عمران خان کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ

Imran Khan

Imran Khan

تحریر : صباء نعیم
عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کر کے کشمیری عوام کو بھی مایوس کیا ہے ۔ترک صدر کی کشمیر پر پاکستان کے موقف کی کھلی حمایت اور اس سے مسلم امہ کے اتحاد میں قائدانہ کردار کی توقع ہے۔ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے پاکستان اور ترکی کو حقیقی معنوں میں دو برادر ملک قرار دیتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے یواین قراردادوں کے مطابق حل کیلئے پاکستان کے موقف کی تائید کی ہے اور اس امر پر زور دیا ہے کہ او آئی سی کے رکن ممالک کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اپنی منظور کردہ قرارداد کی روشنی میں اقوام متحدہ میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے اور اس دیرینہ مسئلہ پر پاکستان کا موقف آگے بڑھانا چاہیے۔ گزشتہ روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا کہ پاکستان نے مسلم امہ سے تعاون کی ایک مثال قائم کی ہے جس کی بنیاد پر پاکستان اور ترکی باہم مل کر مسلم امہ کے اتحاد کا راستہ نکال سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ داعش کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں جبکہ القاعدہ دین اسلام کیخلاف جاری جنگ میں مغربی دنیا کی آلہ کار بن چکی ہے۔

انہوں نے باور کرایا کہ کچھ دہشت گرد تنظیموں کو مغربی دنیا دہشت گردی میں مدد فراہم کررہی ہے اور ہمارے پاس کچھ مغربی ممالک کی جانب سے ان دہشت گرد تنظیموں کو اسلحہ فراہم کرنے کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ ہمیں باہمی کوششوں سے دہشت گرد تنظیموں کو قلیل مدت میں دین اسلام سے نکال باہر پھینکنا ہوگا’ بصورت دیگر ہم مسلم امہ کو ذلت کے گڑھے سے باہر نہیں نکال سکیں گے۔ اسلام درحقیقت امن کا دین ہے جسے دہشت گردی سے جوڑنا دین اسلام کو بدنام کرنے کی سازش ہے’ ہمیں متحد ہو کر اسلام دشمنوں اور دہشت گرد تنظیموں کو ختم کرنا ہوگا۔ انہوں نے پاک ترک دوستی کو لازوال قرار دیتے ہوئے کہا کہ ترکی میں 15 جولائی کی بغاوت کی ناکامی کے بعد پاکستان ہمارے شانہ بشانہ کھڑا ہونیوالا پہلا ملک تھا جس پر وہ آج اہل پاکستان کیلئے تشکر کے جذبات لے کر آئے ہیں۔ خدا ہمارے باہمی تعاون کو آخر تک قائم رکھے۔

