تحریر: میر افسر امان پانامہ لیکس پر جب ملک میں اپوزیش نے ایک ہنگامہ کھڑا کیا تھا تو وزیر اعظم جناب نواز شریف صاحب کو دو دفعہ ٹی وی اور ایک بار مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) میں وضاحت کرنی پڑی تھی۔ وزیر اعظم نے ریٹائرڈ جج سے پاناما لیکس کی انکوئری کا کہا تو اپوزیش نہ مانی اور حاضر جج کی ڈیمانڈ کی۔ وزیر اعظم نے سپریم کورٹ کو خط لکھا کہ وہ پاناما لیکس کی انکوئری کے لیے کسی حاضر جج کو تعینات کرے۔ مگر سپرہم کورٹ نے واپس حکومت کو کہا کہ ١٩٥٦ء کے قانون کے تحت پاناما کی انکوئری ممکن نہیں۔ اس کے لیے مجلس شوریٰ نیاقانون بنائے۔ قانون کے نقات جسے ٹرم آف ریفرنس کہتے ہیں، کو بنانے پر حکومت اور اپوزیشن کی کئی میٹینگ ہوئی۔
ان میٹنگوں میں حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق نہ ہو سکا۔ حکومت کہتی تھی کہ صرف وزیر اعظم کااحتساب نہ ہو بلکہ سب کا ہو۔ اپوزیشن کہتی تھی کہ پہلے وزیر اعظم اور اس کی فیملی کا احتساب ہو پھر اس کے بعد سب کا ہو ۔عمران خان نے بھی اپنے احتساب کا کہا تھا۔ وزیراعظم خود تین دفعہ اپنے خطاب میں اپنے احتساب کا قوم سے وعدہ کر چکے ہیں۔اس پر حکومت اور اپوزیشن کا اتفاق نہ ہونے پر کافی وقت ضائع ہو گیا۔ آخر میں دونوں نے اپنے اپنے ٹی او آربنائے ۔
اگر ٹی او آر پر متفقہ فیصلہ ہو جاتا تو ان ٹی او آر کو مجلس شوریٰ کے دونوں ایوانوں سے پاس کروا کر ملک کا قانون بننا تھا۔ پھر اس قانون کے مطابق سپریم کورٹ نے مقدمہ سننا تھا۔ دونوں فریقوں نے اپنا اپنا نقتہ نظر پیش کرنا تھا اور سپریم کورٹ نے کوئی فیصلہ سنانا تھا۔ اس کام میں چھ ماہ زیادہ عرصہ گزر گیا۔ اپوزیشن کا الزام تھا کہ حکومت نے ٹال مٹول سے کا م لیا۔ دیر کی پالیسی اختیار کی کہ ایسے کرنے سے پاکستان کے عوام پاناما لیکس کو بھول جائیں گے۔ حکومت نے اس الزام کا انکار کیا۔ اس دوران اپوزیشن نے اپنے ٹی او آر کو مجلس شوریٰ کے ایوان بالا(سینیٹ) میں پیش کر دیا۔ حکومت سے کہا کہ وہ ان ٹی او آر کو مجلس شوریٰ زیریں (پارلیمنٹ)سے پاس کرا کر قانون بنائے تاکہ مسئلہ حل ہو۔دوسری طرف عمران خان، سینیٹر سراج الحق اور شیخ رشید صاحبان نے سپریم کورٹ میں پاناما کی تحقیق کے لیے درخواستیں دی ہوئی تھیں جسے پہلے سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے فنی خرابی کے وجہ سے واپس کر دیا تھا۔
Sirajul Haq and Imran Khan
