تحریر: افضال احمد ایک اخباری خبر کے مطابق غربت سے تنگ اور گھریلو ناچاقی سے دلبرداشتہ 2 لڑکیوں سمیت 3 افراد نے خودکشی کر لی جبکہ خودکشی کی کوشش کرنیوالی 4 خواتین سمیت 5 افراد تشویشناک حالت میں ہسپتال داخل کر دیئے گئے۔ ملتان بہاو چوک معصوم شاہ روڈ کے رہائشی منظور احمد کی جواں سالہ بیٹی صنم نے والدین کے درمیان ہونیوالے جھگڑوں سے تنگ آکر نشہ آور گولیاں کھا لی۔ مظفر گڑھ کے رہائشی شعیب کی 17 سالہ بیٹی ربیعہ نے گھریلو حالات سے دلبرداشتہ ہو کر کالا پتھر پی کر خودکشی کرنے کی کوشش کی۔ لیہ کے رہائشی شبیر کی بیٹی ارم بھی جھگڑوں سے تنگ آکر کالا پتھر، وہاڑی کے رہائشی عبدالحمید کی 60 سالہ بیوی شریفاں بی بی اور راجن پور کے رہائشی محمد حسین کے 17 سالہ بیٹے حاجی کریم نے زہریلی گولیاں کھا کر خودکشی کرنیکی کوشش کر ڈالی ہے۔ متاثرہ تمام افراد کو تشویشناک حالت میں ہسپتال داخل کروا دیا گیا ہے جہاں ڈاکٹرزان کی جان بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں’ نور شاہ گیلانی کے نواحی موضع واہی نو کے رہائشی نصیر الدین کی 20/21 سالہ دوشیزہ روبینہ بی بی جس کی گزشتہ رات اپنے بھائی سے لڑائی ہوئی تھی جس پر دلبرداشتہ ہو کر روبینہ نے کالا پتھر پی کر زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ رحیم یار خان کی 21 سالہ سدرہ بی بی نے گھریلو ناچاقی سے دلبرداشتہ ہو کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا، مبارک پور میں غربت سے تنگ آکر عبدالجلیل کھور نے موت کو گلے لگا لیا۔گگومنڈی میں سوتیلی ماں نے اپنی دو بیٹیوں کو نہر میں پھینک دیا۔ یہ ہے جی ہمارے ملک کی صورتحال یہ خبریں پورے مہینے کی نہیں ہیں ایک ہی دن کی اشاعت ہیں یہ سب خبریں۔
اللہ تو وہ ہے جو (وہیل) مچھلی کو روزانہ سمندر میں 33 ٹن گوشت کھلاتا ہے’ 33 ٹن میں 33000 کلو گرام ہوتا ہے تو پھر ہم صرف دو وقت کی روٹی کے لئے اتنا پریشان کیوں ہوتے ہیں؟ صرف اللہ سے مانگو جو دیتا ہے۔میں نے آج تک کسی اخبار میں یہ نہیں پڑھا کہ کوئی شخص غربت یا گھریلو ناچاقی سے تنگ آکر اللہ کی راہ میں لگ گیا ہے’ نمازیں پڑھنے لگا ہے’ لوگوں کی خدمت کرنے لگا ہے’ قرآن کا درس دینے لگا ہے’ قرآن پاک سیکھنے لگا ہے’ خودکشی کمزور لوگوں کا کام ہوتا ہے جنہیں خود پر اعتماد نہیں ہوتا۔ دو وقت کی روٹی کمانا آسان ہے لیکن ہم لوگ دو وقت کی روٹی گندم کی نہیں بلکہ سونے’ چاندی کی کھانا چاہتے ہیں جس وجہ سے ہم ناکام ہو کر خودکشیاں کرتے ہیں۔ دوسروں کے پاس کاریں’ موٹر سائیکل’ بنگلے ہیں میرے پاس کیوں نہیں یہ سوچ ہماری ہمیں خودکشی تک لے جاتی ہے۔ مسئلہ دو وقت کی روٹی کا نہیں بلکہ ہمارے اندر موجود حسد کا ہے۔
Defects
