔اسلامیہ کالج میں اپنی راہین متعین کرنے کے بعد چودھری صاحب ایچی سن میں پڑھانے لگے۔یہاں بڑے مزے کی بات ہے قیام پاکستان کے بعد حاشیہ نشینوںنے ان پر الزام لگایا کہ چودھری صاحب نے دوران تدریس مزاریوں کے بچوں کو ٹیوشنوں سے بہت مال بنایا۔
افسوس تو یہ ہے کہ ان میں اور حضرت قاید اعظم میں اختلافات بڑھانے والوں نے یہ بے ہودہ الزام اس لئے لگائے کہ نقاش پاکستان اور بانی ء پاکستان میں اختلافات پیدا ہو جائیں۔یہ تو خیر ایک عام فہم کو بھی علم ہے کہ ٹیوشنوں سے دو وقت کی روٹی آسان کی جا سکتی ہے مال نہیں بنایا جا سکتا ۔ان کی زندگی کے تین المیے ہیں ایک ان کو صرف NOW OR NEVER کا تخلیق کار بنا کر پیش کیا گیادوسرا صرف لفظ پاکستان کا خالق۔ اور تیسرا گجروں نے انہیں اتنا ابھارا کہ وہ اب صرف گجروں ہی کے لیڈر نظر آتے ہیں۔ میں ان تین المیوں لکھنے سے پہلے آپ کو بتا نا چاہوں گا کہ چودھری صاحب نے اپنے کیمرج میں قیام کے دوران بے شمار پمفلٹ ہینڈ بل تقسیم کئے برطانوی پارلیمینٹ کے ارکین ان کے اس مطالبے سے پوری طرح واقف تھے۔انہوں نے ایک پاکستان نامی ہفت روزہ بھی نکال رکھا تھااور پاکستان کا مطالبہ اس حد تک کیا کہ پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی میں زیر بحث لایا گیااگست ١٩٣٣ کی یکم تاریخ کو جناب یوسف علی،سر محمد یعقوب،ڈا کٹر خلیفہ شجاع الدین ،اور خان صاحب حاجی رشید احمد صاحب سے انگلستان میں بحث بھی ہوئی۔جولائی ١٩٣٥ میں کیمبرج کے مختلف ایڈریس سے چودھری رحمت علی نے نیا پمفلٹ جاری کیا۔یہاں انہوں نے اپنے آپ کو پاکستان قومی موومنٹ کاصدر ظاہر کیا اور ایک بڑی دلچسپ اور قائل کر دینے والی دلیل سے مطالبہ کیا کہ برما ایکٹ کے تحت اگر برما آزاد کیا جاتا ہے تو پاکستان کو کیوں آزادی نہیں دی جاتی۔
تاریخ کے طالب علموں کو اس وقت مسلم لیگ کی جدوجہد آزادی کی تاریخوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے۔موضوع کی طوالت اپنی جگہ مگر یہاں بتانا چاہوں گا کہ پاکستان کی اس جد و جہد میں وہاں ان کے ساتھی اسلم خٹک خواجہ رحیم الدین اور دیگر طلبہ تھے جو اپنے جیب خرچ سے ان پمفلٹوں کا اہتمام کرتے تھے۔صاف اور کھری بات یہ ہے کہ انگریز صرف اور صرف چودھری رحمت علی کی جد و جہد سے پاکستان سے واقف ہوئے۔تاریخ گواہ ہے کہ ٢٣ مارچ ١٩٤٠ کو جب مسلمانوں کے لئے انڈین حدود کے اندر رہ کر مطالبہ ء آزادی کیا گیا تو پریس نے کہا مسلمان محدود آزادی نہیں جنوبی ایشیا میں ایک نیا ملک چاہتے ہیں اور اس کا نام پاکستان ہے۔لہذہ یہاں میں نے ثابت کر دیا ہے کہ چودھری صاحب صرف نائو اور نیور کے لکھاری نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی تریتی جو فالیں نکال کر نام رکھا کرتے تھے۔تیسری اور بہت ہی اہم بات یہ ہے کہ آزاد کشمیر اور پاکستان کے کروڑوں گجر ان کے جسد خاکی کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں یہ ان کے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔میں اس بات کی حمایت کرتا اگر انہوں نے گجرستان کی بات کی ہوتی،لہذہ میں برادری کے لوگوں سے درخواست کرتا ہوں چونکہ چودھری رحمت علی دو قومی نظریے کے اولین خالق تھے اس لئے خدا کے لئے اس ذمہ داری میں ہر پاکستانی کو شریک کریں۔
Pakistan
