تحریر: افضال احمد ماں کی محبت کے بارے میں بہت سے لوگوں نے لکھا تو ضرور ہے’ لیکن اُولاد کے پیدا ہو جانے کے بعد کی محبت کا لکھا ہے’ میں آج آپ کو ایک انوکھی محبت بتاتا ہوں جو ماں اُولاد کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اپنی اولاد سے کرنا شروع کر دیتی ہے۔ ایک ماں کو اپنی اولاد سے کس قدر محبت ہوتی ہے اس بارے میں پیر ذوالفقار صاحب فرماتے ہیں ایک عورت کے دل میں بچے کی کتنی محبت ہوتی ہے اس کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ جوان لڑکیاں اس بات کو نہیں سمجھ سکتیں’ جب تک وہ زندگی کے اس حصہ تک نہ پہنچیں۔ جب خود ماں بنیں گی تب محسوس ہو گا کہ ماں کی محبت کیا چیز ہے۔ یہ محبت اللہ ربّ العزت نے ماں کے دل میں ودیعت کر دی کیونکہ اس نے پرورش کرنی تھی’ اس نے بچوں کو پالنا تھا’ ماں کے دل میں ایسی محبت ہے کہ بچوں کو ہر معاملہ میں اپنے اوپر ترجیح دیتی ہے۔
ایک بچی جس کی شادی کو چند سال ہو گئے اور اولاد نہیں ہو رہی’ اپنے گھر میں غمگین مصلے پر بیٹھی رُو رہی ہو گی’ دعائیں مانگے گی’ اے اللہ! مجھے اولاد عطا فرما دے۔ اگر کوئی اس بچی سے پوچھے کہ تمہیں اللہ نے حسن و جمال عطا فرمایا ہے’ اچھی تعلیم عطا کی’ محبت کرنے والا خاوند عطا کیا’ مال و دولت کے ڈھیر عطا کئے’ دنیا کی عزتیں عطا کیں’ ہر نعمت تمہارے پاس موجود ہے’ کیوں پریشان ہو؟ وہ جواب دے گی کہ ایک نعمت ایسی ہے جو سب سے بڑی ہے’ میں اللہ سے وہ مانگ رہی ہوں یہ حج کیلئے جائے گی تو طواف کعبہ کے بعد اولاد کیلئے دعائیں کرے گی’ مقامِ ابراہیم پہ سجدے کرے گی تو اولاد کی دعائیں کرے گی’ غلاف کعبہ کو پکڑے گی تو اولاد کی دعائیں کرے گی’ تہجد کی نماز پڑھے گی تو اولاد کی دعائیں کریگی’ کبھی لیلة القدر میں جاگنا نصیب ہوا تو اولاد کی دعائیں کرے گی۔
آخر یہ کیسی نعمت ہے! جس کی وجہ سے مغموم ہے’ پریشان ہے’ حالانکہ بچی جانتی ہے کہ جب میں ماں بننے لگوں گی نو مہینے کا عرصہ میرا بیماری میں گزرے گا، نہ میرا دل کچھ کھانے کو چاہے گا’ جو کھائوں گی کئی مرتبہ وہ بھی باہر نکل آئے گا’ مجھے بھوک برداشت کرنی پڑے گی’ بیماروں جیسی زندگی گزارنی پڑے گی۔ مگر اس کے دل میں اولاد کی ایسی محبت ہوتی ہے کہ اس سب کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہوتی ہے۔ اس کو یہ بھی پتہ ہے کہ جب وضع حمل کا وقت آتا ہے تو عورت کو اس قدر تکالیف ہوتی ہیں کہ اس کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتا ہے، بچہ ضائع ہو سکتا ہے’ والدہ کی موت بھی ہو سکتی ہے’ لیکن اس سب کے باوجود وہ اس مشقت کو اٹھانے کے لئے تیار ہے۔
Mother
