تحریر : صباء نعیم اپنے آپ کو پانامہ لیکس کیس کی وکالت سے الگ کر لینے والے ممتاز قانون دان حامد خان کیا اب تحریک انصاف کی سیاست میں بھی متحرک رہ سکیں گے یا نہیں؟ جونہی پانامہ لیکس کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھے گا، یہ سوال اہمیت اختیار کر جائے گا، کیونکہ جب تک تو تحریک انصاف اس کیس میں مصروف ہے، دوسرے سیاسی امور کی جانب اس کی توجہ نہیں ہے، لیکن جونہی کیس کا فیصلہ ہو جائے گا اس کے بعد تحریک انصاف کو اپنی سیاست کی جانب توجہ دینا ہوگی، جب پارٹی نے دھرنوں اور جلسوں کی سیاست شروع کی تو انٹرا پارٹی انتخابات ملتوی کر دئیے گئے تھے اور کہا یہ گیا تھا کہ پارٹی کی سیاسی توجہ چونکہ حکومت مخالف تحریک پر ہے، اس لئے فی الحال انتخابات نہیں کرائے جاسکتے، لیکن اب یہ باب ہی سرے سے بند کر دیا گیا ہے اور پارٹی کا الیکشن کمیشن بھی توڑ دیا گیا ہے، ویسے بھی جب انتخابات نہیں کرانے تو پھر الیکشن کمیشن کو قائم رکھنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ تحریک انصاف نے پارٹی میں ایک ہی بار الیکشن کرائے تو ان کا جو نتیجہ سامنے آیا وہ پارٹی کے لئے اچھا نہیں تھا، یہ ان دنوں کی بات ہے جب عمران خان ہر حالت میں پارٹی الیکشن کروانا چاہتے تھے۔
لیکن الیکشن ہوگئے تو جماعتی الیکشن پر ایسے الزامات سامنے آگئے، جو عام طور پر ملکی انتخابات پر لگتے ہیں، پارٹی الیکشن تو ایک محدود سی سرگرمی ہوتی ہے، اس میں بھی اگر ووٹ خریدنے، جعلی ووٹ ڈالنے اور دھاندلی کے الزامات لگائے جائیں تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان انتخابات میں اور کیا کچھ نہیں ہوا ہوگا، ویسے ہم نے دیکھا ہے کہ بہت سی سیاسی جماعتوں نے جب بھی جماعتی انتخابات کا شوق پورا کیا، جماعتوں میں دھڑے ابھر کر سامنے آگئے، یہ جو آپ کو مسلم لیگوں کے بہت سے دھڑے نظر آتے ہیں، یہ بھی پارٹی انتخابات ہی کے نتیجے میں بنے تھے۔ لیکن یہ ذرا پرانی باتیں ہیں اور خود مسلم لیگیوں کو یاد نہیں ہوں گی، اس لئے ان کا تذکرہ چھوڑ کر ماضی قریب کی بات کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کے انتخابات میں جو شکایات سامنے آئی تھیں، ان کی تحقیقات کے لئے عمران خان نے سابق جسٹس وجیہہ الدین احمد کو تحقیقات کا کام سونپا تھا، جنہوں نے جو سفارشات مرتب کیں، وہ عمران خان کو قابل قبول نہیں تھیں۔
کیونکہ دوسری سفارشات کے علاوہ جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد نے کہا تھا کہ جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کو پارٹی سے نکال دیا جائے کیونکہ یہ دونوں حضرات پارٹی میں ووٹوں کی خریداری میں ملوث رہے ہیں۔ اب آپ خدا لگتی کہئے کہ اگر ان دونوں مالدار شخصیات کو پارٹی سے نکال دیا جاتا تو پارٹی کے اخراجات کون برداشت کرتا؟ ان دونوں حضرات کو مسلم لیگ (ن) والے اے ٹی ایم مشینیں بھی کہتے ہیں، آج کے دور میں پارٹیاں پیسے کے بغیر نہیں چلتیں اور نہ جلسے جلوس پیسہ خرچ کئے بغیر نکالے جاسکتے ہیں۔