ماموں جان کے انتقال کے بعد آج بھی جو لوگ گھر آئے انہوں نے چودھری صاحب کے جسد خاکی کے پاکستان لانے کے مطالبے کے ساتھ ساتھ انہیں قومی ہیرو کے درجے پر فایز کرنے کی ڈیمانڈ کی۔سوال ایک باقی ہے اور وہ یہ کہ جب چودھری صاحب کیمبرج آئے تو ان کے ساتھ کیا ہوا اور جب پاکستان پہنچے تو ان کے ساتھ کیا برتائو کیا گیا۔اس میں کوئی شک نہیں وہ بہت بڑی ہجرت چاہتے تھے اور پورا کشمیر لینا چاہتے تھے ان کاخیال تھا کہ انگریز انصاف پسند ہے اس سے میز پر بیٹھ کر بات کی جائے اور انہیں بتایا جائے کہ ہم کیوں کشمیر لینا چاہتے ہیں اور کیوں مکمل آزادی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ پاکستان مستحکم پاکستان ہوتا جوصدیوں تک جغرافیائی مشکلات سے دور رہتا۔ قاید اعظم بیمار تھے انہیں علم ہوا کہ چودھری صاحب کراچی میں ہیں اس دن قاید نے بہترین لباس پہنا اور اور ان استقبال کرنے کی ٹھانی مگر اس دوران حکومت میں شامل ساشی ان کے خلاف سر گرم ہو گئے۔شہید ملت اور حکومتی اکابرین کوڈرایا گیا کہ چودھری صاحب کے ہوتے ہوئے آپ کی دال گلنا مشکل ہے۔خفیہ والوں نے ان کے ساتھ زیادتی کی اور ان کے پاکستان قیام کو اجیرن بنا دیا۔پاکستان دینے والا اگلے بحری جہاز سے اس ملک سے روانہ ہو گیا جو اس کی سوچ کے نتیجے میں حاصل کیا گیا تھا۔وہ انگلینڈ پہنچ کر کچھ عرصہ صدمے کی حالت میں رہے اور بیمار پر گئے۔فلو کے مرض میں مبتلا ہو گئے۔
انہوں نے آخری دن بڑی کسمپرسی میں گزارے۔ حالت یہ تھی کہ علاج کے لئے ان کے پاس مناسب رقم نہ تھی۔وہ اسی حالت میں انتقال کر گئے ۔کیمبرج یونیورسٹی کے وارڈن کو انہوں نے خط لکھا کہ اگر میں مرگیا تو مجھے امانتا دفن کر دیں اور میرا جنازہ اسلامی طریقے سے پڑھایا جائے۔ ایسا ہی ہوا بعد میں پاکستانی مشن نے اخراجات ادا کئے اور یو ں پاکستانی قوم کا ایک محسن دیار فرنگ میں آج بھی کسی کا منتظر ہے کہ وہ اسے یہاں سے لے جائے اور اس ملک کی خاک میں دفنا دے جس کے لئے اس نے جد و جہد کی۔پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم چودھری شجاعت حسین نے سینیٹر طارق عظیم اور لندن میں بیٹھے محبان رحمت علی کے اسرار پر انتطامات کر لئے تا کہ ان کو آسودگی حاصل ہو۔ شنید یہ ہے ایک میڈیا ہائوس کو اس پر اعتراض تھا جو اسلام اور نظریہ پاکستان کی بات تو کرتا ہے مگر اس کے سچے نام لیوا کو نہیں آنے دیتا بحر حال چراغ سب کے بجھے گیں ہوا کسی کی نہیں۔
بس ایک درخواست اپنے گجر اقابرین سے ہی کہ بھلے سے سیاسی دوکان چلائیں مگر اخلاص کا مظارہ کرتے ہوئے کبھی کبھی اسمبلی میں چودھری صاحب کا آئینی تشخص بحال کریں انہیں شرک نظریہ پاکستان قرار دلوائیں۔کوئی بات نہیں اللہ اسمبلی کی رکنیتیں اور وزارتیں اگر نصیب میں ہیں تو ضرور دے گا اگر مدتوں بعد جمال الدین افغانی کا جسد خاکی اپنی خاک کو پا گیا ہے تو چودھری صاحب بھی ضرور آئیں گے۔پاکستان کی اسمبلیوں میں بیٹھے وارثان چودھری رحمت علی کچھ کر کے دکھائیں۔میں ہر سال جدہ میں ان کے ایام مناتا ہوں یہاں کے شعراء ادیب ان کے بارے میں کلام کرتے ہیں۔اللہ کرے وہاں آپ بھی محبان چودھری رحمت علی کے نام سے پروگرامز کیا کریں۔ کالم کے آ خر میں حکیم مشرق کو خراج عقیدت پیش کرنے کے بعد بڑے ادب سے گزارش کروں گا کہ چودھری رحمت علی کی خدمات کے پیش نظر ان شریک خالق نظریہ پاکستان تسلیم کیاجائے اور ان کے جسد خاکی کو ادب اور احترام سے پاکستان لا کر اسلام آباد میں دفن کیا جیسے کہ شہر کراچی قاید اعظم کا مسکن شہر لاہور اقبال کا اور اسلام آباد کو چودھری رحمت علی کے جسد کا مسکن بنایا جائے۔