گھریلو حالات کی خرابیاں کہاں سے پیدا ہوتی ہیں مختصر جائزہ لیتے ہیں یہ غلط ہے کہ سب کچھ پیسہ ہے’ دیکھنے میں آیا ہے جن گھروں میں پیسہ ہے وہ گھر بھی گھریلو ناچاقیوں سے پاک نہیں ہیں بلکہ امیر گھرانوں میں گھریلو ناچاقیاں زیادہ دیکھنے میں آئی ہیں۔ سب سے پہلے اپنی کمائی کا ذریعہ چیک کرو اپنی محنت چیک کرو کہیں آپ حرام کا پیسہ تو نہیں کما رہے’ اپنی کمائی کو بہتر بنائو ملازمت کرتے ہیں تو دل لگا کر ٹائم پورا کریں’ کاروبار کرتے ہیں تو لوگوں میں ملاوٹ کا زہر مت بیچیں’ کم تولنا چھوڑ دیں’ کسی بھی انسان کا دل مت دکھائیں’ دھوکہ مت دیں۔ والدین اپنی اولاد میں برابر کا سلوک رکھیں 5 بیٹے ہیں تو 5 بیٹوں کو برابر رکھیں چاہے 5 بیٹوں کی کمائی برابر نہ ہو بلکہ جس بیٹے کی کمائی کم ہو اُسے سہارا دیں’ دیکھنے میں آیا ہے کہ جس بیٹے کی کمائی کم ہوتی ہے اُسے والدین اہمیت نہیں دیتے گھریلو مشوروں میں شامل نہیں کرتے’ اگر والدین اولاد میں برابری نہیں رکھ سکتے تو نہ پیدا کریں اُولاد اگر والدین اولاد میں برابری نہیں رکھیں گے تو جو کم کمانے والا ہو گا وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہو جائے گا جس کی ذمہ داری والدین پر ہو گی۔
بات چل رہی ہے گھریلو ناچاقیوں کی وجہ سے خودکشی کی تو یہاں میں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ آج کل کے بزرگ سب نہیں لیکن بیشتر بزرگ ان خودکشیوں کے بہت بڑے ذمہ دار ہیں۔ میں بزرگوں کی بہت عزت کرتا ہوں لیکن معذرت سے کہنا پڑتا ہے کہ بزرگ گھروں کو تباہ و برباد کرنے میں بہت اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ بزرگوں نے اپنی زندگی میں تو سب وہ کام کئے جو نہیں بھی کرنے کے تھے لیکن آگے اُولاد پر بے جا پابندیاں یہاں تک کہ میاں بیوی کو اکٹھا سونے بھی نہیں دیتے یہ کیسی پابندی ہے؟ بزرگوں نے اپنی اولاد ‘ بہو’ داماد وغیرہ میں برابری کا تصور ختم کر کے رکھ دیا ہے ‘ جس وجہ سے گھروں میں مختلف قسم کی جنگیں جاری رہتی ہیں ‘ جہاں جنگ ہوتی ہے وہاں موت بھی ہوتی ہے’ اب سب اولاد کا دماغ ایک سا تو ہوتا نہیں کچھ بیٹیاں’ بیٹے غصے کے تیز ہوا کرتے ہیں وہ تھوڑی سی بات پر خودکشی کر بیٹھتے ہیں۔ گھریلو ناچاقی کیا ہوتی ہے؟ گھر کیسے بنتا ہے؟ گھر کا ایک سربراہ ہوا کرتا ہے جو پورے گھر کو چلاتا ہے آج کل گھر کا سربراہ ہی انصاف نہیں کرتا جس کی وجہ سے گھریلو ناچاقی جنم لیتی ہے اور کالے پتھر کی فروخت میں اضافہ ہوتا ہے’ اور قبریں کھودنے والے گورکن کو فرست ہی نہیں قبریں کھودنے سے گورکن کو کھانا کھانے کا ٹائم نہیں مل رہا۔
Research