اسے یہ بھی پتہ ہے کہ جب بچہ ہو جائے گا تو دو سال کے لئے مجھے راتوں کو سونے کا موقع نہیں ملے گا۔ میں سارا دن بچے کے کام کروں گی اور رات کو بھی بچے کی خاطر جاگوں گی۔ اس کو یہ بھی معلوم ہے کہ مجھے بچے کی خدمت چند گھنٹے نہیں بلکہ چوبیس گھنٹے کرنی پڑے گی’ مگر اس کی وہ خادمہ بننے کیلئے تیار ہے۔ آخر کیوں؟ اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں اولاد کی محبت ڈال دی۔ لیڈی ڈاکٹروں کو چیک اَپ کروائے گی’ کسی سے پڑھنے کا عمل لے گی’ رات کی تنہائیوں میں قرآن پڑھ پڑھ کر اللہ سے مانگے گی’ آخر یہ کیا ہے؟ یہ اولاد کی محبت ہے۔ جب بچے کی ولادت ہوتی ہے تو ماں کی زندگی میں تبدیلی آجاتی ہے۔ یہ بیچاری اپنے آپ کو بھول جاتی ہے۔ ہر وقت بچے کی فکر لگی ہے’ کبھی اسے پلا رہی ہے’ کبھی سلا رہی ہے’ کبھی پہنا رہی ہے’ کبھی بہلا رہی ہے’ ہر وقت اس کی سوچیں بچے کے بارے میں’ ہر وقت اس کی فکر بچے کے بارے میں’ بچے کو خوش دیکھ کر یہ خوش ہو جاتی ہے اور بچے کو دکھی دیکھ کر غم زدہ ہو جاتی ہے۔
بچے کی پیدائش کے بعد محبتوں کے پیمانے بدل گئے۔ اس کا کوئی قریبی رشتہ دار بچے کو پیار کرے گا تو یہ اسے اپنا نہیں غیر سمجھے گی اور اگر کوئی غیر عورت اس بچے سے محبت کا اظہار کریگی تو یہ اسے اپنا سمجھے گی۔ بچے کی جدائی اس سے برداشت ہو نہیں سکتی۔ کبھی اپنی بہن کے گھر اپنے بچے کو بھیج دیا تو تھوڑی دیر کے بعد فون کرتی ہے کہ جلد پہنچا دیں۔ اور جب بچہ اس کی گود میں آتا ہے تو یہ سمجھتی ہے کہ ساری دنیا کی خوشیاں میری گود میں آگئیں۔ یہ کیا چیز ہے؟ بچے کی محبت ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے ماں کے دل میں ڈال دی ہے۔
یہ پہلے بچے کو کھلاتی ہے پھر خود کھاتی ہے۔ پہلے بچے کو پلاتی ہے پھر خود پیتی ہے۔ پہلے بچے کو سلاتی ہے بعد میں خود سوتی ہے۔ سارا دن اس نے کام کیا’ تھکی ہوئی تھی آنکھیں نیند سے بھری ہوئیں تھیں۔ جیسے ہی لیٹی بچے نے رونا شروع کرد یا، یہ بچے کو اٹھا کے بیٹھ جائے گی’ اپنے آرام کو قربان کر دے گی۔ اگر بچے کو اس کی گود میں نیند آگئی تو وہیں بیٹھی رہے گی’ حرکت بھی نہیں کرے گی’ دل میں یہ آئے گا میری حرکت سے بچہ جاگ نہ جائے’ یہ خود بھی تھکی ہوئی ہے’ جاگ رہی ہے’ لیکن بچے کا جاگنا اس کو گوارا نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ نے اولاد کی محبت ماں کے دل میں ڈال دی ہے۔ چنانچہ ہم نے دیکھا بچہ جوان ہو گیا’ کام کرنے باہر نکلا’ رات کو آنے میں دیر ہو گئی۔ گھر کے سب لوگ اپنے وقت پر کھانا کھا لیں گے۔ اِک ماں ہو گی جو انتظار میں رہے گی۔ بیٹی بھی کہتی ہے امی کھانا کھا لو، میاں بھی کہتا ہے کہ کھانا کھا لو، یہ کہے گی نہیں میں بعد میں کھائوں گی۔
Foot Eating
اس کے دل میں یہ ہوتا ہے معلوم نہیں میرے بیٹے کو کھانا ملا ہو گا یا نہیں’ جب میں اسے دیکھوں گی پھر وہ بھی کھائے گا، میں بھی کھائوں گی، سارے گھر کے لوگ سو جاتے ہیں، یہ ماں بستر پر کروٹیں بدل رہی ہوتی ہے۔ کبھی دروازے کو دیکھتی ہے کبھی فون کی گھنٹی سننے لگتی ہے۔ میرے بچے کا کہیں سے پیغام آئے، دل گھبراتا ہے ‘ اُٹھ کر مصلے پر بیٹھ جاتی ہے’ دوپٹہ آنسوئوں سے تَر کر لیتی ہے۔ اللہ میرے بیٹے کی حفاظت کرنا’ خیریت سے واپس آجائے۔ آخر یہ کیا ہے؟یہ ماں کے دل میں اولاد کی محبت ہے۔ بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ دنیا کے سب لوگ نیکوں سے محبت کرتے ہیں لیکن ماں ایک ایسی ہستی ہے جو بد(بُری) اُولاد سے بھی محبت کرتی ہے۔ خاوند ناراض ہو رہا ہے’ تمہارے پیار نے بچوں کو بگاڑ دیا ہے’ یہ کہے گی یہ تو مقدر تھا ان کا۔ میں کیا کروں آخر میرا بچہ ہے۔