PTI Rally
اب آپ یہی دیکھئے کہ اگست 2014ئ کے دھرنے میں پہلے یا دوسرے دن دھرنے والوں سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے خوشی خوشی اعلان کیا تھا کہ جلسہ چھوڑ کر نہ جائیں، میں قیمے والے نانوں کا آرڈر دے کر آیا ہوں۔ اب جو دھرنا 126 دن تک چلا، اندازہ کیا جاسکتا ہے اس میں کتنے کروڑ روپے کے قیمے والے نان کھائے گئے ہوں گے، بعض لوگ تو رات کے وقت اس لئے جمع ہو جاتے تھے کہ کھانا مفت ملے گا اور ان آرٹسٹوں کے فن کا مظاہرہ بھی مفت دیکھ لیں گے جو ایک ایک فنکشن کے 10, 10 لاکھ روپے لیتے ہیں، یہ فنکار دھرنوں میں مفت پرفارم کر رہے تھے۔ سو عرض یہ کیا جا رہا تھا کہ وجیہہ الدین احمد کی انصاف پسندی اور اصول پسندی پر عمل کیا جاتا تو پھر پارٹی کیسے چلتی؟ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے جسٹس وجیہہ الدین کو پارٹی سے نکالنا گوارا کرلیا لیکن کسی نے جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا بلکہ لاہور کے حلقہ 122 کے ضمنی انتخابات کے موقع پر کہا گیا کہ پارٹی کے پاس ان سے بہتر امیدوار نہیں۔
اب ایسے شخص کو پارٹی سے نکالا جاتا یا جسٹس وجیہہ کو؟ ہمیں ذاتی طور پر علم ہے کہ پارٹی کے بعض بہی خواہ جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کو بڑے ارمانوں سے پارٹی میں لائے تھے، ان کا خیال تھا کہ عمران خان نہ صرف مختلف نوعیت کے لیڈر ہیں بلکہ سٹیٹس کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں، پارٹی الیکشن بھی اسی لئے کروا رہے ہیں کہ پارٹی کے اندر لوگ منتخب ہوکر آئیں، لیکن یہ سب دور کے ڈھول سہانے ثابت ہوئے۔ پیسہ جیت گیا اور اصول پسندی ہار گئی۔ حامد خان کا تعلق بھی جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد اور ان کے قریبی ساتھیوں سے یوں تھا کہ یہ لوگ پارٹی کے اندر اصولی بات کرتے تھے۔ حامد خان تو وکلاء کی سیاست میں بھی سرگرم ہیں اور سپریم کورٹ بار سے لے کر نیچے تک ان کے گروپ کے ارکان عہدیدار منتخب ہوتے رہتے ہیں، لیکن وکلاء کی سیاست میں بھی ان کی اصول پسندی معروف ہے۔
اس لئے موجودہ حالات میں نہیں لگتا کہ وہ پارٹی میں زیادہ عرصہ رہ سکیں گے۔ 2013ء کے الیکشن وہ لاہور سے ہار گئے تھے، ان کا کیس اب تک چل رہا ہے، اب جہاں تک 2018ء کے الیکشن کا تعلق ہے، یہ بات بھی یقینی نہیں ہے کہ اگر موجودہ صورت حال جاری رہی تو انہیں پارٹی ٹکٹ بھی ملے گا یا نہیں۔ اول تو مجھے نہیں لگتا کہ وہ اگلے الیکشن تک پارٹی میں رہیں گے بھی یا نہیں۔ وہ اگر خود رہنا بھی چاہیں گے تو پارٹی کا سوشل میڈیا انہیں کسی طرح ٹکنے نہیں دے گا، جس پارٹی کے اندر ایک ہی شخص کی رائے کو حرف آخر سمجھا جائے اس میں جسٹس (ر) وجیہہ الدین اور حامد خان جیسے لوگ زیادہ دیر نہیں رہ سکتے۔ 2018ء کے الیکشن تک تو چودھری سرور بھی برطانیہ واپس جاچکے ہوں گے۔