تحریر : سید توقیر زیدی آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ آپریشن ضربِ عضب نے فاٹا میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک تباہ کر دیا ہے، اس میں دہشت گردوں کے خلاف شاندار کامیابیاں حاصل کیں، مقصد کے حصول کے قریب ترین پہنچ گئے ہیں، آئندہ نسلوں کو محفوظ اور خوشحال پاکستان دیں گے، فوج اور حکومت خطے میں سماجی اور اقتصادی ترقی کے وعدے پورے کریں گی۔ جنوبی اور شمالی وزیرستان کے دورے کے دوران انہوں نے قبائلی عمائدین سے ملاقات کی اور عارضی بے گھر افراد کی بحالی کی پیشرفت پر اطمینان کا اظہار کیا اور اْن کی بلا رکاوٹ اور بروقت واپسی کے لئے تمام متعلقہ افراد کی کوششوں کو سراہا۔انہوں نے بہت سے ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کیا۔
اگرچہ دہشت گردی کا عفریت پوری طرح ختم نہیں ہوا اور وہ خصوصاً سافٹ ٹارگٹ منتخب کر کے بلوچستان میں مزاروں، پولیس کے تربیتی اداروں، ہسپتالوں وغیرہ میں کارروائیاں کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تاہم آپریشن ضربِ عضب کی وجہ سے دہشت گردوں کا نیٹ ورک تباہ ہو کر رہ گیا ہے اور اْن کی کارروائیاں مربوط نہیں رہیں، جو کارروائیاں ہو رہی ہیں اْن کے ڈانڈے بھی افغانستان سے ملتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں، جو کسی نہ کسی وجہ سے افغانستان فرار ہو گئے اور وہاں جا کر انہوں نے محفوظ ٹھکانے بنا لئے یہ معاملہ کئی بار افغان حکام کے ساتھ اْٹھایا جا چکا ہے کہ جن دہشت گردوں نے افغانستان میں کمین گاہیں بنا رکھی ہیں اور جہاں پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے،اْن کے خلاف افغانستان میں کارروائی کی جائے،لیکن پاکستان کے بار بار توجہ دِلانے کے باوجود یہ معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا ، تو پاکستان نے افغان سرحد سے ملحقہ اپنے علاقوں میں چیک پوسٹیں قائم کر لیں اور افغانستان جانے اور آنے والوں کی سفری دستاویزات بھی سختی سے چیک کی جانے لگیں تو افغان حکام اِس پر تلملا اْٹھے، غالباً وہ یہ چاہتے تھے کہ دہشت گردی کا سلسلہ اِسی طرح چلتا رہے اور لوگ بلا روک ٹوک پاکستان میں آتے اور واپس جاتے رہیں، افغانستان نے چیک پوسٹوں کا قیام روکنے کے لئے سرحد پر گولہ باری سے بھی گریز نہ کیا تاہم پاکستان کے سیکیورٹی کے ادارے ثابت قدمی کے ساتھ اِس فیصلے پر قائم رہے اور یوں اب دونوں ممالک کے درمیان سفری دستاویزات کے بغیر آمدورفت ناممکن ہو گئی ہے، جس سے حالات پہلے کی نسبت بہت بہتر ہو گئے ہیں اور توقع کرنی چاہئے کہ اب دہشت گردی کی وارداتیں مزید کم ہو جائیں گی۔
حال ہی میں ایک افغان خاتون شربت گلا کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ کی موجودگی کا بڑا پرچا رہا، جعلی شناختی کارڈ کی وجہ سے اس کی گرفتاری اور بعد میں رہائی بھی ہوئی، پاکستان میں اِس عورت کے ساتھ اس بنیاد پر ہمدردی کرنے والے بھی بہت تھے کہ ایام جوانی میں اس لڑکی کی سبز آنکھوں کی وجہ سے تصویر ایک امریکی جریدے کے ٹائٹل پر شائع ہو گئی تھی اور یوں اْسے عالمی شہرت حاصل ہوگئی تھی،لیکن یہ بات مدِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ کسی وجہ سے اگر کسی عورت کی تصویر کسی جریدے میں شائع ہو جائے اور وہ پاپولر ہو جائے تو کیا اْسے یہ بھی حق پہنچتا ہے کہ وہ جعلی شناختی کارڈ بھی بنوا لے؟ اور یوں بہت سے پاکستانی اس کی ہمدردی پر اْتر آئیں۔ اگر محض مہاجرین سے ہمدردی کرنی ہے تو اْن لاکھوں افغانوں سے کیوں نہیں کی جاتی ،جو پاکستان کے اندر 30سال سے رہ رہے ہیں اور اب بھی واپس جانے کے لئے تیار نہیں۔ اگر کبھی انہیں واپس بھیجا جاتا ہے تو وہ مہاجرین کے عالمی ادارے کا وظیفہ وغیرہ وصول کر کے پھر کسی نہ کسی طرح واپس آ جاتے ہیں۔
