تہران (جیوڈیسک) رواں سال کے اوائل میں ایران کے دارالحکومت تہران میں سعودی عرب کے سفارت خانے پر چڑھائی کرنے اور سفارت خانے کی عمارت کو آگ لگانے میں ملوث تخریب کار عناصر کے وکلاء نے انکشاف کیا ہے کہ ایرانی عدالتوں سے ملزمان کے خلاف حقیقی بنیادوں پر مقدمہ لڑا ہی نہیں کیا گیا۔ عدالتوں کی طرف سے ملزمان کا محض نمائشی ٹرائل کیا گیا تاکہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق مقدمہ میں ملزمان کی طرف سے پیش ہونے والے بعض وکلاء نے انکشاف کیا ہے کہ ایران کی انقلاب عدالت نے ٹھوس شواہد نہ ہونے کا بہانہ بناتے ہوئے مقدمات پراسیکیوٹر کو واپس لوٹا دیے تھے جس کے بعد تمام ملزمان کو باعزت بری کردیا گیا۔
وکلاء کا کہنا ہے کہ بہ ظاہر نمائش کے لیے کئی ماہ تک ایرانی عدالت میں سعودی عرب کے سفارت خانے پرحملوں میں ملوث افراد کے ٹرائل کا سرکس لگایا گیا۔ ملزمان کو عدالت میں بھی پیش کیا جاتا رہا مگر ججوں کے طرز عمل سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ اس کیس کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔
ایرانی میڈیا نے ہفتے کے روز محمد نریمانی نامی ایک وکیل کا بیان نقل کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ عدالت نے سعودی عرب کے سفارت خانے پرحملے کے کیس کو دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔ ایک حصے میں ’کار سرکار میں مداخلت‘ اور دوسرا سفارت خانے میں توڑپھوڑ قرار دیا گیا۔ مدعی کی عدم موجودگی کے باعث عدالت کی طرف سے کہا گیا کہ سفارت خانے میں توڑپھوڑ کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ خیال رہے کہ ایران کی ایک عدالت نے 2 نومبر کو جاری کرد فیصلے میں سعودی عرب کے سفارت خانے پرحملے اور عمارت کو آگ لگانے میں ملوث تمام 45ملزمان کو باعزت بری کردیا تھا۔
ایران کے سرکاری ذرایع ابلاغ نے تسلیم کیا ہے کہ سعودی عرب کے سفارت خانے پرحملہ کرنے والے بلوائیوں میں 20 ملزمان پاسداران انقلاب اور پاسیج فورس کے رکن ہیں۔ وہ ماضی میں شام میں بشارالاسد کے دفاع میں لڑتے بھی رہے ہیں۔ ان ملزمان کا کہنا ہے کہ پولیس نے انہیں سفارت خانے کی طرف بڑھنے سے منع نہیں کیا۔ جس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ تہران میں سعودی سفارت خانے پر یلغار باقاعدہ منصوبے کے تحت کی گئی تھی۔