خودکشی کرنے کا سوچنے والوں سے گزارش ہے کہ بھائی میری گھریلو ناچاقیوں کے بارے میں بہت زیادہ ریسرچ ہے۔ میں جانتا ہوں کہ کیوں خودکشی تک بات جا پہنچتی ہے’ سب بہن بھائیوں سے گزارش ہے کہ سب کو سب کے حال پر چھوڑ دو خودکشی کرکے اپنی آخرت خراب مت کرو۔ آپ اپنے ساتھ ہوئے سلوک کا بدلہ خود کو ختم کر کے مت لو’ حقیقت یہ ہے کہ آپ خود کشی کر کے خود کو اور اذیت میں مبتلا کر رہے ہو’ جن کی وجہ سے آپ خود کشی کر رہے ہو اُس کا کیا گیا؟حرام موت تو آپ مر گئے؟ دیکھو دنیا کی زندگی تو پہلے ہی چار دن کی ہے اُن لوگوں سے پوچھو جو ہسپتالوں میں پڑے ہیں زندگی کی ایک ایک سانس کو خریدنے کیلئے کروڑوں روپے خرچ کر چکے ہیں لیکن زندگی تو کیا ایک سانس اضافی نہیں خرید سکے’ آپ سب تو اچھے خاصے انسان ہیں بھائی گھریلو لڑائی جھگڑوں کو اتنا سر پر سوار مت کرو خدا پر چھوڑ دو۔ جو انسان آپ کے ساتھ برا کر رہا ہے اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دو اور خدا سے انصاف مانگو۔ خدا اگر ان ظالموں کو دنیا میں چھوٹ دے رہا ہے تو اِس چھوٹ پر خدا سے ناراض مت ہو۔ خدا ان کو آخرت میں زیادہ عذاب دینے والا ہے۔ دنیا اور آخرت کے عذاب میں فرق کی ایک چھوٹی سی مثال دیتا چلوں میں نے ایک اسلامی کتاب میں یہ بات پڑھی تھی کہ دنیا کا بچھو اگر 1 انچ کا ہوتا ہے جو انسان کو کاٹ لے تو بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے’ اکثر لوت تو بچھو کاٹنے کے خوف سے ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں’ آخرت کے بچھو کا سائز دنیا کے ”گدھے” جتنا ہو گا اب آپ خود اندازہ لگا لو آپ پر ظلم کرنے والوں کو آخرت میں کتنا بڑا عذاب ملنے والا ہے؟دنیا کا عذاب بہت کم ہے’ خدا کے ہو جائو پھر دیکھو۔
گھریلو نظام چلانے والوں (سربراہوں) سے گزارش ہے کہ ابھی قیامت نہیں آئی ابھی سے ایک دوسرے کا ساتھ دینا مت چھوڑو۔پیسے کو دین ایمان مت بنائو’ میں نے تو سنا ہے کہ قیامت کے دن والدین بھی اُولاد کا ساتھ نہیں دیں گے؟ والدین سے گزارش ہے کہ ابھی قیامت واقع نہیں ہوئی ہے، آپ لوگ ابھی سے اپنی اولاد کا ساتھ مت چھوڑو۔ بھائی بہنوں کا ساتھ دیں’ امیر بھائی غریب بھائی کا ساتھ دے’ لیکن ہمارے معاشرے میں اُلٹی گنگا بہتی ہے جو بھائی امیر ہوتا ہے غریب بھائی کے سامنے شاپنگ بیگ لا لا کر رکھتا ہے جبکہ اُس غریب بھائی کے پاس ایک وقت کی روٹی کے لئے 20 روپے بھی جیب میں موجود نہیں ہوتے۔ اسی طرح اگر ایک امیر بہن کی بات کر لو تو وہ نت نئی شاپنگ کر کر کے اپنی غریب بہن سے پوچھتی ہے کہ یہ سوٹ مجھے پہنا ہوا کیسا لگے گا؟ ارے بھئی! اُس بیچاری غریب کے سینے میں بھی دل ہے کیوں اُس کے دل سے کھیل رہی ہو؟ اگر 2 بھائیوں کی بیویاں ایک گھر میں اکٹھی رہ رہی ہوں تو امیر بھائی کی بیوی غریب بھائی کی بیوی کو کپڑوں کے نت نئی ڈیزائن متعارف کرواتی ہے جس سے غریب بھائی کی بیوی کا دل دکھتا ہے اور اُس کے دل میں آجاتا ہے کہ میرا شوہر نکما ہے۔ ان سب مثالوں سے گھروں میں مختلف لڑائیاں ہوں گی جن لڑائیوں کی نوبت خودکشی تک جا پہنچے گی۔اہل علم میری اصلاح فرمائیں شکریہ۔