ہمدردی ایک اچھی صفت ہے اور پاکستان نے اظہارِ ہمدردی کے طور پر ہی اِن افغانوں کو پناہ دی تھی،لیکن انہوں نے پاکستان کے لئے مسائل پیدا کئے، ان میں سے جو صاحبِ ثروت تھے انہوں نے پشاور، اسلام آباد اور لاہور سمیت بڑے شہروں میں جائیدادیں خرید لیں اور کاروبار جما لئے۔ یہ سب لوگ اب آزادانہ طور پر اپنے کاروبار کر رہے ہیں، جن کے پاس وسائل نہیں انہوں نے بھی کوئی نہ کوئی دھندہ شروع کر رکھا ہے، تاہم ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں، جو پاکستانی پاسپورٹ بنوا کر بیرونی ممالک میں چلے گئے اور وہاں اگر کسی غیر قانونی سرگرمی میں گرفتار ہوتے ہیں تو بدنام پاکستان ہوتا ہے۔ یہ کاروبار چند لوگوں تک محدود نہیں رہا، لاکھوں لوگ اس میں بھی شریک ہیں اور پاکستان کی جعلی دستاویزات بنانے میں پاکستانی اداروں کے ملازمین ہی ملوث ہیں۔
Terrorism
وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اِس سلسلے میں بعض کارروائیاں کیں تو پاکستان کے اندر اْن کے ”ہمدرد” بھی اچانک متحرک ہو گئے۔ دہشت گردی کا جو سلسلہ اس وقت دْنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے اور پاکستان سے باہر بھی مشرقِ وسطی سے یورپ تک اور یورپ سے لے کر امریکہ تک دہشت گردی کی جو کارروائیاں ہو رہی ہیں اْن میں ایسے ہی نیٹ ورک ملوث ہیں۔ فاٹا کے علاقوں میں چونکہ پاکستانی قوانین کا اطلاق اس طرح نہیں ہوتا، جس طرح مْلک کے باقی حصوں میں ہوتا ہے اِس لئے دہشت گردوں نے اس سرزمین کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کیا، پہلے مقامی لوگوں کو اسلحے کے زور پر ڈرا دھمکا کر اپنی دہشت کی دھاک بٹھائی، وہاں اسلحہ ساز فیکٹریاں قائم کیں۔
دہشت گردوں کا نیٹ ورک بنایا اور مقامی لوگوں کو خود کش حملوں کے لئے تیار کیا، پاکستان کی مسلح افواج نے جب جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان کے دشوار گزار علاقوں میں آپریشن ضربِ عضب شروع کیا تو وہاں اسلحے کی ایسی فیکٹریاں اور اتنے انبار ملے کہ اندازہ لگایا گیا کہ اس اسلحے کو استعمال کر کے دہشت گرد نہ صرف پورے پاکستان میں لامحدود مْدت کے لئے دہشت گردی کی کارروائیاں کر سکتے تھے، بلکہ فورسز کے مقابلے میں لڑائی بھی کر سکتے تھے،لیکن پاکستان کی مسلح افواج نے اِن کے ٹھکانوں کو تباہ کر دیا، اسلحے کے ذخائر اور فیکٹریاں اڑا دیں، بڑی تعداد میں دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اْتار دیا، جو کسی نہ کسی طریقے سے فرار ہو گئے، وہ اب تک افغان سرزمین کو استعمال کر رہے ہیں اْن کا سدِ باب بھی کرنے کی ضرورت ہے۔
افغانستان کا معاملہ یہ ہے کہ وہاں دہشت گردی کی جو کارروائیاں ہوتی ہیں افغان حکام اْنہیں بھی کسی نہ کسی انداز میں پاکستان کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ کابل کے جس ریڈ زون میں کئی بار دھماکے ہو چکے ہیں اس کی سیکیورٹی امریکی افواج کے سپرد ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی افواج کو بھی افغانستان میں امن و امان کے قیام میں مشکلات درپیش ہیں۔ اب واشنگٹن میں نئے صدر کی آمد کے بعد اِس سلسلے میں افغان حکام کے ساتھ مل کر نئی حکمت عملی بنائی جانی چاہئے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ نہ صرف افغانستان اور پاکستان، بلکہ خطے کے دوسرے ممالک بھی دہشت گردوں کے خلاف متحد ہو کر کارروائیاں کریں۔
پاکستان کئی بار کہہ چکا ہے کہ وہ اپنی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا، اپنے اس عہد پر قائم بھی ہے،لیکن افغان حکام بھارتی ایما پر الزام تراشی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، حالانکہ دہشت گردی کا نیٹ ورک جس طرح حکومتوں اور ریاستوں کو بیک وقت چیلنج کر رہا ہے اس کے پیشِ نظر ملکوں کا تعاون ناگزیر ہے۔ افغان تعاون کے ساتھ دہشت گردی پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے، اِس لئے بہتر یہ ہے کہ افغان حکام الزام تراشی چھوڑ کر تعاون کا راستہ اختیار کریں اور خطے میں امن و امان کی بحالی میں اپنا کردار ادا کریں۔