Tayyip Erdogan

Tayyip Erdogan

صدر اردوان اپنی حکومت کیخلاف ہونیوالی فوجی بغاوت میں ناکامی کے بعد پہلی بار پاکستان آئے ہیں اور پاکستان اور اہل پاکستان کیلئے وارفتگی کے جذبات کے اظہار میں کسی بخیلی سے کام نہیں لے رہے جبکہ وہ صرف کشمیر ایشو پر ہی پاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت نہیں کررہے’ بھارت کی جانب سے سی پیک کیخلاف جاری سازشیں ناکام بنانے اور کسی بیرونی جارحیت کے خدشہ کی صورت میں پاکستان کے دفاع کیلئے کردار ادا کرنے کا بھی عندیہ دے رہے ہیں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب سے قبل انہوں نے صدر مملکت ممنون حسین سے ملاقات کے دوران بھی مسئلہ کشمیر کے یواین قراردادوں کے مطابق حل کی ضرورت پر زور دیا اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی اقوام متحدہ سے تحقیقات کرانے کا تقاضا کیا جبکہ جمعرات کے روز انہوں نے وزیراعظم نوازشریف سے بھی ملاقات کی جس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے جہاں کنٹرول لائن کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا وہیں انہوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اپنے تقاضے کا اعادہ بھی کیا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ہم پاکستان کو تنہاء نہیں چھوڑیں گے اور اسکے ساتھ ہر قسم کا تعاون کرینگے۔ وہ پاکستان کی اقتصادی ترقی کیلئے اسکے ساتھ تعاون کا منصوبہ بھی اپنے ساتھ لے کر آئے ہیں جس کے مطابق انہوں نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ہم باہمی تجارت کو ایک ارب ڈالر تک بڑھانا چاہتے ہیں اور اس کیلئے پاکستان اور ترکی کے مابین 2017ء تک آزادانہ تجارت کا معاہدہ ہو جائیگا۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان اور ترک عوام دوستی کے بے مثال بندھن میں بندھے ہوئے ہیں اور اسی ناطے سے ترکی آزمائش کے ہر مرحلہ میں ہمارے شانہ بشانہ کھڑا نظر آیا ہے۔ بالخصوص رجب طیب اردوان کے ادوار میں پاک ترک دوستی کی جڑیں مزید مضبوط ہوئی ہیں۔ کسی بھی ناگہانی آفت کی صورت میں اگر ترکی نے ہمارے ملک میں متاثرین کی بحالی کیلئے امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے تو ترکی کو بھی ایسے چیلنجوں کے دوران پاکستان کی جانب سے بے لوث تعاون ملتا رہا ہے جس کا اعتراف گزشتہ روز اردوان نے پارلیمنٹ سے اپنے خطاب کے دوران بھی کیا۔ مسلم امہ کو اس وقت یقیناً دہشت گردی کے خاتمہ کے بڑے چیلنج کا سامنا ہے جس کے حوالے سے اسلام دشمن قوتیں دین اسلام پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر اسے بدنام کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ اس تناظر میں ترک صدر نے جہاں دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی بے بہا قربانیوں کو قابل ستائش قرار دیا وہیں دہشت گردوں کو دین اسلام کے دائرہ سے باہر نکالنے کیلئے مسلم ممالک کی مشترکہ حکمت عملی کا بھی تقاضا کیا اور اس معاملہ میں پاکستان کے قائدانہ کردارکو پیش نظر رکھا ہے۔ انہوں نے جن دوٹوک الفاظ میں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان کے موقف کی تائید کی اور اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے رکن ممالک سے مسئلہ کشمیر کے یواین قراردادوں کے مطابق حل کیلئے اقوام متحدہ میں اپنا کردار بروئے کار لانے کا تقاضا کیا اسکے تناظر میں انکی یہ بات حقیقت کے قالب میں ڈھلی نظر آتی ہے کہ پاکستان اور ترکی محض لفظی نہیں بلکہ صحیح معنوں میں دو برادر ملک ہیں۔

اسی تناظر میں انہوں نے پاکستان اور افغانستان کے مابین بھی سازگار تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا اور ساتھ ہی یہ بھی باور کرایا کہ اسلام دشمن مغربی دنیا کی جانب سے پاکستان اور افغانستان کے مابین انتشار پیدا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے فلسطین اور شام کیلئے بھی مسلم امہ سے اٹھ کھڑے ہونے کا تقاضا کیا تو انکے جذبات مسلم امہ کی بہتری کی فکرمندی میں ڈوبے ہوئے نظر آئے۔ چنانچہ دین اسلام کی نشا? ثانیہ کے احیائ کیلئے فطری طور پر ترکی کے قائدانہ کردار سے توقعات وابستہ ہوتی ہیں اور اسی تناظر میں ترک صدر کو دورہ پاکستان کے موقع پر اہل پاکستان کی جانب سے خیرسگالی اور باہمی بھائی چارے کا مثبت پیغام دیا گیا ہے۔ ان کا اسلام آباد میں پرتپاک استقبال ہوا جبکہ صدر اور وزیراعظم سے ملاقاتوں کے دوران بھی پاک ترک دوستی کی گرہیں مضبوط کی گئیں اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں خطاب کے موقع پر وزیراعظم نوازشریف اور حکومتی و اپوزیشن کے ارکان پارلیمنٹ کے علاوہ مسلح افواج کے سربراہان اور تین صوبوں کے وزراء اعلیٰ نے بھی اجلاس میں شریک ہو کر اور پھر سپیکر قومی اسمبلی سردار ایازصادق نے اہل پاکستان کی جانب سے ان کیلئے نیک جذبات کا اظہار کرکے پاک ترک دوستی کے انمٹ ہونے کا ٹھوس پیغام دیا۔