دوبارہ پیش کرنے پر سپریم کورٹ نے یہ درخواستیں منظور کر لیں۔اُدھر عمران خان اور جماعت اسلامی نے کرپشن کے خلاف عوامی آگاہی کے لیے ملک میں احتجاجی پروگرام کیے۔ جماعت اسلامی نے فیصل آباد اور تحریک انصاف نے پہلے رائے ونڈ اور پھر اسلام باد کو بند کرنے کی کال دی۔ حکومت اور دوسرے سیاسی حلقوں نے زور دیا ،کہ جب سپریم کورٹ نے مقدمہ سننے کے لیے تیار ہو گئی ہے تو اسلام آباد بند کرنے اور احتجاج کرنے کی ضرورت نہیں ۔ عمران خان اپنی روائتی جلد بازی کرتے ہوئے نہ مانے اور سارے ملک سے اپنے کارکنوں کو اسلام آباد پہنچنے کی کال دے دی۔
عمران خان نے اپوزیشن کی کسی بھی سیاسی جماعت کو ساتھ ملانے کی کوشش نہیں۔ اس سے اپوزیشن کا اتحاد ٹوٹ گیااور ساری جماعتیں عمران خان سے الگ ہو گئیں۔ اسلام آباد کو بند کرنے کے اعلان پر پورے ملک میں حکومت نے تحریک انصاف کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ شروع کر دی۔ سارے ملک کے راستوںمیں کنٹینرز لگا کر تحریک انصاف کے کارکنوں کو روکے رکھا۔سارا ملک میدان جنگ کا نقشہ پیش کر رہا تھا۔خیبر پختوخوا سے آنے والے قافلے کو پنجاب کی سرحد میں داخل نہ ہونے دیا۔ دونوں صوبوں کے درمیان پل پر سات روئیں والی کنٹینرز اور مٹی کے پہاڑ کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔آنسو گیس کے شیل مارے گئے جس سے لوگ زخمی ہوئے۔ لوگوں نے اشتعال میں آکر ایک طرف کھڑی پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ بلا آ خر قافلے نے کنٹینرز اور مٹی کے پہاڑوں کی ساری رکاوٹیں بلڈوزر سے ہٹا کر پنجاب میں برہان انٹر چینج تک پہنچ گئے۔
حکومت کی طرف سے رات پھر آنسو گیس کا استعمال کیاگیا۔ تحریک انصاف کے کارکنوں نے رات سردی میں وہی گزاری۔ صبح عمران خان کے کہنے پر کارکن واپس خیبرپختونخوا چلے گئے۔ عمران خان کو بنی گالہ کے گھر پر محصور کر دیا گیا ۔ ان کے گھر کے باہر رکاوٹیں اور چیک پوسٹ بنائی گئیں۔آنسوگیس پتھرائو اور گرفتاریاں کی گئیں۔ اسی دوران سپریم کورٹ نے پاناما کیس سننے کی کی تاریخ کا اعلان کر دیا۔عمران خان نے فیس سیونگ کے لیے اسلام آباد کو بند کرنے کے بجائے یوم تشکر کا اعلان کر دیا۔
Supreme Court
یوم تشکر منایا گیا جس میں تحریک انصاف کے قابل ذکر کارکن شریک ہوئے۔ سپریم کورٹ نے لارجر بنچ تشکیل دیا۔سپریم کورٹ نے کیس شروع کرنے سے پہلے سارے فریقوں کو کہا کہ لکھ کر دیں کہ ان کو سپریم کا کورٹ کا فیصلہ قبول ہو گا۔ سب نے لکھ کر دے دیا کہ قبول ہو گا۔سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کے بچوں کو اپنے اثاثوں کے ثبوت پیش کرنے کے لیے حکم کیا۔ پہلے کچھ دستاویز پیش کیں پھر ان کی طرف سے قطر کے شہزادے کی طرف سے ایک خط پیش کیا گیا جس میں لکھا ہوا ہے کہ کہ لندن کے فلیٹ اس پیسے سے خریدے گئے جوشریف خاندان نے قطر کے شہزادے کے والد کے ساتھ تجارت کے مقصد کے لیے سرمایا کاری کی تھی۔ وزیر اعظم اپنی دو