باپ غصّے میں کہہ جائے گا بچے کو کہ گھر سے چلے جائو’ ماں کبھی اپنی زبان سے یہ نہیں کہہ سکتی۔ یہ نیک اُولاد سے بھی محبت کرتی ہے اور بُری اولاد سے بھی محبت کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے دل کو مامتا سے بھر دیا ہے۔ یہ وہ نعمت ہے جو بازار سے نہیں مل سکتی۔ مامتا وہ نعمت ہے جس کی قیمت کوئی ادا نہیں کر سکتا۔ اور اس کو ماں کے سوا کوئی دوسرا سمجھ نہیں سکتا۔ لہٰذا ہمیں اپنی والدہ کی نہایت ہی قدر کرنی چاہئے اور ان کا اہر طرح سے خیال رکھنا چاہئے’ ان کا حکم ماننا چاہئے اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا چاہئے اور ہمیں بھی اپنی والدہ کے لئے خوب دعائیں مانگنی چاہئیں اللہ تعالیٰ ہم کو والدہ جیسی عظیم نعمت کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آج ہمارے ہاں حالات یہ ہیں کہ ہم اپنی والدہ کو آنکھیں نکال نکال کر دکھاتے ہیں’ ماں کو دل ہی دل میں برا بھلا کہتے ہیں’ ماں کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں’ ماں کو گھر میں پڑی ہوئی ایک بے کار چیز سمجھتے ہیں’ ماں سے زیادہ ”ڈسٹ بن” کو اہمیت دیتے ہیں جو کم سے کم ہمارے بیڈ کے پاس تو پڑی ہوتی ہے’ ہماری مائیں ہم سے بات کرتے ہوئے ڈرتی ہیں کہ کہیں بیٹا’ بیٹی مجھے آگے سے غصے سے جواب نہ دے دے ‘ جو ماں ہمارے پیشاپ پر سویا کرتی تھی آج ہمیں اُسی ماں سے جوان ہونے کے بعد گھن آتی ہے’ جو ماں خود بھوکی رہ کر ہمیں اپنا کھانا بھی کھلا دیتی تھی آج ہم اُسی ماں کو دھوکہ دے کر چھپ چھپ کر اپنے بیوی بچوں کو کھلا رہے ہیں’ ماں بلائے جاتی ہے ہم فون پر گرل فرینڈ’ بوائے فرینڈ کو اہمیت دیتے ہیں’ ماں فالتو چیز ہے گرل فرینڈ’ بوائے فرینڈ بہت اہم ہیں ہمارے لئے’ اپنی بیوی کے سامنے ماں کو برا بھلا کہتے ہیں’ ماں کو گھر چھوڑ کر سب سیر و تفریح کو چلے جاتے ہیں’ جس دن ماں کا جنازہ گھرسے نکل جاتا ہے تو اُس دن ہمیں پتہ چلتا ہے اور ہم چیخ چیخ کر کہہ رہے ہوتے ہیں ”کاش میں اپنی ماں کو دکھ نہ دیتا”۔
بھئی! چند دنوں کی مہمان ہوتی ہیں یہ بوڑھی مائیں انہیں گلے سے لگا کر رکھو’ اللہ کی قسم ان مائوں کی موت کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ماں ہی تھی جو بغیر کسی مطلب کے تم سے پیار کرتی تھی’ ماں کے علاوہ دنیا کا کوئی بھی رشتہ لے لو بغیر مطلب کے تمہیں کوئی پیار نہیں کرے گا اور جیسے ہی مطلب نکل گیا تمہیں تمہاری ”اوقات” یاد دلا دے گا۔ دعا میں یاد رکھئے گا’ اہل علم صاحبان سے گزارش ہے میری اصلاح ضرور کریں۔