بوٹ کا رنگ ایک ہے

PMLN and MQM

PMLN and MQM

تحریر: انجینئر افتخار چودھری
جیسے جیسے نومبر ختم ہو رہا ہے لگتا ہے نون لیگ اور دیگر پارٹیوں کا ساہ سوکھا ہو رہا ہیان کی گردن سے ایک بوجھ ہلکا ہو رہا ہے۔ لیکن اس ملک کی خوشقسمتی یا بد قسمتی کہہ لیجئے بوٹ کے اندر پائوں بدلتا ہے بوٹ بوٹ ہی رہتا ہے لہذہ نون لیگ ایم کیو ایم اور اچکزئیوں کو چھج پتاسے نہیں بانٹنے چاہئیں ۔قوم دیکھ رہی ہے کہ کوئی ایک استول تو مہیا نہیں کر رہا؟ اور کسی کو بکرے کی طرح سلام تو نہیں کرنا ہو گا۔بنی مالک سے اسلام آباد کا فاصلہ ہزاروں میل ہے اللہ کرے عملا بھی ایسا ہو۔لیکن یاد رکھئے سائز پائوں کا کوئی بھی ہو بوٹ کا رنگ ایک ہے۔

جدہ کے محلے بنی مالک میں ارشد خان مرحوم کو بڑی پریشانی لاحق تھی مہمان خصوصی کا قد بہت چھوٹا تھا اسے یہ پریشانی لاحق تھی کہ وہ لوگوں کے سامنے کیسے کھڑے کئے جائیں سٹیج تھا ہی نہیں۔جدہ میں موجود جتنے بھی صحافی تھے وہاں موجود تھے ارشد خان مسلم لیگ نون کے صدر تھے یوں تو قاری شکیل بھی صدر تھے مگر ان گروپوں کا ٹاکرا مرتے دم تک رہا قاری شکیل ٢٠٠٤ میں اللہ کو پیارے ہوگئے اور ارشد خان پچھلے سال اس دنیا سے منہ موڑ گئے دونوں بڑے دل چسپ اشخاص تھے دونوں سے گہرا تعلق رہا ۔مہمان خصوصی اس وقت کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ تھے شاہ جی کا قد بہت چھوٹا تھا۔ارشد خان کی پریشانی کا حل انہوں نے نکال لیا۔

Jalsa

Jalsa

مسلم لیگیوں کے اس جلسے میں ساٹھ ستر کے قریب لوگ تھے جناب نسیم حسن شاہ کے لئے ایک اسٹول ڈھونڈا گیا پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے جج کو لکڑی کے اسٹول پر کھڑا کر دیا گیا۔میں نے زندگی میں یہ تماشہ دیکھا اور وہ بھی جس میں کسی بکرے کو کسی اسٹول پر کھڑا کر کے شائقین کو سلام کرنے کا کہا جاتا ہے اور پھر تماشہ کرنے والا کہتا ہے کہ دیکھنے والو اس پر نوٹ نچھاور کرو۔شاہ جی نے تقریر شروع کی اور کہا کہ انشاء اللہ فیصلہ ایسا ہو گا جس سے آپ خوش ہو جائیں گے یاد رہے سپریم کورٹ میں میاں نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے خلاف اپیل تھی۔پاکستان کی اعلی عدلیہ کا جج جدہ کے بنی مالک ہوٹل میں خطاب فرما رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں میرے مسلم لیگی بھائیو فیصلہ وہ ہوگا جو آپ کو خوش کر دے گا عوام خوش ہو جائیں گے۔مری اس بات کی تصدیق کرنے ارشد خان تو اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن وہاں بیٹھے ہوئے دوستوں کی اکثریت آج بھی موجود ہے اللہ ارشد خان کی بخشش فرمائے یہ وہی ارشد خان ہیں جنہیں میاں مشریف نے نارووال ڈسٹرکٹ کونسل کا ممبر بنوایا تھا اور بعد میں چیئرمین بھی۔ان کی وجہ ء شہرت دروغ بر گردن راوی یہ بھی ہے کہ انہوں نے مسلم لیگ کے ایک موجودہ وزیر کے منہ پر پانچ انگلیوں کے نشان بھی چھوڑے تھے۔

وقت گزر گیا ہے وزیر موجود ہے نسیم حسن شاہ اس دنیا میں نہیں ہیں ۔آج مجھے یہ بات تب یاد آئی جب میں نے اخبارات میں خورشید شاہ کا یہ بیان پڑھا جس میں انہوں نے کہا کہ ان عدالتوں کو ماضی میں خریدا جاتا رہا ہے اور فون کالوں پر پھانسیوں کے فیصلے ہوتے رہے ہیں۔بد قسمتی سے یہ بات اس شخص کے منہ سے نکل رہی ہے جو کرپشن کا بادشاہ ہے اور جس نے پیپلز پارٹی کے دور میں خوب کمایا بلکہ حج منسٹری میں اپنے ایک عزیز کے ذریعے بعد میں بھی کماتا رہا۔حاجیوں کی سموں میں بھی ایک ارائیں نامی شخص کے ذریعے مار دھاڑ کی۔بات یہ نہیں کہ کون کیا کہہ رہا ہے بات یہ ہے کہ بات ہے کیا؟ میں خورشید شاہ کی اس بات کی تائد کرتا ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو کا قتل ایک عدالتی قتل تھا۔مین اس روز ،روز کے پروگرام میں تھا ایک تجزیہ کار کالا کوٹ پہن کر نون لیگئے کی شکل میں موجود تھا اس نے کہا کہ ایک اخلاقی فیصلہ ہو گا اور ایک قانونی۔میاں نواز شریف اخلاقی طور پر یہ مقدمہ ہار جائیں گے مگر قانونی طور پر یہ کیس جیت جائیں گے گویا اخلاقیات کا تعلق ہماری زندگیوں میں ہے ہی نہیں۔

ایک کیس جس کی ابتداء میں کہا گیا کہ یہ رقوم میرے والد دبئی لے کر گئے وہاں سے جدہ اور جدہ سے یہ رقوم لندن پہنچیں اب ایک نئے وکیل صاحب میدان میں کود کر کہتے ہیں کہ یہ رقوم قطر سے اس انویسٹمنٹ سے آئیں جو میاں شریف نے اسی کی دہائی میں کیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انویسٹمینت اسی کی دہائی میں ہوئیں جس وقت قطر راجن پور جیسا ایک ملک تھا( راجن پور کا نام اس لئے لیا کہ یہ پنجاب کے پسماندہ ترین اضلاع میں سے ہے) ایک خط لکھ دینے سے اور اس کے لئے گواہیاں دینے کام نہیں چلے گا ظاہر ہے کمپنیز میں رقوم جب خرچ کی جاتی ہیں تو کھاتے اسی کی دہائی سے ٢٠١٦ تک چلے ہوں گے یہاں دیکھنا ہے کہ پی ٹی آئی کے وکلاء کیا مو ء قف اختیار کرتے ہیں اگر ان کھاتوں تک بات پہنچتی ہے تو سمجھ لیں ان کی رسائی کا معاملہ لٹک جائے گا۔جھوٹ تو اس بات پر ہی ثابت ہو جائے گا کہ اسمبلی فلور اور قوم سے خطاب میں کیا کہا گیا۔پاکستان کی عدالتوں کا ٹریک ریکارڈ اچھا نہیں رہا سندھ کو ہمیشہ یہ گلہ رہا کہ پنجابی شائنزم عدالتوں کا لباس پہن کر ہماری گردنیں لمبی کرتا رہا۔یہ الگ موضوع ہے کہ ہم نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے بھی سبق نہیں سیکھا ہر کام میں بڑے بھائی کی رضا مندی نہ ہو تو چھوٹا صرف دہی لانے کے لئے رکھ لیا جائے تو وہ الگ ہو کر برا بن جاتا ہے۔

Pakistan

Pakistan

چمک کا اشارہ سید خورشید شاہ کی پارٹی ایک مدت سے لگا رہی ہے۔دیکھئے اب ان کی تردید کب آتی ہے اس لئے کہ انہیں بھی ماسٹر آف مک مکا ہی کنٹرول کرتے ہیں۔عدالتوں کے اوپر انگلی اٹھا کر در اصل وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم بھی اپوزیشن ہیں یہ تو پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ دو بڑی پارٹیوں کو یہ غصہ ہے کہ یہ تیسرا کون آ گیا ہے جو ہمارے دائرہ اختیار کو چیلینج کر رہا ہے۔مرحوم ارشد خان کا سٹول اور اس پے کھڑا شخص اب دونوں اس دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کی باتوں کی باز گشت آج بھی صرف بنی مالک میں نہیں پورے پاکستان میں محسوس کی جا رہی ہے۔عمارن خان نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر انصاف عدالتوں میں سے نہیں ملے گا تو کیا بندوق اٹھائی جائے گی اس سے مراد یہ ہے کہ لوگ پھر بندوق والوں کی طرف دیکھتے ہیں۔

جیسے جیسے نومبر ختم ہو رہا ہے لگتا ہے نون لیگ اور دیگر پارٹیوں کا ساہ سوکھا ہو رہا ہیان کی گردن سے ایک بوجھ ہلکا ہو رہا ہے۔لیکن اس ملک کی خوشقسمتی یا بد قسمتی کہہ لیجئے بوٹ کے اندر پائوں بدلتا ہے بوٹ بوٹ ہی رہتا ہے لہذہ نون لیگ ایم کیو ایم اور اچکزئیوں کو چھج پتاسے نہیں بانٹنے چاہئیں۔قوم دیکھ رہی ہے کہ کوئی ایک استول تو مہیا نہیں کر رہا؟اور کسی کو بکرے کی طرح سلام تو نہیں کرنا ہو گا۔بنی مالک سے اسلام آباد کا فاصلہ ہزاروں میل ہے اللہ کرے عملا بھی ایسا ہو۔لیکن یہ بات حکمران اور دوسرے سب ذہن نشین رکھیں کہ پائوں کا سائز تو مختلف ہو سکتا ہے لیکن بوٹ کا رنگ ایک ہی ہوگا۔

Iftikhar Chaudhry

Iftikhar Chaudhry

تحریر: انجینئر افتخار چودھری