Parliament

Parliament

اگر تحریک انصاف کے سربراہ اپنی ضد پر نہ اڑے رہتے’ ترک سفیر کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لے لیتے اور خود بھی ترک صدر کے خطاب کے موقع پر پارلیمنٹ میں موجود ہوتے تو اس سے قومی ایشوز پر قومی قیادتوں کے متحد و یکجہت ہونے کا مثبت پیغام جاتا مگر عمران خان ”میں نہ مانوں” والے ایجنڈا پر ہی کاربند رہے جس کے باعث وزیراعلیٰ خیبر پی کے پرویز خٹک ایوان میں آئے نہ اپوزیشن بنچوں پر تحریک انصاف کا کوئی وجود نظر آیا۔ اگر ترک صدر کی جانب سے پاکستان میں جمہوری عمل کے استحکام کی بنیاد پر مسلم امہ کیلئے اسکے قائدانہ کردار کا عندیہ دیا گیا ہے تو عمران خان اپنے انتشاری ایجنڈا کی بنیاد پر سسٹم کو کمزور کرنے کی راہ پر کیوں گامزن ہیں۔

جمہوریت کا تو یہی حسن ہے کہ اپوزیشن اسکے استحکام کیلئے پارلیمنٹ کے اندر مثبت اور نمایاں کردار ادا کرتی ہے مگر عمران خان پارلیمنٹ کو بے وقعت ظاہر کرکے اسی درخت کو کاٹنے کے درپے ہیں جس کی شاخ پر انہوں نے اپنا آشیانہ بھی قائم کر رکھا ہے۔ انہوں نے صدر عوامی جمہوریہ چین کے دورہ? پاکستان کے موقع پر بھی اپنی دھرنا تحریک کے ذریعے پارلیمنٹ کا گھیرائو اور ڈپلومیٹک انکلیو بند کرکے اس اہم ترین دورے کی منسوخی کی فضا بنائی جس سے ہمارے مکار دشمن بھارت نے فائدہ اٹھایا جبکہ انہوں نے ترک صدر کے دورہ? پاکستان کے موقع پر بھی پاکستان کے دشمن بھارت کیخلاف انکے بے لوث دفاعی تعاون کی پیشکش کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے جس کے یقیناً جمہوری نظام کے استحکام کیلئے کوئی خوشگوار اثرات مرتب نہیں ہونگے۔ انہیں تو وسیع تر ملکی اور قومی مفادات کے پیش نظر اپنی حکومت مخالف تحریک اور سوچ سے وقتی طور پر رجوع کرلینا اور ترک صدر کیلئے قوم کے والہانہ جذبات میں شریک ہوجانا چاہیے تھا۔

اگر وہ لاہور میں بھی ترک صدر کیلئے وزیراعظم کی اہتمام کردہ ضیافت میں شریک ہو جاتے تو اس سے انکے اپنے سیاسی قد میں ہی اضافہ ہوتا۔ ترک صدر تو مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف اور کشمیری عوام کے جذبات کا کھل کر ساتھ دے رہے ہیں جس سے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھارت پر عالمی دبائو بڑھنے کی راہ ہموار ہوئی ہے جبکہ اسی موقع پر مقبوضہ کشمیر کے سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ بھی مودی سرکار کو باور کرا رہے ہیں کہ کشمیر بھارت کا کبھی اٹوٹ انگ تھا نہ ہے تو عمران خان کو ترک صدر کے خطاب اور انکے اعزاز میں دی گئی استقبالیہ تقریبات کا بائیکاٹ کرکے کم از کم کشمیری عوام کو تو مایوس نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ہمیں تو آج قومی اتحاد و یکجہتی کی زیادہ ضرورت ہے مگر عمران خان کو اتحاد و یکجہتی کی فضا سوٹ نہیں کررہی۔ پھر ان میں اور پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کا ایجنڈا رکھنے والی بھارت کی مودی سرکار کی سوچ میں کیا فرق ہے۔

Saba Naeem

Saba Naeem

تحریر : صباء نعیم