٢ تقریروں اور مجلس شوریٰ کے خطاب میں فر ما چکے ہیں کہ یہ فلیٹ ہم نے سعودی عرب میں سٹیل مل کو فروخت کر کے خریدے تھے۔ اب ملک میں چہ مے گوئیاں شروع ہونے لگیں کہ یہ قطری شہزادہ کہاں سے پیچ میں آ گیا۔ اخباری خبروں اورتبصروں کے مطابق جب اس سے قبل ہیلی کاپٹر کیس میں نواز شریف کو دس سال کی سزا ہوئی تھی توثبوت کے طور پر دبئی سے خط آیا تھا کہ یہ ہیلی کاپٹر ہماراہے۔ اس پر سزا ختم ہوئی تھی۔کیس کی کاروائی کے دوران عدالت کے ججوں نے ریمارکس دیے کہ نواز شریف کے بیان کردہ حقائق اور اس خط میں کافی لمبا عرصہ ہے۔ تحریک انصاف کے وکیل سے کہا کہ آپ اخباروں کے تراشے پیش کر رہے ہیں یہ تو ایک اخبار کا ٹکڑا ہے اس پر تو دوسرے دن پکوڑے ڈال کر فروخت کیے جاتے ہیں۔ یہ ثبوت نہیں ہیںٹھوس ثبوت پیش کیے جائیں۔ اس پرتحریک انصاف کے وکیل پر تحریک انصاف کے اپنے لوگوں نے اعتراض کرنے شروع کیا تو انہوں نے اس مقدمے میں پیش ہونے سے معذرت کر لی۔
سپریم کورٹ نے لمبی تاریخ دی توعمران خان اپنے بچوں کو ملنے لندن چلے گئے۔ اب واپس آکر انہوں نے چار رکنی وکلا کی نئی ٹیم مقرر کی ہے جس کے ہیڈ نعیم بخاری ہونگے۔ بابر اعوان صاحب بھی اس ٹیم میں شامل ہونگے۔صاحبو! جب ملک میں کسی مسئلہ پر نزاع پیدا ہو جائے اور ملک افراتفری کی طرف جانے لگے تو سپریم کورٹ ہی واحد آئینی ادارہ ہے جو اس معاملے کو سدھار سکتی ہے۔ ساری قوم کی نظریں سپریم کورٹ کی طرف ہیں ۔ سپریم کورٹ نے بھی کہا ہے پاناما لیکس کیس کا فیصلہ جلد از جلد کیا جائے گا اور کیس صرف لندن کے فلیٹ تک ہی معدود رہے گا۔اگر اپوزیشن کے ساری اعتراضات،یعنی قرض معاف کروانے کے کیس شامل مقدمہ کیے جائیں تو سالوں سال لگ جائیں گے۔ اس سے لگتا ہے کہ انشا ء اللہ جلد از جلد کوئی نہ کوئی فیصلہ آ جائے گا جو سب فریقوں کو منظور ہو گا۔ہمارا ازلی دشمن بھارت پر جنگی جنون سوار ہو گیا ہے۔اس نے ہمارے زمینی، بحری اور بری سرحدوں پر چھیڑ خانی شروع کر دی ہے۔ہمارے بے گناہ فوجی اور شہری شہید ہو رہے ہیں۔ سرحدی جھڑپوں کے علاوہ ہمارے صوبے بلوچستان میں تین بڑے واقعے ہوچکے ہیں جو یقیناً ہمارے ازلی دشمن بھارت نے کروائے ہیں۔ اس میں سیکڑوںقیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ اللہ کرے پاناما لیکس کا مقدمہ جلد ختم ہو اور ساری سیاسی قیادت اپنی سرحدوں کی حفاظت کی تدبیروں کے لیے یک جان ہو جائیں اور دشمن کے عزائم کو ناکام بنا دیں۔اللہ ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے آمین۔
Mir Afsar Aman
تحریر: میر افسرامان کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان