تحریر: عمران خان کروڑوں افراد اس وقت نواسہ رسول ، جگر گوشہ علی و بتول حضرت امام حسین عالی مقام کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے کربلا میں موجود ہیں۔ ان کروڑوں انسانوں میں دنیا بھر کے مختلف ملکوں، شہروں ، قصبوں، قوموں، مذاہب، مسالک ، زبانوں ، نظریوں سے تعلق رکھنے والے مرد، خواتین، بچے، بزرگ، علیل،بیمار، معذور، کمزور، امرائ، غربائ،روساء شامل ہیں، تاہم اتنی تفریق و تقسیم کے باوجود ان تمام انسانوں میں عشق حسین ، حب حسین مشتر ک ہے۔یوں تو پورا سال عاشقان اہل بیت اور محبان امام حسین (ع) مزار امام حسین (ع) پہ حاضری دیکر اپنے عشق و محبت کا بارگاہ خداوندی میں اظہار کرتے ہیں۔ البتہ سب سے زیادہ تعداد اربعین کے موقع پر زیارت و سلام کی غرض سے حاضر ہوتی ہے۔ اربعین عربی میں چالیس کو کہتے ہیں ۔ اردو میں جس کیلئے چہلم کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ امام حسن (ع) کی شہادت دس محرم الحرام کو ہوئی اور 20صفر المصفرکو اس دلدوز سانحہ کو چالیس دن پورے ہوجاتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں چالیس کے عدد یا دنوں کو کئی نیک اعمال کیلئے بنیاد بنایا گیا ہے۔ مثلاً رسول ختمی مرتبت کی حدیث مبارکہ ہے کہ جو اپنے چالیس دنوں کو اللہ تعالیٰ کیلئے مختص کردیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ حکمت کے چشمے اس کے دل میں سے اس کی زبان پر جاری کردیتا ہے ۔ اسی طرح چالیس احادیث کو یاد کرنے اور اسے آگے بیان کرنے کی بہت فضلیت بیان کی گئی ہے۔
اسی مناسبت سے شہادت امام عالی مقام کے چالیس دن پورے ہونے پر کروڑوں زائرین قبر امام عالی مقام یعنی کربلائے معلی میں حاضری دیتے ہیں۔ ہر سال ان افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ معروف میگزین فارن افیئرز نے اپنے گزشتہ شمارے میں اس تعداد کو تیس ملین یعنی تین کروڑ بتایا ہے اور کہا ہے کہ یہ تعداد حج سے دس گناہ سے بھی زائد ہے۔کربلا میں موجود کروڑوںمیں سے کئی زائرین مہینوں کی طویل پیدل مسافت کرکے کربلا پہنچے ہیں تو کوئی نجف اشرف سے تین دنوں کی پیادہ روی کے بعد پہنچے ہیں۔ اربعین کے موقع پر دیگر شہروں یا ملکوں سے کربلا کی جانب پیدل سفر کو ”مشی”یعنی ”پیدل چلنا”کہتے ہیں۔ اس پیادہ روی میں خواتین، بچے،بزرگ،بیمار،علیل، جوان سبھی شامل ہوتے ہیں۔ جن کیلئے عراقی شہری دیدہ و دل فرش راہ کئے ہوتے ہیں۔ پیدل رووی کے اس بے نظیر اجتماع کی اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ ا س میں نہ صرف مسلمان بلکہ عیسائی، ہندو ، یہودی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی شریک ہوتے ہیں ۔ اسی طرح یہ اجتماع وحدت انسانیت کا ایک بے مثل نمونہ بن جاتا ہے ۔جہاں رنگ و نسل اور مذہب و ملک کی قید سے آزاد ہوکر حق و حقیقت اور حریت و آزادی نیز ظلم و ستم کے خلاف امام عالی مقام اور ان کے رفقاء کی قربانی کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ جس اخلاص و عشق سے معمور زائرین کربلا کی جانب گامزن ہوتے ہیں۔
Imam Hussain Mazar
اسی محبت و خندہ پیشانی سے شہری ان زائرین کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ سارے راستے شہریوں کی طرف سے کھانے پینے کے بے شمار کیمپ، راحت و استراحت کیلئے خیمے ، قسم قسم کے مشروبات، سفر کی تکان دور کرنے کیلئے مالش و مساج اہتمام ہوتا ہے۔ نہانے کیلئے گرم پانی، مرد و خواتین کیلئے نماز، وضو ، رہائش کے الگ الگ انتظامات کئے گئے ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ جوتوں کی صفائی اور پالش کیلئے بچے، نوجوان، بزرگ عراقی شہری فرش راہ ہوتے ہیں۔ لوگ زائرین کی منت سماجت کرتے ہیں کہ آپ خدمت کا موقع دیں۔ یہ تمام سہولتیں بلا معاوضہ اور بغیر کسی اجرت کے دستیاب ہوتی ہیں۔ وہ مقامی شہری جنہیں سڑک کنارے خیمے لگانے کی جگہ دستیاب نہیں ہوپاتی وہ حسرت بھری نگاہوں سے زائرین کی منت سماجت کررہے ہوتے ہیں کہ وہ قریب ہی موجود ان کے گھر چلیں اور انہیں شرف مہمان نوازی بخشیں۔عراقی شہریوں کی جانب سے زائرین امام حسین (ع) کی خدمت رنگ، نسل،قوم، قبیلہ،مذہب و مسلک ،زبان مکان کے امتیاز کے بغیر کی جاتی ہے۔ کربلا کی جانب پیادہ روی کے دوران کہیں شہر کے امرا غریب زائرین کے جوتے صاف کرتے دیکھائی دیتے ہیں تو کہیں باریش بزرگ پیدل چلنے والے دیگر مذاہب کے افراد کا مساج کرتے ملتے ہیں۔ کہیں اہل تشیع خدمت گار، اہل سنت زائرین کے پائوں دھلاتے دیکھے جاسکتے ہیں تو عمر رسیدہ بزرگ عراقی خواتین اپنی استطاعت کے مطابق زائرین کیلئے خوراک و انصرام کے اہتمام میں مصروف ملتی ہیں۔
زائرین کی خدمت پر مبنی تصاویر سے سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے۔ اربعین کے موقع پر عوام کے ساتھ ساتھ حکومت عراق بھی ان انتظامات میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتی۔ سکیورٹی کے بہترین انتظامات کئے جاتے ہیں۔ چاک و چوبند محافظین ، بہترین اخلاق اور مکمل احترام کے ساتھ حفاظت اور رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں اور یہ سب کچھ اس امام عالی مقام کے عشق و محبت میں سرانجام دیا جاتا ہے کہ جو ظلم کے خلاف مزاحمت ، ایثار و قربانی اور سب سے بڑھ کر عشق خدا کا استعارہ بن چکا ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ عراق اور ایران کے بعد زائرین کی سب سے بڑی تعداد پاکستان سے کربلائے معلٰی کا رخ کرتی ہے ۔ پاکستان سے ہر سال لاکھوں عاشقان حسین (ع) کربلا میں حاضری دیتے ہیں، احترام آدمیت کے اس فقید المثال سفر عشق اوروحدت انسانیت کی اس تسبیح میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں، جس کے متعلق جوش ملیح آبادی نے فرمایا تھا کہ انسان کو بیدار تو ہو لینے دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حسین (ع)۔