ایران (جیوڈیسک) ایران میں سنہ 1979ء میں برپا آیت اللہ علی خمینی کے انقلاب کے بعد ان کے جانشین خود کو سفید پوش اور درویش صفت حکمرانوں کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔
اس کی مثال ایران کی جوڈیشل کونسل کے چیئرمین صادق آملی لاری جانی سے لی جا سکتی ہے جن کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ دسیوں بنک کھاتوں میں کروڑوں ڈالر کی رقم چھپائے ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق صادق لاری جانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے چہتے لیڈروں میں شمار ہوتے ہیں۔ سپریم لیڈر نے انہیں 15 اگست 2009ء کو پانچ سال کے لیے اس عہدے پر فائز کیا۔
آیت اللہ علی خامنہ ای جوڈیشل اتھارٹی کے سربراہ صادق لاری جانی کی کار کردگی سے بہت مثاثر ہوئے اور دعویٰ کیا کہ جسٹس لاری جانی کے دور میں ایران میں عدلیہ نے غیر معمولی ترقی کی۔ لاری جانی کی اسی ’کارکردگی‘ کو سامنے رکھتے ہوئے خامنہ ای نے انہیں 2014ء میں مزید اگلے پانچ سال کے لیے جوڈیشل اتھارٹی کے سربراہ کے عہدے پر توسیع دے دی۔
سپریم لیڈر کے چہتے جوڈیشل اتھارٹی کے سربراہ صادق آملی لاری جانی کو ایک عرصے تک سفید پوش سمجھا جاتا رہا۔ چند روز قبل ان کی سفید پوشی کا بھرم اس وقت کھلا جب پتا چلا کہ موصوف کے دسیوں بنک کھاتے ہیں جن میں بھاری رقوم چھپائی گئی ہیں۔
گذشتہ ہفتے ایران کے فارسی ذرائع ابلاغ اور غیرملکی اخبارات نے بھی ایرانی عدلیہ کے چیف کے بنک اکاؤنٹس اور ان میں رکھی گئی رقوم کے بارے میں رپورٹس شائع کرکے سب کو حیران کر دیا۔
ایران کی مقامی فارسی نیوز یوب سائیٹ ’’در‘‘ نے انکشاف کیا کہ جوڈیشل اتھارٹی کے سربراہ جسٹس صادق لاری جانی کے 63 بنک کھاتے ہیں جن میں ایک ہزار ارب ایرانی تومان رقم رکھی گئی ہے۔ امریکی کرنسی میں یہ کرنسی 3 کروڑ 10 لاکھ ڈالر سے زیادہ ہے۔
اخبارات کی رپورٹس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ بھاری رقوم کئی طریقوں سے جمع کی گئی ہیں۔ کرپشن کے خلاف لڑنے کا دعویٰ کرنے والے لاری جانی نے مقدمات کے عوض ملنے والی ضمانت کی رقوم اپنے ذاتی کھاتوں میں منتقل کیں۔ اس کے علاوہ ان کے اپنے کئی کھاتوں میں رکھی گئی رقم سے انہیں ماہانہ 22ارب تومان منافع ملتا رہا ہے۔ یہ منافع امریکی کرنسی میں چھ ملین 8 لاکھ ڈالر کے برابر ہے۔
ایران میں جوڈیشل اتھارٹی کے سربراہ کے پر اسرا بنک کھاتوں اور ان میں منتقل کی گئی بھاری قوم کی خبریں سامنے آنے کے بعد کئی حکومتی عہدیدار ان کے دفاع میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ صادق آملی لاری جانی کے دفاع میں بولنے والوں میں پہلا نام ایرانی وزیر اقتصادیات علی طیب نیا کا ہے۔
انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں سرے سے یہ بات تسلیم ہی نہیں کہ جوڈیشل کونسل کے ذاتی 63 بنک کھاتے ہیں اور ان میں خطیر رقم رکھی گئی ہے۔ تاہم انہوں نے یہ کہا کہ صادق لاری جانی کے چند ایک بنک کھاتوں میں جو رقم رکھی گئی ہے وہ وزارت خزانہ کے مشورےوہان منتقل کی گئی ہے۔ یہ رقم صادق لاری جانی کی ذاتی نہیں ہے۔
صادق لاری جانی کے بنک کھاتوں کا معاملہ ایرانی پارلیمنٹ تک جا پہنچا ہے۔ حال ہی میں ایرانی رکن پارلیمنٹ محمود صادقی نے بھی ایوان کے اجلاس کے دوران وقفہ سوالات میں وزیر اقتصادیات سے استفسار کیا کہ قوم جاننا چاہتی ہے کہ صادق لاری جانی کے اتنے بنک کھاتے کیسے بنائے گئے اور ان میں خطیر رقوم کیوں اور کن ذرائع سے ڈالی گئی ہے۔
ایرانی سماجی کارکن اور نوبل انعام یافتہ شیریں عبادی کا کہنا ہے کہ 6800 لاکھ ڈالر کے جس منافع کی رقم صادق لاری جانی کے بنک کھاتے میں موجود ہے ایرانی قانون کے تحت اسے جوڈیشل اتھارٹی کے سرکاری کھاتے میں ہونا چاہیے تھا۔ اس رقم کو جوڈیشل اتھارٹی کی فلاح بہبود اور اس کے ملازمین پر خرچ کیا جاتا۔ مگر اس رقم کو جوڈیشل اتھارٹی کے سربراہ کے ذاتی کھاتوں میں منتقل کیے جانے سے کئی طرح کے سوالات جنم لے رہے ہیں۔ ادھر دوسری جانب ایرانی عدلیہ اس سارے کیس پر خاموش ہے۔ خود صادق لاری جانی کی جانب سے بھی اس حوالے سے کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